کفو / نکاح
کفو / نکاح
الجواب بعون الملك الوهاب
صورت مسئولہ میں آپ اپنی بیوی کا کفو ہیں اور آپ کا نکاح درست ہے اور جج کا آپ کے حق میں فیصلہ صحیح ہے کیو نکہ مال میں کفو کے یہ معنی ہیں" کہ مرد کے پاس اتنا مال ہو کہ مہر معجل اور نفقہ دینے پر قادر ہو۔ اگر پیشہ نہ کرتا ہو تو ایک ماہ کا نفقہ دینے پر قادر ہو، ورنہ روز کی مزدوری اتنی ہو کہ عورت کے روز کے ضروری مصارف روز دے سکے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ مال میں یہ اس کے برابر ہو"۔(خانیہ، درمختار)(بہار شریعت :ج۲،ح۷،ص۵۴)
آپ کا مہرمعجل نہیں ، غیر معجل تھا اور آپ اپنے پیشہ تعلیم یا کسی اور دستکاری سے روز کی مزدوری اتنی کرسکتے تھے کہ بیوی کے روز کے ضروری مصارف روز دے سکتے ۔کیونکہ آپ جسمانی طور پر تندرست تھے ۔یا آپ کے خاندان کا عرف یہ ہو کہ ماں باپ بہو بیٹے کی کافی خبر گیری رکھتے ہوں (یعنی نفقہ اور دیگر ضروری اخراجات پورے کرتے رہتے ہوں )توبھی آپ اپنی بیوی کا کفوہیں ۔
لہٰذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کا کفو ہیں اور آپ کا نکاح درست ہے اور جج کا آپ کے حق میں فیصلہ صحیح ہے۔آپ اپنی بیوی کے ساتھ میاں بیوی کی طرح زندگی گذار سکتے ہیں ۔
اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں ۔
اور کفو وہ ہے جس کے قوم، مذہب، چلن، پیشے وغیرہ میں کوئی ایسا عیب نہ ہو جس کے سبب اس کے ساتھ نکاح اولیائے دختر کے لئے اہل عرف کے نزدیک موجب ننگ وعار وبدنامی ہو، نہ ایسی حالت محتاجی ناداری بے حرفگی و بے سامانی میں ہو کہ عورت کا نفقہ واجبہ نہ چل سکے، یا جس قدر مہر شرعاً یا عرفاً پیشگی دینا ٹھہرا ہے نہ دے سکے۔
درمختار میں ہے: تعتبر فی العرب والعجم دیانۃ ومالا بان یقدر علی المعجل ونفقۃ شھر لو غیر محترف والافان کان یکتسب کل یوم کفایتھا لو تطیق الجماع وحرفۃ ۱؎ اھ ملخصاً۔
عرب وعجم میں کفوکے لئے دینداری اور مال کا اعتبار ہوگا کہ وہ مہر معجل دینے پر قادرہو اور وہ کاروبار والا نہ ہو تو ایک ماہ کا خرچہ اداکرنے پر قادر ہو، ورنہ اگر وہ کاروبار والا ہے تو روزانہ بیوی کو کفایت کے لئے نفقہ کی قدرت رکھتا ہو اگر عورت کو جماع کی برداشت ہو ورنہ مہر معجل کی قدرت کافی ہے اور برابری معتبرہے پیشہ میں اھ ملخصاً (ت)
(۱؎ درمختار باب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۵)
پس اگر شخص مذکور ان سب نقائص سے خالی تھا اور نکاح باذن دختر ہوا تو بلا شبہ صحیح وتام ونافذ ہوگیا جس میں ناموجودی وناراضی پدر کچھ خلل انداز نہیں۔ نہ اس کا نوکرنہ ہونا مخل ہوسکتاہے جبکہ وہ اور مال رکھتاہو یا کسی دستکاری سے اپنے اور زوجہ کے کھانے پینے کے قابل ہوسکتا ہے یا حسب عادت بلد اس کے ماں باپ بہو بیٹے کی کافی خبر گیری رکھیں اور کچھ مہر پیشگی دینا ہو تو اس کے ادا پر بھی قادر ہو،
درمختار میں ہے: الصبی کفو بغنی ابیہ وامہ بالنسبۃ الی المھر المعجل لاالنفقۃ لان العادۃ ان الاباء یتحملون عن الابناء المھر لا النفقۃ ذخیرۃ۲؎ اھ ملخصا۔
لڑکا باپ یا ماں کے غنی ہونے کی وجہ سے مہرکے بارے میں کفو ہوسکتا ہے کیونکہ عادۃ والدین لڑکوں کے مہر کو خود برداشت کرتے ہیں، نفقہ کے معاملہ میں والدین کا غنا کارآمد نہیں کیونکہ والدین نفقہ کی کفالت نہیں لیتے، ذخیرہ، اھ ملخصا۔ (ت)
(۲؎ درمختار باب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۵)
ردالمحتار میں ہے: مقتضاہ انہ لوجرت العادۃ بتحمل النفقۃ ایضا عن الابن الصغیر کما فی زماننا انہ یکون کفوا بل فی زماننا یتحملھا عن ابنہ الکبیر الذی فی حجرہ والظاھر انہ یکون کفوا بذلک لان المقصود حصول النفقۃ من جھۃ الزوج بملک اوکسب او غیرہ ویؤیدہ ان المتبادر من کلام الھدایۃ وغیرھاان الکلام فی مطلق الزوج صغیرا کان اوکبیرا ۱؎ الخ۔
اس سے حاصل ہو ا کہ اگر نابالغ بیٹے کی طرف سے نفقہ کو اپنے ذمّے لئے جانا عاد ت ہو جیساہمارے زمانہ میں ہے تو بھی کفوہوسکے گا ہمارے زمانے میں تو لوگ اپنے اس رہنے والے بالغ بیٹے کی طرف سے بھی نفقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ تو اس صورت میں کفو ہونا ظاہر ہے کیونکہ مقصد تو لڑکے کی طرف سے بیوی کے لئے نفقہ کا حصول ہے مالک ہونے یا کا سب یا کسی اورطریقہ سے نفقہ حاصل ہو، اور اس بات کی تائید ہدایہ کے کلام سے متبادر ہوتی ہے کہ انھوں نے مطلق خاوند کی بات کی ہے خواہ نابالغ ہو یابالغ ہو الخ (فتاوٰی رضویہ :ج۱۱۔ص ۱۶۶)