والدہ ،بہن اور چچا کے درمیان تقسیم ِوراثت
والدہ ،بہن اور چچا کے درمیان تقسیم ِوراثت
الجواب بعون الملك الوهاب
مسئلہ از6
میت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظہرہ بی بی (والدہ) سعیدبی بی (بہن ) محمود شاہ (چچا)
1 3 2
سائل کا اپنے سوال میں سچّا ہونے کی صورت میں حکم شرعی یہ ہے کہ صور ت مسئولہ میں میت کی تجہیزوتکفین کے اخرجات نکالنے اوراس پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے اوراسی طرح کو ئی وصیت کر گیا ہو تو اسےپوراکرنےکے بعدمرحوم (ندیم شاہ)کے کل ترکہ(زمیں وغیرہ ) کا تیسرا حصہ والدہ اور آدھاحصہ بہن کا ہے اوراس کے علاوہ بچ جانے والاساراترکہ چچا کو ملے گا ۔
چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
"اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗۤ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ " ترجمہ کنزالایمان :اگر کسی مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے(سورۃ النساء :آیۃ ۱۱) اوراسی طرح قرآن مجید میں ہے "فَاِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗۤ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ "ترجمہ کنز الایمان :پھر اگر اس (میت)کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہائی(حصہ ہے )
اور حدیث مبارکہ میں ہے :
بخاری و مسلم ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: ''فرض حصوں کو فرض حصے والوں کو دے دو اور جو بچ جائے وہ میت کے قریب ترین مرد کو دے دو۔''
(صحیح البخاري''،کتاب الفرائض،باب میراث الولد...إلخ،الحدیث:۶۷۳۲،ج۴،ص۳۱۶)
لہٰذا مرحوم (ندیم شاہ )کے ترکہ (زمیں وغیرہ)کے کل چھ حصے کیئےجائیں جن میں سے 2حصے والدہ ،3حصے بہن اور 1حصہ چچا کا ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم