طلاق کا مسئلہ
طلاق کا مسئلہ
ایک شخص نے اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دی یہ کہہ کر ۱۔ میں تجھے طلاق دیتا ہوں ۲۔ میں تجھے طلاق دیتا ہوں ۔ میں تجھے طلاق دیتا ہوں ۔ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگی؟ ایک ہی وقت میں ایک طلاق اور تین طلاق دینے میں کیا فرق ہے؟ کیا مرد کے پاس اس صورت میں رجوع کا حق ہوگا؟ (مشتاق احمد علوی، ایئر پورٹ روڈ، راولپنڈی)
الجواب بعون الملك الوهاب
صورت مسئولہ میں تین طلاقیں ہوگئیں ، عورت کا حاملہ ہونامنافی طلاق نہیں، یہ محض جاہلانہ خیال ہیں، چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے،اوریہی حکم قرآن وحدیث کاہے ،اور شوہرایک ساتھ تین طلاق دینے کی وجہ سے سخت گنہگار ہوا، اور اب بغیر حلالہ شرعیہ کے دوبارہ اس عورت سے نکاح بھی نہیں کرسکتا ۔ اورایک ہی وقت میں ایک طلاق اور تین طلاق دینے میں فرق یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک طلاق دینے سے صرف ایک ہی طلاق واقع ہو گی اور شوہر کو رجوع کا حق ہو گا ،اور ایک وقت میں تین طلاق دینے سے تیں طلاق واقع ہو جائیں گی اور اس صورت میں شوہر کو رجوع کا حق بھی نہ ہو گا
فتاوٰی رضویہ میں ہے۔
شخص مذکور تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے گنہگار ہوا اور عورت پر تین طلاقیں پڑگئی وُہ نکاح سے نکل گئی، اب بے حلالہ اس سے نکاح نہیں کرسکتا، عورت کا حاملہ ہونا کچھ منافی طلاق نہیں ، یہ محض جاہلانہ خیال ہیں ۔
(فتاوٰی رضویہ :کتاب النکاح والطلاق ،ج۱۱،ص۸۵)
اسی طرح فتاوٰی رضویہ میں ہے
تین طلاقیں ہوگئیں، چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے، اب وہ بغیر حلالے اس سے نکاح نہیں کرسکتا،یہی حکم قرآن وحدیث کا ہے وہ عدت تک یعنی بچہ ہونے تک گھر میں رہے گی اور روٹی کپڑا زید کو دیناہوگا مگر بالکل غیر واجنبی عورت کی طرح رہے اس سے پردہ کرے،۔
قال اﷲتعالٰی اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم، ولاتضاروھن لتضیقواعلیھن، وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملھن۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: عدت والی عورتوں کو وہاں رہائش دو جہاں تم خود رہائش رکھتے ہو اپنی حیثیت کے مطابق، اور ان کو تنگی دے کر ضرر مت پہنچاؤ، پھر اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو خر چہ دو تاوقتیکہ وہ بچے کو جنم دیں۔(ت)
صورت حمل میں یہی مذہب چاروں ائمہ کا ہے۔واﷲتعالٰی اعلم
(۲؎ القرآن الکریم ۶۵ /۶)(فتاویٰ رضویہ ؛کتاب الطلاق ،ج۱۳،ص۵۸)
اسی طرح فتاوٰی رضویہ میں ہے ۔
شریعت کا حکم یہ ہے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں ایک دفعہ میں خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اور رجعت کرلی پھر دوسری دی اور رجعت کرلی اب تیسری دی دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیر حلالہ حرام ہے۔ حلالہ کے یہ معنٰی ہیں کہ اس طلاق کے بعد عورت اگر حیض والی ہے تواسے تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیں، اور اگر حیض والی نہیں مثلاً نوبرس سے کم عمر کی لڑکی ہے یا پچپن برس سے زائد عمر کی عورت ہے اور اس طلاق کے بعد تین مہینے کامل گزجائیں یا اگرحاملہ ہے تو بچّہ پیدا ہولے، اس وقت اس طلاق کی عدّت سے نکلے گی، اس کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بروجہ صحیح کرے یعنی وہ شوہر ثانی اس کا کفو ہو کہ مذہب، نسب، چال چلن، پیشہ کسی میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیاء کے لئے باعثِ بدنامی ہو، یا اگر ایسا کم ہے تو یہ عورت کا ولی نکاح ہونے سے پہلے اس کو یہ جان کر کہ یہ کفو نہیں اس کے ساتھ نکاح کی بالتصریح اجازت دے دے، یا یہ ہوکہ عورت بالغہ کاکئی ولی ہی نہ ہوتو عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے،اور ولی نے اسے غیر کفوجانکر نکاح سے پہلے صریح اجازت نہ دی تو نکاح ہی نہو گا،یونہی لڑکی اگر نابالغہ ہے ہے اور اس کے نہ باپ ہے نہ دادا بھائی چچا وغیرہ ولی ہیں، لوگوں نے کسی غیر کفو سے اس کا نکاح کردیا جب بھی نکاح نہ ہوگا، غرض جب شوہر ثانی سے نکاح صحیح طور پر واقع ہو اور وُہ اس سے ہمبستری بھی کرلےاور اس کے بعد وُہ طلاق دے اور اس طلاق کی عدت اسی طرح گزرے کہ تین حیض ہوں اور حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے، اور حمل رَہ جائے تو بچّہ پیداہونے کے بعد اس کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکتا ہے، ان میں سے ایک بات بھی کم ہوگی تو وہ نکاح نہ ہوگا زنا ہوگا، ہاں نکاح کے لئے چاہے وہ شوہر ثانی سے ہو یا پہلے سے قاضی یا وکیل یا برادری کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ مرد نکاح ثانی کرے تو پہلے بیوی سےاجازت لے، یہ سب باتیں بے اصل ہیں،فقط اس طریقہ کی ضرورت ہے جو ہم نے لکھا اس طرح پر اگر اصلاً نہ ہوا مثلاً دوسرے شوہرنے جب طلاق دی تو اس کے دس۱۰ ہی دن بعد بے عدّت گزرے پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح نہ ہوا نراحرام ہوا اُس صورت میں ضرور ہوگا کہ عورت کو اس سے جُدا کردیا جائے اور نہ مانے تو اسے برادری سے خارج کردیاجائے۔(فتاوٰی رضویہ :ج۱۲ص۸۴)
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم