نکاح کا مسئلہ

12/28/2017 AZT-25345

نکاح کا مسئلہ


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ۔ زید کا نکاح ہندہ سے تقریباً سات سال پہلے ہوا ، نکاح کے چند ماہ بعد ہی ہندہ کی بعض گھریلوں غیر مناسب روئیے کے سبب زید اپنے اہل خانہ سے الگ ہوکر ہندہ کے ساتھ دوسرے مکان میں رہنے لگا ۔ اس کے بعد بھی ہندہ میں مزید کوئی سدھار نہ آیا جس کے سبب زید اور ہندہ کے درمیان اکثر جھگڑے ہوتے رہے ۔ زید کے بار بار سمجھانے کے باوجود بھی ہندہ میں کوئی تبدیلی نہ آئی ، اسی دوران ایک معمولی سے سی بات کو لے کر زید اور ہندہ کے درمیان کافی بحث تکرار اور جھگڑا ہوا ، اور زید نے ہندہ کو نصیحت کرنے کی غرض سے اور ڈرانے کی نیت سے طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کہے ۔ (یعنی : طلاق ، طلاق ، طلاق) اور لفظ طلاق کے ساتھ اول تا آخر کوئی جملہ ملاکر نہ کہا ۔ مثلاً ” میں تجھے طلاق دیتا ہوں یا طلاق دیا “ وغیرہ ... اس کے بعد ہندہ کئی دنوں تک زید کے ساتھ اس کے گھر میں ہی رہی ۔ جب ہندہ اپنے ماں باپ کے گھر گئی اور وہاں یہ ساری باتیں بتائیں ، ہندہ نے مزید خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ زید نے طلاق ان الفاظ سے کہے ، ”تجھے طلاق طلاق طلاق“ تو اس کے بعد ہندہ کے گھر والوں نے ہندہ کو زید کے گھر جانے سے روک لیا ہے ۔ مذکورہ بالا صورت کے لحاظ سے ہندہ ، زید کے نکاح میں پہلے ہی کی طرح باقی ہے یا نکاح سے نکل گئی ؟ جبکہ زید اپنی بات پر حلفیہ بیان دے رہا ہے کہ ، اس کی نیت صرف ہندہ کو ڈرانے دھمکانے کی تھی نہ کہ طلاق دینے کی ، کیا زید کا اس طرح کا بیان عندالشرع قابل قبول ہے ، جبکہ ہندہ کا بیان زید سے متضاد ہے ! کیا ایسی صورت میں طلاق مغلظہ واقع ہوگی یا نہیں اور زید پر کیا حکم ہے شریعت کا ؟ کسی حکم شرع کے معلوم کئے بغیر ہندہ کے گھر والوں کو اس طرح سے ہندہ کو زید کے گھر نہ جانے دینا کیسا فعل ہے ، اور شریعت کا ہندہ اور اس کے گھر والوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ سائل : غیاث قریشی بھیونڈی

الجواب بعون الملك الوهاب

اگر زید نےصرف اتنے ہی الفاظ کہے کہ’ طلاق طلاق طلاق‘نہ یہ کہا کہ طلاق دی، نہ یہ کہاکہ تجھ کو طلاق  یا اس عورت کوطلاق ، نہ یہ الفاظ کسی ایسی بات کے جواب میں تھے جس سے عورت کو طلاق دینا مفہوم ہو،تو اصلاً طلاق نہ ہوئی، ہندہ بدستورزید کی عورت ہے دوبارہ نکاح کی حاجت نہیں، اور اگرالفاظ طلاق کے ساتھ یا اس بات میں جس کے جواب میں یہ الفاظ  طلاق تھے وُہ لفظ موجود ہوں  جن سے یہ مفہوم ہو کہ اس نے اپنی عورت کو طلاق دی(جیسا کہ ہندہ نے کہا کہ زید نے الفاظ طلاق ان الفاظ سے کہے ’تجھے طلاق طلاق طلاق ‘) یا زیداقرار کرےکہ میں نے یہ الفاظ ہندہ کو طلاق دینے کی نیّت سے کہے تھے تو تین طلاقیں مغلظہ  ہوگئیں ہندہ بے حلالہ اُس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔اوراس صورت میں  زید ایک ساتھ تین طلاق دینےکی وجہ سے سخت گنہگار ہو ا  اسے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ لازمی ہے ۔اور اگر واقع میں زیدنے نیتِ طلاق کی تھی اور اب مُکر رہا ہے تو وبال اس پر ہو گا،اورمستحق عذابِ نار ہوگا، عورت کے پاس جانا اس کے لئے زنا ہوگا عورت پر الزام نہ ہوگا۔

اور ہندہ کے گھر والوں کا ہندہ کو اس لئے اپنے گھر روکنا تاکہ شرعی حکم معلوم ہونے کے بعد شریعت کے مطابق فیصلہ کیا جائے بلکل دوست ہے ۔

فتاوٰی رضویہ  میں ہے :

اگر اس نے اتنے ہی لفظ کہے کہ طلاق طلاق طلاق، نہ یہ کہا کہ دی، نہ یہ کہاکہ تجھ کو یا اس عورت کو، نہ یہ الفاظ کسی ایسی بات کے جواب میں تھے جس سے عورت کو طلاق دینا مفہوم ہو،تو طلاق اصلاً نہ ہوئی، وہ بدستور اس کی عورت ہے دوبارہ نکاح کی حاجت نہیں، اور اگر اس کے ساتھ یا اس بات میں جس کے جواب میں یہ الفاظ تھے وُہ لفظ موجود تھے جن سے یہ مفہوم ہو کہ اس نے اپنی عورت کو طلاق دی یا وہ اقرار کرےکہ میں نے یہ الفاظ عورت کو طلاق دینے کی نیّت سے کہے تھے تو تین طلاقیں ہوگئیں بے حلالہ اُس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔(فتاوٰی رضویہ :ج۱۲،ص۷۸)

اسی طرح فتاوٰی رضویہ میں ہے :

زید نے لفظ ''طلاق طلاق'' چند بار کہا اگر اس سے اپنی زوجہ کو طلاق دینی مقصود تھی تو تین طلاقیں ہوگئیں، بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی،

لانہ ان ثلث فذاک وان ثنی فثالثھما قولہ قولہ" آزاد کیا" لانہ لایحتمل رداولاسباوقدصارت الحال حال المذاکرۃ لانہ قالہ لمدخولہ "طلاق طلاق" کما ذکرہ السائل والاضافۃ فی السابق اضافۃ فی اللاحق کقولہ طلقتک طلقتک۔

کیونکہ اگر تین مرتبہ کہا تو تین، ورنہ اگر دو مرتبہ طلاق کہا تو پھر تیسری طلاق اس کے ''آزاد کیا'' کہنے پر ہوگئی، کیونکہ یہ لفظ ڈانٹ اور جواب بننے کا احتمال نہیں رکھتا، جبکہ پہلے ''طلاق'' کہنے پر مذاکرہ طلاق بھی بن چکا ہے کیونکہ مدخولہ عورت (وطی شدہ) کو طلاق طلاق کہا ہے جیسا کہ سائل نے ذکر کیا ہے، اور پہلے طلاق میں بیوی کی نسبت آخری لفظ میں بھی معتبر ہوگی'جیسا کہ''میں نے تجھے طلاق دی'' میں ہوتا ہے۔

مگر یہ اس کے اقرار پر موقوف ہے کہ اس لفظ''طلاق طلاق'' سے زوجہ کو طلاق دینی مرادتھی اگر اقرار نہ کرے گا اُن الفاظ سے حکمِ طلاق نہ ہوگا اگر واقع میں اس نے نیتِ طلاق کی تھی اور مُکر جائے گا تو وبال اس پر رہے گا

مستحق عذابِ نار ہوگا، عورت کے پاس جانا اس کے لئے زنا ہوگا عورت پر الزام نہ ہوگا۔ خلاصہ پھر ہندیہ میں ہے:

سکران ھربت منہ امرأتہ فتبعھا ولم یظفربھا فقال بالفارسیۃ بسہ طلاق ان قال عنیت امرأتی یقع وان لم یقل شیئا لایقعٍ۱؎۔

ایک نشے والے کی بیوی اس سے بھاگ گئی تو یہ اس کے پیچھے بھاگا اور کامیاب نہ ہوا تو(بالفاظ فارسی) کہا ''تین طلاق'' بعد میں اگر وُہ کہتا ہے کہ میں نے بیوی کو کہا تھا، تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور اگر کچھ نہ کہاتو طلاق نہ ہوگی۔(ت)

(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     الفصل السابع فی الطلاق بالفاظ الفارسیۃ     نورانی کتب خانہ پشاور     ۱ /۳۸۲)

فرت ولم یظفر بھا فقال سہ طلاق ان قال اردت امرأتی یقع والالا۲۔

بیوی بھاگی تو کامیاب نہ ہونے پر اس نے کہا ''تین طلاق'' اگر بعد میں کہے''میں نے بیوی کو کہا ہے'' تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔(ت)( فتاوٰی رضویہ :ج۱۲،ص۱۴۵) واللہ تعالی ٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء