کس عیب کی وجہ سے قربانی جائز نہیں؟

08/18/2016 AZT-21985

کس عیب کی وجہ سے قربانی جائز نہیں؟


السلام علیکم مفتی صاحب!میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون عیوب ہیں جن کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہوتی؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔ عبد الخبیر آزاد، پشاور۔

الجواب بعون الملك الوهاب

قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی ۔مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔

(1): جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اوس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔

(2): جس جانور میں جنون ہے اگر اس حد کا ہے کہ وہ جانور چرتا بھی نہیں ہے تو اوس کی قربانی ناجائز ہے اور اس حد کا نہیں ہے تو جائز ہے۔

(3): خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے۔

 (4): اتنا بوڑھا کہ بچہ کے قابل نہ رہا یا داغا ہوا جانور یا جس کے دودھ نہ اترتا ہو ان سب کی قربانی جائز ہے۔ خارشتی جانور کی قربانی جائز ہے جبکہ فربہ ہو اور اتنا لاغر ہو کہ ہڈی میں مغز نہ رہا تو قربانی جائز نہیں۔

 (5): جس کے دانت نہ ہوں یاجس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اس کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے۔

(6): جس کی ناک کٹی ہو یا علاج کے ذریعہ اوس کا دودھ خشک کر دیا ہو اورخنثٰی جانور یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں اور جلالہ  جو صرف غلیظ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔

(7): بھیڑ یا دنبہ کی اون کاٹ لی گئی ہو اس کی قربانی جائز ہے اور جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو اوس کی قربانی ناجائز ہے۔

(8): جس کے کان یا دم یا چکیکٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔  اور اگر کان یا دم یا چکی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے۔  جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو اوس کی ناجائز ہے۔  اور جس کے کان چھوٹے ہوں اوس کی جائز ہے۔ [بہار شریعت،جلدسوم،حصہ 15،ص340-341،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی]

  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء