طلاق رجعی اور رجوع کا طریقہ

09/06/2016 AZT-22393

طلاق رجعی اور رجوع کا طریقہ


سلام! کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک طلاق دینے کے بعد ۳ مہینے کے اندررجوع کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے اپنی بیوی کو بہت بار گھر چلنے کا کہا اس نے منع کردیا وہ کہتی ہے کہ میں نے ایک طلاق دی اور طلاق ہوگئی۔ ۳ مہینے کے بعد ہمارا نکاح مکروہ ہوجائے گا ان سب باتوں کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ میں نے اپنی بیوی سے یہ بھی کہا کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں تو کیا اس کو رجوع سمجھا جائے گا اور ۳ مہینے کے بعد اب بائن تو نہیں ہوگی۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ میری ساس نے ۳ مہینے کا وقت مانگا ہے کہ ہمیں سوچنے دو میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ سوچو مگر مجھے اپنی بیوی سے اور بچے سے ملنے دو گی تو کہتی ہیں کہ آپ نے ایک طلاق دے دی ہے آپ بچے سے مل سکتے ہو بیوی سے نہیں اب وہ آپ کے نکاح میں نہیں رہی ۔ میں نے انہیں سمجھایا بھی کہ مجھے ملنے دو بیوی سے اس کو سمجھانے دو کبھی کبھار باہر لے کر چلا جایا کروں گا ساتھ میں بیٹھیں گے ہم تو وہ سمجھ جائے گی اور گھر واپس آجائے گی مگر میری ساس کی بس یہ ایک ہی بات کہ میں نے ایک طلاق دے دی اور وہ اب میرے لیے اجنبی ہے وہ کہیں ساتھ نہیں جائے گی۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔(رضوان حسین)

الجواب بعون الملك الوهاب

آپ کی بیوی کو   ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔

اور طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت(تین حیض)کے ختم ہونے سے پہلےعورت کو دوبارہ  اپنی زوجیت میں بغیر نکاح کے لا سکتے ہیں۔ اور رجوع کرنے(واپس لانے) کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجوع کرے اور رجوع   پر دو عادل شخصوں کو گواہ کرے اور عورت کو بھی اس کی خبر کردے کہ عدّت کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ رجوع كرنے کے الفاظ یہ ہیں "میں نے تجھ سے رجعت کی" یا "اپنی زوجہ سے رجعت کی" یا  "تجھ کو واپس لیا"  وغیرہ۔  حوالہ:بہار شریعت، جلد2، صفحہ 170،171،  مکتبہ المدینہ کراچی۔

اور اگر عدت کے اندر اپنی بیوی  کو رجوع نہیں کیا  اور عدت ختم ہوگئی تووہی پہلے والی ایک  طلاق رجعی طلاق بائن میں تبدیل ہو جائیگی، اب نکاح کے بغیر واپس اپنی زوجیت میں نہیں لا سکتے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ نے عدت(تین حیض) کے ختم ہونے سے پہلے  رجوع کرلیا تو وہ آپ کی بیوی ہے اور اب  آپ کے پاس صرف دو طلاق کا حق باقی ہے۔ اور  آپ کی ساس کا منع کرنا ناجائز ہے۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء