سات حصہ دار گائے پر سوار ہو کر جنت میں جائیں گے؟

09/21/2017 AZT-24791

سات حصہ دار گائے پر سوار ہو کر جنت میں جائیں گے؟


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرح متین اس مسئلہ میں کہ قربانی کے بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں۔ سات حصے دار کیا پُل صراط پر ایک ساتھ بیٹھ کر جائیں گے۔ اور ہم نے جو زندگی میں بیس سے پچیس جانور قربان کئے ہیں ہم کس پر سوار ہونگے، برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔ تاکہ دل میں جو خیال بار بار آتا ہے اس کا تسلی بخش جواب مل سکے۔ فقط والسلام (محمدطارق مصطفی، اتر پردیش انڈیا)

الجواب بعون الملك الوهاب

قربانی کاجانو ر قربانی کرنے والے کے لئے پل صراط پرسواری کاکام دے گا، یہ کسی قابل اعتمادولائق التفات روایت سےثابت نہیں ، اور جب یہ ثابت ہی نہیں توقربانی کابڑاجانو رجس میں سات حصے ہوتے ہیں  اس  جانور پر سات آدمیوں کے ایک سات  بیٹھ کر یا قربانی کے پہلے یا دوسرے جانور پرسوارہو کر  پل صراط پر سے گذرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا  ۔

حافظ تلخیص الحبیر 4؍ 138 میں لکھتے ہیں

’’ حديث  : عظموا ضحايا كم ، فإنها علي الصراط مطايا كم ، لم أره ، وسبعه في  الوسيط ، وسبقهما في لنهاية، قال : وقال ابن الصلاح : هذا الحديث غير معروف ولا ثابت فيما علماه ،، انتهي وقد اشار ابن العربي إليه في شرح الترمذي بقوله :’’ ليس في فضل الأ ضحية حديث صحيح ، ومنها قوله : أنها مطايا كم إلي الجنة ،’’ قال الحافظ : أخرجه صاحب مسند الفردوس من طريق ابن المبارك عن يحيي بن عبدلله بن موهب عن أبيه عن ابي هريرة رفعه : استقرا هو اضحاياكم فإنها مطايا كم علي الصراط ، ويحيي ضعيف جداً ،،

 کہ میں نے حدیث "عظموا ضحايا كم ، فإنها علي الصراط مطايا كم"کو نہیں دیکھا۔اور ابن صلاح نے کہا کہ یہ حدیث غیر معروف ہے اور ان احادیث میں موجود نہیں جن کو ہم جانتے ہیں اور ابن عربی نے ترمذی کی شرح میں اسی کی طرف اشارا کیا ہے،اپنے اس قول سےکہ "قربانی کی فضیلت میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ہے "اور ان (احادیث غیرصحیحہ ) میں سے یہ رویت  بھی ہے "أنها مطايا كم إلي الجنة" اور حافظ نے کہا  کہ اس حدیث کو صاحب مسند الفردوس نے  ابن مبارک اور انہوں نے یحیٰ بن عبداللہ بن موھب اورانہوں نے  اپنے باپ  اور انہوں نے حضرت ابوھریرہ کے واسطہ سے مرفوعاروایت کی ہے۔ اور کہا ہے کہ اس  حدیث کی سند میں یحیٰ  شدید ضعیف  ہیں ۔

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء