بینک کی آمدنی سےاولاد اکا کاربارکرنا کیساہے

01/30/2018 AZT-25785

بینک کی آمدنی سےاولاد اکا کاربارکرنا کیساہے


کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ اگر بینک کی آمدنی اپنے بچوں کو بھی دی جائےاور وہ اس سے کوئی کاروبار کریں کیا یہ ان کی اولاد کیلئے جائز ہیں ؟

الجواب بعون الملك الوهاب

بینک کی آمدنی سے اگرآپ کی مراد  سودی رقم ہے جو  بینک سے سیونگ اکاؤنٹ یا اس کے علاوہ دیگر ذراع سے حاصل کی جاتی ہے ،وہ آمدنی نہ تو خود آپ کیلئے حلال ہے اور نہ ہی آپ کے بچوں  کیلئے اور نہ ان  کی   اولاد در اولاد کیلئے حلال ہے ۔خواہ  اس  آمدنی کو کار و بارکی صورت میں صرف کریں  یا اس کے علاوہ کو ئی اور صورت ہو،ہر صورت میں حرام ہے۔بلکہ وہ  آمدنی مستحقین ِزکوٰۃ کو ثواب کی نیّت کے بغیردینا ضروری ہے ۔

اور اگر بینک کی آمدنی سے آپ کی مراد بینک میں کسی طرح کی ملازمت کرنے کی آمدنی ہے ،تو بینک میں  ہر اس ملازمت کی آمدنی بھی حرام ہے جس ملازمت  میں سودی دستویزات  لکھنی پڑی یا سود کا  گھواہ بننا پڑے ، ہاں جن  ملازمت میں سودی کاغذات نہیں لکھنے ہوتے اور نہ سود کا کھواہ بننا ہوتاہے مثلا دربان ،پیون اور ڈرائیور وغیرہ یہ سب ملازمتیں جائزہیں ،اور ان کی امدنی بھی جائز ہے ۔

صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے سود کھانے والے ،سود

کھلانے والے ،سودی کاروائی لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب

کے سب برابرہیں ۔

(صحیح مسلم ،کتاب المساقات :ص۱۵۹۸)

اس حدیث میں چونکہ سودی کاغذات لکھنے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی گئی ہے اس لیےبینک

کی کوئی ایسی ملازمت جائز نہیں ہے جس میں سود کے کاغذات لکھنے پڑیں ۔اور جن لوگوں کو سودکے

کاغذات لکھنا نہیں ہوتے ہیں مثلادربان ،پیون اور ڈرائیور ان کی ملازمتیں جائز ہیں ۔

                                                       (وقار الفتاوٰی :ج۳،ص۳۴۲)

 

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء