دار الحرب میں سود لینا کیسا؟

09/21/2017 AZT-24781

دار الحرب میں سود لینا کیسا؟


دار الحرب کے اندر مسلمان کسی کافر کے ساتھ سودی لین دین کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اور دوسری سوال یہ ہے کہ مسلمان کسی دار الحرب کے بینک میں سود ادا کرسکتے ہیں کوئی گھر خریدنے کی صورت میں؟ (حافظ فیاض،بہاولنگر تحصیل منچان آباد، پنجاب،پاکستان)

الجواب بعون الملك الوهاب

اگر مسلمان کا فائدہ ہو تو دار الحرب میں مسلمان  کاکافر کے ساتھ سودی لین دین کرنا جائز ہے اور اسی طرح دار الحرب  میں  حربیوں کے بینک سےسود پر گھر خریدنے کی صورت میں اس بینک کو سود ادا کرنا بھی ہے ۔ 

اس طرح ایک سوال وجواب میں اعلی ٰ حضر ت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتےہیں ۔

سود لینا نہ مسلمان سے جائز نہ ہندو سے ، لاطلاق قولہ تعالٰی وحرم الربٰو۱؎ اما یؤخذ من الحربی فی دارالحرب فمال مباح لیس بربا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ اس ارشاد باری تعالٰی  کے اطلاق کی وجہ سے کہ ''اور اﷲ تعالٰی  نے سود کو حرام کردیا'' لیکن جو کچھ دارالحرب میں  حربی سے لیا جائے تو وہ مباح مال ہے سودنہیں ۔

(۱؎ القرآن الکریم    ۲/ ۲۷۵)

(فتاوٰی رضویہ:ج۱۷،ص۶۳)

اس طرح ایک سوال وجواب میں اعلی ٰ حضر ت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتےہیں ۔

کما نصواعلیہ فی ربا المستامن و مقامرۃ الاسیر فی ردالمحتار عن السیر الکبیرو شرحہ اذادخل المسلم دار الحرب بامان فلا باس بان یاخذ منھم اموالھم بطیب انفسھم بای وجہ کان لانہ انما اخذ المباح علی وجہ عری عن الغدر فیکون طیبا لہ والاسیر و المستامن سواء حتی لو باعھم درھما بدرھمین او میتۃ بدراھم او اخذمالامنھم بطریق القمار فذٰلک کلہ طیب لہ ۲؎ اھ ملخصاً۔

 

جیساکہ فقہاء نے مستامن کے سود اور قیدی کے جوا کے بارے میں  ا س پر نص فرمائی ہے، ردالمحتار میں  سیر کبیراور اس کی شرح کے حوالے سے مذکور ہے جب کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب میں داخل ہو تو اس میں  کوئی حرج نہیں کہ وہ حربیوں  کا مال ان کی رضامندی سے کسی بھی طریقے سے لے کیونکہ اس نے مال مباح ایسے طریقے سے لیا جو کہ دھوکہ سے خالی ہے لہٰذا یہ اس کےلئے حلال ہے، قیدی اور مستامن برابر ہیں ، یہاں  تک کہ اگر کسی نے ان پر دو درہموں  کے عوض ایک درہم بیچا یا کچھ درہموں  کے عوض مردار بیچا یا جوئے کے ذریعے ان کا مال لے لیا تو یہ سب اس کے لئے حلال ہے اھ تلخیص۔(ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار  کتاب البیوع  باب الربا  داراحیاء التراث العربی بیروت۴/ ۱۸۸)

(فتاوٰی رضویہ:ج۱۷،ص۶۳)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء