بھینسے کی قربانی کا حکم
بھینسے کی قربانی کا حکم
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک شخص جو کہ عالم دین بھی ہے اور وہ کہتا ہے کہ بھینسے کی قربانی قرآن وحدیث سے ثابت نہیں۔جو لوگ بھینسے کی قربانی کرتے ہیں۔ وہ جہالت ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں۔؟برائے کرم اس کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔جزاک اللہ۔ سائل: محمد ندیم صابری جامپور
الجواب بعون الملک الوہاب
فتاوٰی فیض رسول میں حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"جاموس یعنی بھینس،بھینسے کی قربانی احادیث سے ثابت ہے کہ جاموس بقر یعنی گائے کی ایک قسم ہے۔ اور بقر کی قربانی احادیث میں مذکور ہے۔ جیساکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ حضورﷺ نے فرمایا ’’ البقرۃ عن سبعۃ والجزور عن سبعۃ، (رواہ مسلم و ابو داؤد اللفظ لہ) یعنی بقر اور اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہے۔(مسلم و ابو داؤد)،
حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ قال کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفرہ فحضر الاضحی فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ (رواہ الترمذی والنسائی وبن ماجہ) :یعنی انہوں نے فرمایا کہ ہم سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ بقر عید آگئی ۔ تو ہم ایک بقر میں سات آدمی شریک ہوئے۔(رواہ الترمذی والنسائی وبن ماجہ)"۔ [فتاوی فیض رسول,جلد دوم،کتاب الاضحیہ،ص 449، شبیر برادرز، لاہور]۔