ڈرانے کی نیت سے طلاق دینا
ڈرانے کی نیت سے طلاق دینا
سوال5: کیا یہ فتویٰ ٹھیک ہے’’
سوال:میں نے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے کے دو مختلف موقعوں میں سے ہر موقع پر محض اسے دبانے اور چپ کرانے کے لیے دو بار طلاق طلاق کے الفاظ بولے ہیں، جس کے نتیجے میں اس وقت وہ جھگڑا ختم ہو گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں جبکہ میں نے طلاق دینے کی نیت سے طلاق کے الفاظ بولے ہی نہیں تھے تو کیا میرے ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی تھی؟
جواب:آپ نے جو بات لکھی ہے، اگر وہ واقعۃً ایسے ہی ہے تو پھر ہمارے نزدیک ان الفاظ سے کوئی ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ ان الفاظ کا اس طرح بولنا شدید غلطی ہے۔ یہی الفاظ اگر آپ قاضی کی عدالت میں کھڑے ہو کر بولیں گے تو وہ آپ سے نیت پوچھے بغیر طلاق واقع کر دے گا، کیونکہ ان الفاظ کا ایک سنجیدہ مطلب اور طے شدہ مقصد ہے۔ اس مقصد کے بغیر انھیں بولنا ہرگز درست نہیں۔
بہرحال، ہمارے خیال میں آپ کے طلاق کی نیت کے بغیر یہ الفاظ بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آپ کو اپنی اس غلطی پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔ طلاق کے لفظ کی، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے، ایک قانونی حیثیت ہے۔ چنانچہ ان الفاظ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا کسی صورت بھی درست نہیں، لہٰذا آپ یہ عہد کریں کہ آپ آیندہ ان الفاظ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔answered by: Rafi Mufti‘‘
(ثمرین)
الجواب بعون الملك الوهاب
یہ فتوی سراسر غلط ہے اور شریعت کے اصول کے صراحتاً خلاف ہے۔
ڈرانے اور دھمکانے کی نیت سے بھی طلاق کے صریح الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
حوالہ: فتاوى رضویہ، جلد 12، صفحہ 395، رضا فاؤنڈیشن لاہور۔