اصلاحِ عمل کے متعلق فتوى

09/06/2016 AZT-22394

اصلاحِ عمل کے متعلق فتوى


اگر گناہ کبیرہ یا صغیرہ انسان سے نا چھوٹے تو اسے کیا کرنا چاہیے کہ انسان ان چیزوں سے پاک ہوجائے اور دوسرا میں اگر دنیا میں کچھ ایسے کام کرنا چاہوں تو ایسا کروں کہ جس سے اللہ اور اس کا حبیب خوش ہو؟ (محمد عاصم جلیل،سعودی عرب جبیل)

الجواب بعون الملك الوهاب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ ترجمہ:بے شک بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے، پھر جب گنا ہ چھوڑتا ہے او رمغفرت طلب کرتا  ہے اور توبہ کرتا ہے تو اس کےدل کو (سیاہ نکتہ سے) صاف کردیا جاتا ہے۔ اور دوبارہ گناہ کرے تو سیاہی کو بڑھا دیا جاتا ہے حتی کہ اس کا دل کالا سیاہ ہوجاتا ہے۔ ترمذی شریف، حدیث(3334)۔

بندہ کثرتِ گناہ کی وجہ سے بعض اوقات گناہ کے دلدل میں پھنس جاتا ہےاور اس سے نکلنے میں مشکل ہوتی ہے۔ تو ایسے وقت میں بندے کو زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اور اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اتباع میں گزارنی چاہیے کہ اس سے اللہ عزوجل اور خود رسول اللہ راضی ہونگے۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء