طلاق رجعی، بائن اور خلع کا مسئلہ
طلاق رجعی، بائن اور خلع کا مسئلہ
الجواب بعون الملك الوهاب
آپ نے اپنی بیوی کو جو طلاق کا میسج بھیجا تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔ حوالہ: رد المحتار، کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، جلد2، 246، دار الفكر-بيروت۔
اور طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت(تین حیض)کے ختم ہونے سے پہلےعورت کو دوبارہ اپنی زوجیت میں بغیر نکاح کے لا سکتے ہیں۔ حوالہ:بہار شریعت، جلد2، صفحہ 170، مکتبہ المدینہ کراچی۔
اور اگر عدت کے اندر اپنی بیوی کو رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہوگئی تووہی پہلے والی ایک طلاق رجعی طلاق بائن میں تبدیل ہو جائیگی، اب نکاح کے بغیر واپس اپنی زوجیت میں نہیں لا سکتے۔ عدت کے ختم ہونے سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اور طلاق بائن ہونے کی صورت میں عورت آزاد ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کرسکتی ہے اور اس صورت میں اسے خلع لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں اگر عدت کے دوران اس نے خلع لی مرد کی اجازت کے بغیر تو اس خلع کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ شیخ التفسیر والحدیث حکیم الامت مفتی احمد یا ر خان نعیمی بدایونی رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں:" معلوم ہوا کہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے طلاق کا اس کو حق ہے عورت کو نہیں نہ خلع میں نہ بغیر خلع، یعنی خلع میں بھی طلاق مرد کی مرضی پر موقوف ہوگی آج کل عوام نے جو خلع کے معنی سمجھے ہیں کہ عورت اگر مال دے دے تو بہر حال طلاق ہوجائے گی( جس طرح ہمارے ہاں بھی کورٹ سے شوہر کی رضا کے بغیر ہی فیصلہ دے دیا جاتا ہے) خواہ مرد طلاق دے یا نہ دے یہ غلط ہے" ۔[کنزالایمان مع تفسیر نور العرفان ص 60 تحت آیت مذکورہ مطبوعہ پیر بھائی کمپنی لاہور]۔