قسطوں کے کاروبار کا حکم؟

03/28/2016 AZT-17731

قسطوں کے کاروبار کا حکم؟


ایک شخص نقد کوئی چیز بیچتا ہے تو کم میں اور ادھار یا قسطوں میں زیادہ پیسے لیتا ہے تو کیا سود نہیں ہے؟

الجواب بعون الملك الوهاب

یہ  خرید وفروخت جائز ہے۔

فتاوی فیض الرسول میں ہے:" کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقد قیمت فوراً ادا کرے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے ۔یہ شریعت میں جائز ہے سود نہیں ہے نقد اور ادھار کا الگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے ۔مگر ضروری ہے کہ سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کر دے کہ اس سامان کی قیمت نقد خرید و تو اتنی ہے اور ادھار خریدو تو اتنی ہے(تو یہ جائز ہے)"۔ [فتاوی فیض الرسول، جلد:2، صفحہ:380، مطبوعہ شبیر برادر لاہور]۔

لیکن اگر قسط کی تاخیر کی صورت میں جرمانہ لگایا تو پھر یہ سوداور عقدسراسرناجائزوحرام ہوگا کہ شریعت مطہرہ میں سود سے سختی کے ساتھ منع کیاگیا ہے اورقرآن مجیدواحادیث مبارکہ میں اس پروعیدات کثیرہ موجودہیں۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء