غریب ماں باپ کو، یا مالدار شخص کی نابالغ اولاد کو زکوٰۃ دینا کیسا؟
غریب ماں باپ کو، یا مالدار شخص کی نابالغ اولاد کو زکوٰۃ دینا کیسا؟
الجواب بعون الملك الوهاب
زکوٰۃ کی رقم کوتھوڑا تھوڑاکر کے ادا کرنا جائز ہے۔
۱۔مسئلۂ اول میں سائل کی بہن کے بچوں کاوالد اگر صاحبِ نصاب ہے توسائل کے لیے اپنی بہن کی نابالغ اولاد کو کسی بھی قسم کا تحفہ یا کپڑے وغیرہ زکوٰۃ کی رقم سےدینا جائز نہیں۔
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:یوہیں غنی مرد کے نا بالغ بچے کو (زکوٰۃ) نہیں دے سکتے ۔
(بہارِ شریعت، ج، ۱،ص،۹۲۹)
لیکن اگر بچوں کا والد فوت ہو گیا ہو تو اس صورت میں اگر چہ بچوں کی ماں مالکِ نصاب ہو ، ان کے نا بالغ بچوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تحفہ وغیرہ دینا جائز ہے۔
بہارِ شریعت میں ہےکہ: جس بچہ کی ماں مالکِ نصاب ہے ، اگرچہ اس کا باپ زندہ نہ ہو اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
(بہارِ شریعت، ج، ۱،ص،۹۲۹، مکتبۃ المدینہ)
۲۔مسئلۂ دوم میں ماں باپ کی وضاحت نہیں کہ (یہاں ماں باپ سے مراد اپنے ماں باپ ہیں یا کسی اور کے؟)
اگر سوال میں ماں باپ سے مراد اپنے ماں باپ ہیں تو، سائل کےلیےاپنے سوتیلے ماں باپ کی نابالغ اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
بہارِ شریعت میں ہے: سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ کی اولاد کو(زکوٰۃ )دے سکتا ہے۔
(بہارِ شریعت، ج، ۱،ص،۹۲۸، مکتبۃ المدینہ)
اگر یہاں ماں باپ سے غیر کے ماں باپ مراد ہیں تو، تو خود ماں باپ کوزکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ وہ مستحق ہیں، تو ان کی اولاد کو زکوٰۃ دینے میں حرج نہیں، لیکن زکوٰۃ کی رقم کا مالک بناناضروری ہےاس لیےنا سمجھ بچے کو دینے کی بجاۓ بچے کے والد کوقبضہ کرنے کو دی جاۓ۔
بہارِ شریعت میں ہے کہ: مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے (شخص) کو ( زکوٰۃ) دی جاۓجو قبضہ کرنا جانتا ہو یعنی ایسا نہ ہو کہ پھینک دے یا دھوکہ کھا جاۓ، ورنہ ادا نہ ہوگی، مثلاً نہایت چھوٹے بچہ یا پاگل کودینا، اور اگر بچہ کو اتنی عقل نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ جو فقیر ہو قبضہ کریں۔واللہ اعلم بالصواب
(بہارِ شریعت، ج، ۱،ص،۸۷۵،مکتبۃ المدینہ)