حق پرورش اور اس کی شرائط
حق پرورش اور اس کی شرائط
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اِس مسئلے میں کے ۔ ہندہ ایک نو مسلم ہے جس کے ماں باپ اور خاندان والے سب کافر مشرک ہیں ، ہندہ نے ایک سُنّی مسلمان زید سے شادی کی اور ۴ سال ۳ مہینے اُس کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں رہی جس سے دونوں کو ایک لڑکا ہے ۔ جس کی عمر ابھی ۳ سال ۹ ماہ ہے ۔ ۶ ماہ قبل ہندہ نے بلا عذر شرعی زید سے خلع لی اِس شرط پہ کے لڑکا وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے زید کو دے کے جائے گی ۔ اُس کی وجہ خود ہندہ کے مطابق یہ تھی کے گھر والے کافر ہیں اور وہ کافروں کے پاس بچے کو پالنا نہیں چاہتی ہے ۔ نیز ہندہ نے زید کی شادی اُس کی پہلی مطلقہ بیوی سے کرائی اور زید کی بیوی کو کہا کے اُس کے بیٹے کی دیکھ بھال اُس سے اچھا کوئی نہیں کرسکتا اور چونکہ زید کو پہلی بیوی سے ایک لڑکی بھی تھی تو دو بھائی بہن ساتھ میں رہیں گے ۔ خلع کے پہلے دن سے ہندہ کال سنٹر کمپنی میں نائٹ شِفٹ میں رات ۲ بجے سے دوپہر ۱ بجے تک غیر اسلامی لباس پہن کر غیر محرموں کے بیچ کام کرتی ہے ، جس کی تنخواہ اِتنی ہے جو ہندہ کو خود کم پڑھتی ہے ۔ اب ۶ ماہ بعد ہندہ نے زید پر یہ دعویٰ کیا کے اُس کے بیٹے کا رکھنا شرعاً زید کو جائز نہیں ، کیوں کہ ماں ہونے کے ناتے حق پرورش ماں کو جاتا ہے ، لھذا ہندہ نے ایک فتویٰ لایا جس کے قیاس پر ہندہ کا دعویٰ ہے کے زید کو لڑکا واپس دینا ہوگا ، اور ۷ سال کے بعد ہندہ زید کو بیٹا لوٹا دے گی ۔ اِس پورے معاملے کا شریعت کے مطابق کیا حل ہونا چاہے ـ دلائل و براہین سے اِس کی وضاحت کر حکم شرع نافذ فرمائیں ـ بینواتوجروا ـ (غیاث قریشی رضوی، مہاراشٹر)
الجواب بعون الملك الوهاب
سوال کے سچا ہونے کی صورت میں مذکورہ ہندہ عورت کو لڑکے کا حقِ پرورش نہیں ہے۔ لہذا اس کا باپ ہی اس کی پرورش کریگا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ماں لڑکے کی پرورش 7 برس تک کر ےگی مگر جب ماں میں حقِ پرورش کی شرائط مکمل پائی جائیں۔ان شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ماں بچے کی دیکھ بھال صحیح کرے، اور اگر ماں صحیح دیکھ بھال نہیں کرتی( مثلاً وہ گھر سے اکثرباہر رہتی ہے یا اتنی دیر کیلئےبچے کو چھوڑ کر گھر سے باہر جاتی ہے کہ بچے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے) تو ایسی عورت کو اگرچہ ماں کیوں نہ ہو حقِ پرورش حاصل نہیں ہے۔ اور مذکورہ ماں بھی اپنے اسی فعل کی وجہ سے حق پرورش سے محروم رہے گی۔
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:" (حقِ پرورش ایسی عورت کو حاصل ہوگا) بشرطیکہ معاذاﷲ مرتدہ یا بدکارہ یا بے اطمینان نہ ہوں۔ بے اطمینانی کی یہ صورت: کہ بچہ کوبے حفاظت چھوڑ کر باہر چلی جایا کرتی ہو، ایسی بے پرورائی ماں بھی کرے تو بچے اس سے بھی لے لئے جائیں گے"۔ حوالہ: فتاوى رضویہ، جلد 13، صفحہ 388، رضا فاؤنڈیشن لاہور۔
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:" يُجْبَرُ الْأَبُ عَلَى أَخْذِ الْوَلَدِ بَعْدَ اسْتِغْنَائِهِ عَنْ الْأُمِّ لِأَنَّ نَفَقَتَهُ وَصِيَانَتَهُ عَلَيْهِ بِالْإِجْمَاعِ "۔ ترجمہ: والد کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ بچے کوماں کی نگرانی سے مستغنی ہوجانے کے بعد اپنی تحویل میں لے لے، کیونکہ اس کا خرچہ اور حفاظت بالاجماع باپ پر ہے۔ حوالہ: فتاوى ابن عابدین، کتاب الطلاق، باب الحضانۃ، جلد 3، صفحہ 566، دار الفکر بیروت۔
ہاں اگر عورت اپنی ڈیوٹی چھوڑ دے اور گھر میں رہ کربچے کی صحیح پرورش کرے تو مذکورہ ماں بچے کو اپنی پرورش میں واپس لے سکتی ہے۔ اور اس صورت میں بچے کے تمام اخراجات مع رہائش(اگر ماں کے پاس نہ ہو) باپ پر لازم ہیں۔ حوالہ: بہار شریعت، جلد 2، حصہ 8، صفحہ 253، 254، مکتبہ المدینہ کراچی۔