تعزیر کا معنی اور قرآن و حدیث میں اس کے احکام بیان فرمادیں؟
تعزیر کا معنی اور قرآن و حدیث میں اس کے احکام بیان فرمادیں؟
تعزیر کا معنی اور قرآن و حدیث میں اس کے احکام بیان فرمادیں؟ (شاہ جہاں ، ارباب کرم خان روڈ کوئٹہ)
الجواب بعون الوھّاب اللھمّ ھدایۃالحق والصواب
تعزیر کا معنی :
کسی ایسے گناہ پر بغرض تادیب سزادینے کوتعزیرکہتے ہیں جس پر شریعت میں کوئی حدمقرر نہیں ہے ، اورنہ ہی اس میں کوئی کفارہ ہے اورحاکم و قاضی کو اختیار ہے کہ جس طرح سے چاہے مجرم کوسزا دے، کوڑے لگاکر یا قید کر کے یا مارکر یا فقط ڈانٹ پلادے وغیرہ وغیرہ ۔
بہارشریعت میں ہے
کسی گناہ پر بغرض تادیب جو سزا دی جاتی ہے اوس کو تعزیرکہتے ہیں شارع نے اس کے لیے کوئی مقدار معین نہیں کی ہے بلکہ اس کو قاضی کی رائے پر چھوڑا ہے جیسا موقع ہو اوس کے مطابق عمل کرے۔ تعزیر کا اختیارصرف بادشاہ اسلام ہی کو نہیں بلکہ شوہر بی بی کو آقا غلام کو ماں باپ اپنی اولاد کو اُستاذشاگرد کو تعزیر کرسکتا ہے(بہارشریعت :ج۲،ح۹ص۴۰۳)
تعزیرکے احکام :
قرآن مجید میں ہے
(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنْہُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوۡقُ بَعْدَ الْاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾) پارہ ۲۶،الحجرات:۱۱.
اے ایمان والو! نہ مرد مرد سے مسخرہ پن کریں، عجیب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ دو اور بُرے لقبوں سے نہ پکارو کہ ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو توبہ نہ کرے، وہی ظالم ہے۔
اور احادیث مبارکہ میں ہے
امام ترمذی نے عبداﷲ بن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے ، کہ حضور اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب ایک شخص دوسرے کو یہودی کہہ کر پکارے تو اوسے بیس ۲۰ کوڑے مارو ا ورمخنث کہہ کر پکارے تو بیس ۲۰ مارواور اگرکوئی اپنے محارم سے زنا کرے تو اوسے قتل کرڈالو۔''
''جامع الترمذي''،کتاب الحدود، باب ماجاء فیمن یقول لآخر یا مخنّث، الحدیث:۱۴۶۷،ج۳،ص۱۴۱.
اورامام بیہقی نے روایت کی ہے ، کہ حضرت امیر المومنین علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے فرمایا: کہ اگر ایک شخص دوسرے کو کہے اے کافر، اے خبیث، اے فاسق، اے گدھے تو اس میں کوئی حد مقرر نہیں، حاکم کو اختیار ہے جو مناسب سمجھے سزا دے۔(السنن الکبرٰی'' للبیھقی،کتاب الحدود،باب من حد فی التعریض،الحدیث ۱۷۱۴۹،۱۷۱۵۰،ج۸،ص۴۴۰.)
صدرالشریعہ وبدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تعزیرات کے احکام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
گناہوں کی مختلف حالتیں ہیں کوئی بڑا کوئی چھوٹا اور آدمی بھی مختلف قسم کے ہیں کوئی حیادار باعزت اورغیرت والا ہوتا ہے بعض بیباک دلیرہوتے ہیں لہٰذا قاضی جس موقع پر جو تعزیر مناسب سمجھے وہ عمل میں لائے کہ تھوڑے سے جب کام نکلے تو زیادہ کی کیا حاجت(ردالمحتار، بحر)
سادات و علما اگر وجاہت و عزت والے ہوں کہ کبیرہ تو کبیرہ صغیرہ بھی نادراً یا بطور لغزش اون سے صادر ہو تو ان کی تعزیر ادنیٰ درجہ کی ہوگی کہ قاضی ان سے اگر اتنا ہی کہدے کہ آپ نے ایسا کیا ایسوں کے لیے اتناکہہ دینا ہی باز آنے کے لیے کافی ہے۔ اور اگریہ لوگ اس صفت پرنہ ہوں بلکہ ان کے اطوار خراب ہوگئے ہوں مثلاً کسی کواس قدر مارا کہ خوناخون ہوگیا یا چند بارجُرم کا ارتکاب کیا یاشراب خواری کے جلسہ میں بیٹھتا ہے یا لواطت میں مبتلا ہے تواب جرم کے لائق سزا دی جائے گی ایسی صورتوں میں دُرے لگائے جائیں یا قید کیا جائے۔ اُون علما و سادات کے بعد دوسرا مرتبہ زمیندارو تجار اور مالداروں کا ہے کہ ان پر دعویٰ کیا جائے گا اور دربار قاضی میں طلب کیے جائیں گے پھر قاضی انھیں متنبہ کریگا کہ کیا تم نے ایسا کیا ہے ایسانہ کرو۔ تیسرا درجہ متوسط لوگوں کا ہے یعنی بازاری لوگ کہ ایسے لوگوں کے لیے قید ہے۔ چوتھا درجہ ذلیلوں اور کمینوں کا ہے کہ اونھیں مارا بھی جائے مگر جرم جب اس قابل ہوجب ہی یہ سزاہے۔ (ردالمحتار)
تعزیر کی بعض صورتیں یہ ہیں۔ قید کرنا، کوڑے مارنا، گوشمالی کرنا، ڈانٹنا، ترش روئی سے اوس کی طرف غصہ کی نظر کرنا۔(زیلعی)
اگر تعزیر ضرب سے ہو تو کم ازکم تین کوڑے اور زیادہ سے زیادہ اونتالیس کوڑے لگائے جائیں، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں یعنی قاضی کی رائے میں اگردس۱۰ کوڑوں کی ضرورت معلوم ہو تو دس ،بیس کی ہو تو بیس، تیس کی ہو توتیس لگائے یعنی جتنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اوس سے کمی نہ کرے۔ ہاں اگر چالیس یا زیادہ کی ضرورت معلوم ہوتی ہے تو اونتالیس سے زیادہ نہ مارے باقی کے بدلے دوسری سزا کرے مثلاً قید کردے۔ کم از کم تین کوڑے یہ بعض متون کا قول ہے اور امام ابن ہمام وغیرہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک کوڑا مارنے سے کام چلے توتین کی کچھ حاجت نہیں اور یہی قرین قیاس بھی ہے۔ (ردالمحتار)
اگر چند کوڑے مارے جائیں تو بدن پر ایک ہی جگہ ماریں اور بہت سے مارنے ہوں تو متفرق جگہ مارے جائیں کہ عضو بے کار نہ ہوجائے۔ (درمختار)
تعزیر بالمال یعنی جرمانہ لینا جائز نہیں ہاں اگر دیکھے کہ بغیر لیے باز نہ آئیگا تو وصول کرلے پھر جب اوس کام سے توبہ کرلے واپس دیدے(بحر وغیرہ) پنچایت میں بھی بعض قومیں بعض جگہ جرمانہ لیتی ہیں اونھیں اس سے باز آنا چاہیے۔
جس مسلمان نے شراب بیچی اوس کو سزادی جائے۔ یوہیں گویّااور ناچنے والے اور مخنث اور نوحہ کرنے والی بھی مستحق تعزیر ہے۔ مقیم بلاعذر شرعی رمضان کا روزہ نہ رکھے تومستحق تعزیر ہے اور اگر یہ اندیشہ ہوکہ اب بھی نہیں رکھے گا تو قید کیاجائے۔(عالمگیری)
کوئی شخص کسی کی عورت یا چھوٹی لڑکی کوبھگالے گیا اور اوس کا کسی سے نکاح کردیا تو اوس پر تعزیر ہے۔ امام محمد رحمہ اﷲتعالیٰ علیہ فرماتے ہیں كہ قید کیاجائے، یہاں تک کہ مرجائے یا او سے واپس کرے۔ (عالمگیری)
ایک شخص نے کسی مرد کو اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں دیکھا اگر چہ فعل قبیح میں مبتلا نہ دیکھا تو چاہیے کہ شورکرے یا مارپیٹ کرنے سے بھاگ جائے تویہی کرے اور اگر ان باتوں کا اوس پر اثرنہ پڑے تو اگر قتل کرسکے تو قتل کرڈالے اور عورت اوس کے ساتھ راضی ہے تو عورت کو بھی مارڈالے یعنی اوس کے مارڈالنے پر قصاص نہیں۔ یوہیں اگر عورت کو کسی نے زبردستی پکڑا اور کسی طرح اوسے نہیں چھوڑتا اور آبرو جانے کاگمان ہے تو عورت سے اگر ہوسکے، اسے مارڈالے۔(بحر، درمختار)
چور کو چوری کرتے دیکھا اور چلانے یاشور کرنے یا مارپیٹ کرنے پر بھی باز نہیں آتا توقتل کرنے کااختیارہے یہی حکم ڈاکو اور عَشَّار اور ہر ظالم اور کبیرہ گناہ کرنے والے کا ہے۔ اور جس گھر میں ناچ رنگ شراب خواری کی مجلسہواوس کا محاصرہ کرکےگھر میں گھس پڑیں اور خم توڑڈالیں اوراونھیں نکال باہر کردیں اور مکان ڈھادیں۔ (درمختار، بحر)
یہ احکام جو بیان کیے گئے ان پر اوس وقت عمل کر سکتا ہے جب ان گناہوں میں مبتلا دیکھے اور بعد گناہ کر لینے کے اب اسے سزا دینے کا اختیار نہیں بلکہ بادشاہِ اسلام چاہے تو قتل کر سکتا ہے۔ (درمختار)
قتل وغیرہ کے متعلق جو کچھ بیان ہوا یہ اسلامی احکام ہیں جو اسلامی حکومت میں ہو سکتے ہیں مگر اب کہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت باقی نہیں اگر کسی کو قتل کرے تو خود قتل کیاجائے، لہٰذا حالت موجودہ میں ان پر کیسے عمل ہو سکےاس وقت جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے مُقاطَعہ (1)کیاجائے اور ان سے میل جول نشست وبرخاست(2) وغیرہ ترک کریں۔
مسئلہ ۱۳: اگر جرم ایسا ہے جس میں حد واجب ہوتی مگر کسی وجہ سے ساقط ہوگئی تو سخت درجہ کی تعزیر ہوگی، مثلاً دوسرے کی لونڈی کو زانیہ کہا تو یہ صورت حدِ قذف کی تھی مگر چونکہ محصنہ نہیں ہے لہٰذا سخت قسم کی تعزیر ہوگی اور اگر اوس میں حد واجب نہیں مثلاً کسی کو خبیث کہا تو اس میں تعزیر کی مقدار رائے قاضی پر ہے۔(عالمگیری)
دو شخصوں نے باہم مار پیٹ کی تو دونوں مستحق تعزیر ہیں اور پہلے اوسے سزا دیں گے جس نے ابتدا کی۔(درمختار)
چوپایہ کے ساتھ برا کام کیایاکسی مسلمان کو تھپڑمارا یابازار میں اوس کے سر سے پگڑی اوتار لی تو مستحق تعزیرہے۔(عالمگیری)
تعزیر کے دُرّے سختی سے مارے جائیں اور زنا کی حد میں اس سے نرم اور شراب کی حد میں اور نرم اور حد قذف میں سب سے نرم۔(درمختار)
جو شخص مسلمان کو کسی فعل یاقول سے ایذا پہنچائے اگرچہ آنکھ یاہاتھ کے اشارے سے وہ مستحق تعزیر ہے۔ (درمختار)
کسی مسلمان کو فاسق، فاجر، خبیث، لوطی، سود خوار، شراب خوار، خائن، دیوث، مخنث، بھڑوا چور، حرام زادہ، ولدالحرام، پلید، سفلہ، کمین، جواری کہنے پر تعزیر کی جائے یعنی جبکہ وہ شخص ایسا نہ ہو جیسا اس نے کہااور اگر واقع میں یہ عیوب اس میں پائے جاتے ہیں اور کسی نے کہا تو تعز یر نہیں کہ اس نے خود اپنے کو عیبی بنا رکھا ہے، اس کے کہنے سے اسے کیاعیب لگا۔(بحر وغیرہ)
کسی مسلمان کو فاسق کہا اور قاضی کے یہاں جب دعویٰ ہوا اوس نے جواب دیاکہ میں نے اسے فاسق کہا ہے کیونکہ یہ فاسق ہے تو اوس کا فاسق ہونا گواہوں سے ثابت کرنا ہوگا اور قاضی اوس سے دریافت کرے کہ اس میں فِسق کی کیابات ہے اگر کسی خاص بات کا ثبوت دے اور گواہوں نے بھی گواہی میں اوس خاص فِسق کو بیان کیاتو تعزیر ہے اور اگر خاص فِسق نہ بیان کریں صرف یہ کہیں کہ فاسق ہے تو قول معتبر نہیں۔ اور اگر گواہوں نے بیان کیاکہ یہ فرائض کو ترک کرتا ہے تو قاضی اوس شخص سے فرائض اسلام دریافت کریگا اگر نہ بتاسکا تو فاسق ہے یعنی وہ فرائض جن کا سیکھنا اس پر فرض تھا اور سیکھا نہیں تو فاسق ہونے کے لیے یہی بس ہے۔ اور اگر ایسے مسلمان کو فاسق کہا جو علانیہ فِسق کرتا ہے مثلاً ناجائز نوکری کرتا ہے یاعلانیہ سود لیتا ہے وغیرہ وغیرہ تو کہنے والے پر کچھ الزام نہیں۔(درمختار وغیرہ)
کسی مسلمان کو کافرکہا تو تعزیر ہے رہا یہ کہ وہ قائل خود کافر ہو گا یانہیں اس میں دو صورتیں ہیں اگر اوسے مسلمان جانتا ہے تو کافر نہ ہوا۔ اور اگر اوسے کافر اعتقاد کرتا ہے تو خود کافر ہے کہ مسلمان کو کافر جاننا دین اسلام کو کفر جاننا ہے اور دینِ اسلام کو کفر جاننا کفر ہے۔ ہاں اگر اوس شخص میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی بنا پر تکفیر ہو سکےاور اوس نے اسے کافر کہا اور کافر جانا تو کافر نہ ہوگا۔(درمختار، ردالمحتار) یہ اوس صورت میں ہے کہ وہ وجہ جس کی بنا پر اوس نے کافر کہا ظنی ہو یعنی تاویل ہو سکے تو وہ مسلمان ہی کہا جائیگا مگر جس نے اوسے کافر کہا وہ بھی کافر نہ ہوا۔ اور اگر اوس میں قطعی کفرپایاجاتا ہے جو کسی طرح تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تو وہ مسلمان ہی نہیں اور بیشک وہ کافر ہے اور اس کو کافر کہنا مسلمان کو کافر کہنا نہیں بلکہ کافر کو کافر کہنا ہے بلکہ ایسے کو مسلمان جاننا یااس کے کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے۔
کسی شخص پر حاکم کے یہاں دعویٰ کیاکہ اس نے چوری کی یااس نے کفر کیااور ثبوت نہ دے سکاتو مستحق تعزیر نہیں یعنی جبکہ اس کا مقصود گالی دینایاتوہین کرنا نہ ہو۔ (ردالمحتار)
رافضی، بد مذہب، منافق، زندیق، یہودی، نصرانی، نصرانی بچہ، کافر بچہ کہنے پر بھی تعزیر ہے۔ (درمختار، بحر) یعنی جبکہ سنی کو رافضی یابدمذہب یابدعتی کہا اور رافضی کوکہا تو کچھ نہیں کہ اوس کوتو رافضی کہیں گے ہی۔ یوہیں سُنّی کو وہابی یاخارجی کہنا بھی موجب تعزیر ہے۔
حرامی کا لفظ بھی بہت سخت گالی ہے اور حرام زادہ کے معنی میں ہے اس کا بھی حکم تعزیر ہونا چاہیے، کسی کو بے ایمان کہا تو تعزیرہوگی اگرچہ عرف عام میں یہ لفظ کافر کے معنے میں نہیں بلکہ خائن کے معنی میں ہے اور لفظ خائن میں تعزیر ہے۔
سوئر، کتا، گدھا، بکرا، بیل، بندر، اُلّو کہنے پر بھی تعزیر ہے جبکہ ایسے الفاظ علما وسادات یااچھے لوگوں کی شان میں استعمال کیے۔(ہدایہ وغیرہ) یہ چند الفاظ جن کے کہنے پر تعزیر ہوتی ہے بیان کر دیے باقی ہندوستان میں خصوصاً عوام میں آج کل بکثرت نہایت کریہ وفحش الفاظ گالی میں بولے جاتے یابعض بےباک مذاق اور دل لگی میں کہا کرتے ہیں ایسے الفاظ بالقصد نہیں لکھے اور اون کا حکم ظاہر ہے کہ عزت دار کو کہے جس کی اون الفاظ سے ہتک حرمت ہوتی ہے تو تعزیر ہے یااون الفاظ سے ہر شخص کی بے آبروئی ہے جب بھی تعزیر ہے۔
جس کو گالی دی یااور کوئی ایسا لفظ کہا جس میں تعزیر ہے اور اوس نے معاف کردیاتو تعزیر ساقط ہو جائے گی۔ اور اوس کی شان میں چند الفاظ کہے تو ہر ایک پر تعزیر ہے یہ نہ ہوگا کہ ایک کی تعزیر سب کے قائم مقام ہو۔ یوہیں اگر چند شخصوں کی نسبت کہا مثلاً تم سب فاسق ہو توہر ایک شخص کی طرف سے الگ الگ تعزیر ہو گی۔ (ردالمحتار)
جس کو گالی دی اگر وہ ثبوت نہ پیش کر سکا تو گالی دینے والے سے حلف لیں گے اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو تعزیر ہوگی۔ (درمختار)
جہاں تعزیر میں کسی بندہ کا حق متعلق نہ ہو مثلاً ایک شخص فاسقوں کے مجمع میں بیٹھتا ہے یااوس نے کسی عورت کا بوسہ لیااور کسی دیکھنے والے نے قاضی کے پاس اس کی اطلاع کی تو یہ شخص اگر چہ بظاہر مدعی کی صورت میں ہے مگر گواہ بن سکتا ہے لہٰذا اگر اس کے ساتھ ایک اور شخص شہادت دے تو تعزیر کا حکم ہوگا۔(درمختار)
شوہر اپنی عورت کو ان امور پر مارسکتا ہے۔ عورت اگر باوجود قدرت بناؤ سنگار نہ کرے یعنی جو زینت شرعا جائز ہے اوس کے نہ کرنے پر مار سکتا ہے اور اگر شوہر مردانہ لباس پہننے کو یاگودناگودانےکو کہتا ہے اور نہیں کرتی تو مارنے کا حق نہیں۔ یوہیں اگر عورت بیمار ہے یااحرام باندھے ہوئے ہے یاجس قسم کی زینت کو کہتا ہے وہ اوس کے پاس نہیں ہے تو نہیں مار سکتا۔ غسل جنابت نہیں کرتی۔بغیر اجازت گھر سے چلی گئی جس موقع پر اوسے اجازت لینے کی ضرورت تھی۔ اپنے پاس بلایااور نہیں آئی جبکہ حیض ونفاس سے پاک تھی اور فرض روزہ بھی رکھے ہوئے نہ تھی۔چھوٹے ناسمجھ بچہ کے مارنے پر۔ شوہر کو گالی دی، گدھا وغیرہ کہا۔یااوس کے کپڑے پھاڑ دیے۔ غیر محرم کے سامنے چہرہ کھول دیا۔ اجنبی مرد سے کلام کیا۔ شوہر سے بات کی یاجھگڑا کیااس غرض سے کہ اجنبی شخص اس کی آواز سنے یاشوہر کی کوئی چیز بغیر چھوٹے بچہ کو بھی تعزیر کر سکتے ہیں اور اوس کو سزا اس کا باپ یادادا یاان کا وصی یامعلم دے گا اور ماں کو بھی سزا دینے کا اختیار ہے۔ قرآن پڑھنے اور ادب حاصل کرنے اور علم سیکھنے کے لیے بچہ کو اوس کے باپ، ماں مجبور کر سکتے ہیں۔ یتیم بچہ جو اس کی پرورش میں ہے اسے بھی اون باتوں پر مار سکتا ہے جن پر اپنے لڑکے کو مارتا۔(درمختار، ردالمحتار)
عورت کو اتنا نہیں مار سکتا کہ ہڈی ٹوٹ جائے یاکھال پھٹ جائے یانیلا داغ پڑ جائے اور اگر اتنا مارا اور عورت نے دعوٰی کر دیااور گواہوں سے ثابت کر دیاتو شوہر پر اس مارنے کی تعزیر ہے۔ (درمختار)
عورت نے اس غرض سے کفر کیاکہ شوہر سے جدائی ہو جائے تو اوسے سزادی جائے اور اسلام لانے اور اوسی شوہر سے نکاح کرنے پر مجبور کی جائے دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتی۔ (درمختار)اجازت کسی کو دے دی اور وہ ایسی چیز ہو کہ عادۃً بغیر اجازت عورتیں ایسی چیز نہ دیاکرتی ہوں اور اگر ایسی چیز دی جس کے دینے پر عادت جاری ہے تو نہیں مار سکتا۔(بحر)
عورت اگر نماز نہیں پڑھتی ہے تو اکثر فقہاء کے نزدیک شوہر کو مارنے کا اختیار ہے اور ماں باپ اگر نمازنہ پڑھیں یااور کوئی معصیت کریں تو اولاد کو چاہیے کہ اونھیں سمجھائے اگر مان لیں فبہاورنہ سکوت کرےاور اون کے لیے دُعا واستغفار کرے اور کسی کی ماں اگر کہیں شادی وغیرہ میں جانا چاہتی ہے تو اولاد کو منع کرنے کا حق نہیں۔(درمختار، ردالمحتار)(بہارشریعت :ج۲،ح۱۱،ص۳۰۴تا۳۱۱)