طلاق رجعی، بائن اور خلع کا مسئلہ

08/25/2016 AZT-22153

طلاق رجعی، بائن اور خلع کا مسئلہ


سلام ! کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری اپنی بیوی سے لڑائی ہوگئی میں نے اس کو گھر آنے کا کہا اس نے منع کیا میں نے طلاق دے دوں گا اس نے کہا کہ میں آپ کی دھمکی میں آنے والی نہیں اور میں نے میسج پہ ایک طلاق دے دی ، میرے میسج سے کیا ایک طلاق ہوگئی؟ دوسرا مسئلہ یہ کہ کیا تین مہینے کے بعد بین ہوجاتی ہے اورآٹومیٹک دوسری طلاق ہوجاتی ہے اگر ایسا ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے کہ یہ دوسری ہونے سے رک جائے۔ اور تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے صاف منع کردیا ہے کہ میں دو اور طلاق نہیں دوں گا بیوی کہتی ہےمیں عدالت سے خلع لے لوں گی میں نے کہا جاؤ عدالت چلی جاؤ ۔ اگر عدالت مجھے کہتی ہے کہ آپ طلاق دو اور میں نہیں دیتا اور پھر عدالت اپنی طرف سے خلع دے دیتی ہے تو اس کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ (رضوان حسین)

الجواب بعون الملك الوهاب

آپ نے اپنی بیوی کو جو طلاق کا میسج بھیجا تو اس سے  ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔ حوالہ: رد المحتار، کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، جلد2، 246، دار الفكر-بيروت۔

اور طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت(تین حیض)کے ختم ہونے سے پہلےعورت کو دوبارہ  اپنی زوجیت میں بغیر نکاح کے لا سکتے ہیں۔  حوالہ:بہار شریعت، جلد2، صفحہ 170، مکتبہ المدینہ کراچی۔

اور اگر عدت کے اندر اپنی بیوی  کو رجوع نہیں کیا  اور عدت ختم ہوگئی تووہی پہلے والی ایک  طلاق رجعی طلاق بائن میں تبدیل ہو جائیگی، اب نکاح کے بغیر واپس اپنی زوجیت میں نہیں لا سکتے۔ عدت کے ختم ہونے سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوتی۔

 اور  طلاق بائن ہونے کی صورت میں عورت آزاد ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کرسکتی ہے اور  اس صورت میں اسے خلع لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ہاں اگر عدت کے دوران اس نے خلع لی  مرد کی اجازت کے بغیر  تو اس خلع کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ شیخ التفسیر والحدیث حکیم الامت مفتی احمد یا ر خان نعیمی بدایونی رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں:" معلوم ہوا کہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے طلاق کا اس کو حق ہے عورت کو نہیں نہ خلع میں نہ بغیر خلع،  یعنی خلع میں بھی طلاق مرد کی مرضی پر موقوف ہوگی آج کل عوام نے جو خلع کے معنی سمجھے ہیں کہ عورت اگر مال دے دے تو بہر حال طلاق ہوجائے گی( جس طرح ہمارے ہاں بھی کورٹ سے شوہر کی رضا کے بغیر ہی فیصلہ دے دیا جاتا ہے) خواہ مرد طلاق دے یا نہ دے یہ غلط ہے" ۔[کنزالایمان مع تفسیر نور العرفان ص 60 تحت آیت مذکورہ مطبوعہ پیر بھائی کمپنی لاہور]۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء