وارث کا اہم مسئلہ؟

09/25/2017 AZT-24820

وارث کا اہم مسئلہ؟


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اگر ایک مکان تین ورثا میں مشترک ہو، اور ان میں سے دو وراثا تیسرے وارث کو اپنے حصے دینا چاہتے ہیں، تو کیا یہ ہبہ درست ہوگا؟ اگر ہبہ درست نہیں ہوگا تو پھر اس کو درست کرنے کی کیا ترکیب ہوگی؟ جزاک اللہ خیرا (عبد المصطفیٰ بن حسین)

الجواب بعون الملك الوهاب

صورت مسئولہ میں اگر ہبہ کرنے والے دونو ں شخصوں کے   مذکورہ تیسرے شخص کے علاوہ اور رشتہ  دارموجودنہیں ہیں  تو یہ ہبہ بلا کرہت درست ہے ۔اور اگر  اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار موجود ہیں تو  ہبہ میں سب رشتہ داروں میں برابری  ضروری اور کمی پیشی مکروہ ہے۔مگر دیگر رشتہ دار وں کے ہوتے ہو ئے اگر اپنا سارا حصہ مذکورہ  شخص کو دیدیں  توبھی ہبہ درست ہو گا لیکن ایسا کرنے میں گنہگار ہوں گے ۔

بہارشریعت میں ہے۔  بعض اولاد کے ساتھ محبت زیادہ ہو بعض کے ساتھ کم یہ کوئی ملامت کی چیز نہیں کیونکہ یہ فعل غیر اختیاری ہے اور عطیہ میں اگر یہ ارادہ ہو کہ بعض کو ضرر پہنچاوے تو سب میں برابری کرے کم وبیش نہ کرے کہ یہ مکروہ ہے ہاں اگر اولاد میں ایک کودوسرے پر دینی فضیلت وترجیح ہے مثلاً ایک عالم ہے جو خدمت علم دین میں مصروف ہے یا عبادت ومجاہدہ میں اشتغال رکھتا ہے ایسے کو اگر زیادہ دے اور جو لڑکے دنیا کے کاموں میں زیادہ اشتغال رکھتے ہیں انھیں کم دے یہ جائز ہے اِس میں کسی قسم کی کراہت نہیں یہ حکم دیانت کاہے اور قضا کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے مال کا مالک ہے حالت صحت میں اپنا سارا مال ایک ہی لڑکے کو دیدے اور دوسروں کو کچھ نہ دے یہ کرسکتاہے دوسرے لڑکے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرسکتے مگر ایسا کرنے میں گنہگار ہے۔(بحر الرائق)(بہارشریعت :ج۳،ح۱۴،ص۸۰)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء