طلاق کی شرح بڑھنے کی وجہ

10/16/2017 AZT-24873

طلاق کی شرح بڑھنے کی وجہ


معاشرے میں طلاق کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے اور اس کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے پلیز رہنمائی فرمادیں جزاک اللہ ۔ (ھارون الرشید، الرحمن گارڈن، مکان نمبر 138، گلی نمبر7،بلاکA،لاہور سوٹر مل اسٹاپ)

الجواب بعون الملك الوهاب

طلاق کے اسباب میں سے اہم تریں سبب  علم ِدیں اوردین سے دوری ہے، جہاں والدین بچوں کو ضروریات زندگی فراہم کرنےاور دنیاوی تعلیم دلوانے  کی کوشش اور محنت کرتے ہیں وہاں والدین کی یہ بھی ذمہ داری  اور فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے روشناس اور اراستہ  کرائیں تاکہ وہ اپنی زندگی شریعت طیبہ کے اصولوں کے مطابق گزار سکیں  اور اس عظیم رشتہ ِازدواج کے حقوق کی پاسداری اور اس کی نزاکت کی نگہداشت کرسکیں.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بیٹی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنے کی بجائے قرآنی تعلیمات دے کر رخصت کرو گے تو اس کی زندگی زیادہ اچھی گزرے گی۔ کاش شوہر  اور بیوی  کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جاتا مثلاً: زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے ؟ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ شادی کا مطلب کیا ہے ؟ ،شادی کا مقصد کیا ہے؟ اس رشتے کو نبھانا کتنا ضروری ہے ؟ وغیرہ۔میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسہ کم یا ختم ہوجاتا ہے  تو اس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔اس کے علاوہ طلاق کے  اسباب میں سے میاں بیوی کی بد اخلاقی، ایک دوسرے کی حق تلفی، مزاج میں ہم آہنگی کا فقدان، معیشت میں تفاوت، عمر میں غیر معمولی فرق،دوطرفہ رشتہ داروں کی میاں بیوی کے معاملات میں دخل اندازی، گھریلو ناچاکیاں، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، جسمانی نفسیاتی یا جذباتی زیادتی، بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا، انڈین ٹی وی ڈراموں کے غیر اخلاقی اثرات، اورڈراموں میں طلاق کو اہم ترین موضوع کے طور پر پیش کیا  جانا  جو کہ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کرارہاہے ۔ نیز شوہر کا نشہ کرنا، وٹہ سٹہ، خواتین کا این جی اوز کی طرف سے ”خواتین آگاہی“ یعنی بغاوت پر اکسانے کے پروگرامات میں شرکت کرنا، نیٹ اور موبائل پر ناجائز تعلقات، شامل ہیں. یہ مذکورہ اسباب طلاق اور خلع کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اس سلسلہ میں پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ بچوں کوعلم دیں سکھایا جائے ، دیں سے وابستہ کیا جائے اور دینی ماحول میسّرکیا جائے ۔اورنوجوانوں میں اس رشتہ کا شعور بیدا ر کیا جائے ،نکاح کی عظمت ،رشتہ کی اہمیت ،ازدواجی زندگی کی قدر ومنزلت سے آگاہ کیا جائے ،میاں بیوی کے حقوق سے باخبر کیا جائے ،طلاق کی سنگینی بتائی جائے اور اس معاملہ میں شریعت کےاصول اور نظام کیاہے اس سے واقف کرویا جائے۔تاکہ زوجیں  زندگی کو کھلونا سمجھ کر ضائع نہ کریں  ،اور ہر دوفریق اپنے حقوق جانتے ہوئے اس کو ادا کرنے والے بنیں۔آج ہمارے ہاں لباس زیورات ،ناجائز رسومات اداکرنے اور لین دین کی فکر بڑھ گئی ہے لیکن اچھے اخلاق بہترین اوصاف کے حامل لڑکے اور لڑکی کو تلاش کرنے کی فکر ختم ہوگئی ہے،مال مقصود بن گیا کہ جہاں زیادہ ملنے کا امکان ہو وہاں چلیں جائیں چاہے دینی لحاظ سے اور اخلاقی اعتبارسے کتنی ہی کمیاں کیوں نہ رہیں؟ان تمام اصلاحات کے باوجود اگر کسی جائز وجہ سے طلا ق ناگزیر ہوجائے توبصور تِ مجبوری اسلامی طریقہ ٔ طلاق کو اختیار کیا جائے ،تین طلاق کے استعمال سے مکمل اجتناب کیا جائے تاکہ آئندہ غلطی کے احساس اور قصوروں کے اعتراف پر رجوع کا موقع باقی رہے۔اگر مسلمان  شریعت کو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں نافذ کریں لیں  اور ہر موقع میں شریعت پرعمل پیرا ہوں تو ان شاء اللہ معاشرے میں طلاق کی شرح  جو بڑھ رہی ہے  ختم ہو جائے گی بلکہ بلکل ناپید ہو جائے گی اور میاں بیوی ایک پرسکون ،راحت بخش اورخوش گوار زندگی گزارپائیں     گے انشاء اللہ تبارک ۔

و تعالیٰ   واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء