والدہ،بہن،بیوی،اور چچا کے درمیان تقسیمِ ترکہ

04/21/2018 AZT-26166

والدہ،بہن،بیوی،اور چچا کے درمیان تقسیمِ ترکہ


کیا فرماتے ہیں علماءکرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ذاکر شاہ کا انتقال ہو ااور اس کے ورثاء والدہ (عطاء الہٰی)اور ایک بہن(تسلیم بی بی )اور ایک بیوی (مظہر ہ بی بی )اور ایک چچا(محمود شاہ )ہیں ۔ذاکر شاہ کا ترکہ ان ورثاء میں شرعیت کے مطابق کیسے تقسیم ہو گا ؟قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنائیت فرمائیں ۔

الجواب بعون الملك الوهاب

مسئلہ از12

میت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عطاء الہٰی(والدہ)             بیگم(مظہر ہ بی بی)            تسلیم بی بی (بہن )           محمود شاہ (چچا)   6                          3                            3                       عصبہ       

سائل کا اپنے سوال میں سچّا ہونے کی صورت میں حکم شرعی یہ ہے کہ صور ت مسئولہ میں میت کی تجہیزوتکفین کے اخرجات نکالنے اوراس پر  کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے اوراسی طرح   کو ئی وصیت کر گیا ہو تو اسےپوراکرنےکے بعد مرحوم (ذاکرشاہ) کے کل ترکہ(زمیں وغیرہ ) کاچوتھا حصہ بیگم اور  آدھاحصہ بہن کا ہے اوربیگم کوچوتھا حصہ  دینے کےبعد جو ترکہ بچ جائےگااس کا تیسرا حصہ والدہ کو ملے گا ،اورچچا  اس صورت میں محروم رہے گا  یعنی اسے  کچھ نہیں ملے گا چنانچہ قرآن مجید میں ہے :

"وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّکُمْ وَلَدٌ"ترجمہ کنزالایمان :اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی(حصہ ) ہے  اگر تمہارے اولاد نہ ہو۔(سورۃ النساء :آیۃ۱۲) اوراسی طرح قرآن مجید میں ہے "اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗۤ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ " ترجمہ کنزالایمان :اگر کسی مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے  اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے(سورۃ النساء :آیۃ ۱۱) اورمزید قرآن مجید میں ہے "فَاِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗۤ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ "ترجمہ کنز الایمان :پھر اگر اس (میت)کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے  تو ماں کا تہائی(حصہ ہے )۔(سورۃ النساء :آیۃ ۱۱)

اور حدیث مبارکہ میں ہے :

 بخاری و مسلم ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: ''فرض حصوں کو فرض حصے والوں کو دے دو اور جو بچ جائے وہ میت کے قریب ترین مرد کو دے دو۔''

(صحیح البخاري''،کتاب الفرائض،باب میراث الولد...إلخ،الحدیث:۶۷۳۲،ج۴،ص۳۱۶)

اور بہار شریعت میں ہے :

اگر ماں کے ساتھ شوہر اور بیوی میں سے بھی کوئی ایک ہو تو پہلے شوہر یا بیوی کا حصہ دیا جائے گا پھرجو بچے گا اس میں سے ایک تہائی ماں کو دیا جائے گا(بہارشریعت:ج۳،ح ۲۰،ص۱۱۲۸)

لہٰذا مرحوم (ذاکر شاہ )کے ترکہ (زمیں وغیرہ)کے کل بارہ  حصے کیئےجائیں جن میں سے 3حصے والدہ ،6حصے بہن اور 3حصےبیگم کےہیں ۔اور چچا کو اس صورت میں کچھ بھی نہیں ملے گاکیونکہ چچا عصبات میں سے ہے اور عصبہ وہ ہوتا ہے جو اصحاب فرائض (جن کے حصے قرآن میں مقرر ہیں)سے بچ جانے والا ترکہ لےلے یا تنہا ہونے کی صورت میں سارا ترکہ لےلے ۔

لیکن یہاں اصحاب فرائض والدہ ،بہن اوربیگم کو حصہ دینے کے بعد کچھ بھی نہیں بچتا اس لیئے  چچا کو کچھ نہیں ملے گا ۔واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء