دیوبندیوں کی کھال سنی حضرات لے سکتے ہیں؟
دیوبندیوں کی کھال سنی حضرات لے سکتے ہیں؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں
دیوبندی کی قربانی کے جانور کی کھال سنی لے سکتے ہیں یا نہیں ؟
اور اس کھال کو فروخت کرکے اس کی رقم سنی مسجد و مدرسہ یا دیگر دینی امور میں صرف کر سکتے ہیں یا نہیں ؟
جبکہ صورت ایسی ہو کہ قربان گاہ میں یہ اذن عام ہو جو جس فرقے والے کے جانور کی کھال چاہے اپنے تصرف میں لے سکتا ہے ـ تو کیا ایسی صورت میں سنی مسجد و مدرسے والے بدمذہبوں کے جانورں کی کھال اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں ؟
اور اگر صورت یہ درپیش آئے کے اگر ہم دیوبندیوں کے جانوروں کی کھال نہ لیں تو دیوبندی اسے لے جائیں گے ، جس سے دیوبندیت کو فروغ ملے گا تو کیا ایسی صورت میں اُن کے جانوروں کی کھال سنیوں کو لینے کی اجازت ہوسکتی ہے یا نہیں ؟
جبکہ بکر کہتا ہے کہ مذکورہ صورت ناجائز و حرام ہے ـ بطور حوالہ کہتا ہے اُس نے علمائے کرام سے سنا ـ کافر سے استعانت حرام ہے اور مذکورہ صورت اسی کی ایک قسم ہے ـ چونکہ بکر عالم دین نہیں ہے تو کیا اس نے صحیح مسئلہ بتایا ؟
اور اگر صحیح مسئلہ نہ بتایا تو بکر پر کیا حکم ہے ؟
اورلوگ مذکورہ بالا طریقے سے دیوبندیوں کے جانوروں کی کھال اپنے استعمال میں لے رہے ہیں ان پر کیا حکم ہے ؟ بینوا توجروا
الجواب بعون الملك الوهاب
الجواب بعون الوھّاب اللھمّ ھدایۃ الحق والصواب
سوال میں مذکور دونوں صورتو ں میں سنی دیوبندیوں کی قربانیوں کی کھالیں لے سکتےہیں،اور انہیں فروخت کر کے مساجد ،مدارس اور دیگردینی امور میں صرف کرسکتے ہیں ۔اور جو لو گ مذکورہ طریقے سے دیوبندیوں کے جانوروں کی کھالیں لے چکے ہیں یا لے رہیں انہیں وہ کھالیں اپنے ہر طرح کے دینی و دنیاوی امورمیں صرف کرنا جائز ہے ۔ اور بکر کا مذکورہ صورت کو ناجائز اور حرام کہنا درست نہیں ۔اور اسے عدم علم کی وجہ سے شرعی مسائل بیان کرنا جائز بھی نہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم