کافروں کے ملک میں سود کا حکم
کافروں کے ملک میں سود کا حکم
السلام علیکم! معزز مفتی صاحب! میں پچھلے نو سال سے آئر لینڈ میں رہ رہا ہوں اور اب میری بیوی اور بچے بھی یہاں ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں رہائشی کرایہ ہر سال بڑھتا جا رہاہے 850 سے 1400 یورو تک کرایہ ہوچکا ہے اور مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ یہاں کوئی اسلامک بینک نہیں ہے کہ جس سے مورٹ گیج (گروی)پر گھر لے سکیں۔ اگر یہاں آئی رش بینک سے گروی پر گھر لیا جائے تو اس کی گروی کرایے سے کم ہوتی ہے اور ایک طویل مدت کے بعد گھر بھی اپنا ہو جاتا ہے۔ جو کرایے پر کرتے ہوئے کبھی نہیں ہو سکتا اور ایسے گھر میں پریشانی بھی بہت ہوتی مالک مکان وغیرہ کی طرف سے۔ تو اب کیا میں یہاں کے بینک سے مکان لے سکتا ہوں؟ جو کہ خالص سودی نظام ہے۔
الجواب بعون الملك الوهاب
اگرچہ کہ کافروں کے ملک میں سود لینے پر جواز اور عدم جواز میں علماء کا اختلاف ہے لیکن مذکورہ بالا صورت میں فائدہ مسلمان کا بھی ہے۔ اور اگر ہم یہ حکم دیں کہ وہاں بھی سود حرام ہے تو اس صورت میں مسلمان کا کافی نقصان ہے اور اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ تو ایسے شخص کیلئے جواز کا فتوی دینا زیادہ بہترہے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے:« لَا رِبَا بَيْنَ أَهْلِ الْحَرْبِوَأَهْلِ الْإِسْلَامِ ».ترجمہ: مسلمان اور کافر کے درمیان سودنہیں ہے۔ حوالہ[معرفۃ الآثار والسنن للبیھقی، کتاب السیر، حدیث(18169) جلد 13، صفحہ 276، مطبوعہ دار قتیبہ بیروت]۔
امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک یہی حکم ہے کہ دار الحرب یعنی کافروں کے ملک میں سودی معاملہ کرناجائز ہے۔ حوالہ(فتاوى شامی، فتح القدیر وغیرہ)۔
لہذا آپ اپنے یہاں کے رہنے والے ایسے مسلمان حضرات" جن کو مورٹ گیج کے ذریعے مکان لینے کے نتیجے میں فائدے یا نقصان کا تجربہ ہو یا اس معاملے میں بہتر معلومات رکھتے ہوں" سے مشورہ کرلیں، پھر اگر آپ کو اس میں زیادہ فوائد نظر آئیں تو آپ بھی اس سہولت سے فائدہ اُٹھا لیں وگرنہ احتیاط کریں کہ کہیں کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم۔