تین طلاقوں کا مسئلہ

08/09/2017 AZT-24514

تین طلاقوں کا مسئلہ


السلام علیکم۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور پھر غیر مقلدین کے کہنے پر وہ بغیر حلالہ کے اپنی بیوی واپس لے آیا۔۔ اور ہم اہلِ سنت و الجماعت سے تعلق رکھنےکی بناء پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حرام ہے لیکن اب چند چیزیں طلب ِحل ہیں۔ (1) کیا ہم ان کے ساتھ قطعِ تعلق کر لیں؟ (2) اگر قطعِ تعلق کرتےہیں تو کس بنیاد پراور کیا صورت ہونی چاہیے؟ (3)ایک بندہ اعتراض کر رہا ہےکہ مطلقہ کی اولاد ابھی چھوٹی ہے اس لیے انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ا س سے قطع تعلق نہیں کیا جائے گا کیونکہ معاشرے میں اس سے بھی بڑے بڑے گناہ ہو رہے ہیں لیکن ان کی وجہ سےکوئی قطع تعلق نہیں کرتا۔ اب اس بندہ کے لیے ہمارا کیا جواب ہونا چاہئے؟ لہذا براہ کرم جواب مفصل اور مدلل تحریر فرما کر جلدی ارسال کیجیے گا۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا (حبیب الرحمن، صدر کینٹ لاہور،پاکستان)

الجواب بعون الملك الوهاب

ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مسلک یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک ہی کلمہ کے ذریعہ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کے ذریعہ بیوی مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ یہی قول اکثر صحابہ تابعین اور بعد کے ائمہ اربعہ اور اکثر اہل علم کا ہے، ارو یہی قول قرآن وحدیث واجماع صحابہ سے ثابت ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ۔

قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ(سورۃ بقرۃ:230)

ترجمہ: اگر(کسی نے )اپنی بیوی کوطلاق دی تو اب(اس وقت تک کے لیے اس کے لیے ) حلال نہیں۔ یہاں تک کہ اس خاوند کے علاوہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔

 

قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ:وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔

(کتاب الام ؛امام محمد بن ادریس الشافعی ج2ص1939)

ترجمہ: امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کاظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘

 

قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرٍاَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْھَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْزَکَرِیَّا بْنُ اَبِیْ اِسْحَاقَ الْمُزَکِّیُّ اَنَا اَبُوالْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ نَاعُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہٖ تَعَالٰی {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} یَقُوْلُ اِنْ طَلَّقَھَاثَلَاثًافَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔

(سنن کبریٰ بیہقی ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘

اور اس طرح  کےایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں۔

چاراماموں چاروں مذہب کا اجماع ہے کہ تین طلاقیں ایک جگہ ایک وقت ایک ہی دفعہ ایک ہی لفظ میں واقع ہوجاتی ہیں۔ قال ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما بانت امرأتک وعصیت ربک ان لم تتق اﷲ فلم یجعل لک مخرجا۱؎۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے فرمایا تیری بیوی بائنہ طلاق والی ہوگئی ہے اور تو نے اﷲ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے اگر تو اﷲ تعالٰی کے عذاب سے خوف نہ کرے گا تو پھر تیرے لئے اﷲ تعالٰی کوئی سبیل نہ فرمائے گا۔

 

 (۱؎سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث  آفتاب عالم پریس لاہور ۲۹۹/۱ )

 

وہابی گمراہ بددین اس میں خلاف کرتے اور حرام کو حلال ٹھہراتے ہیں،(فتاوٰی رضویہ :ج۱۳،ص۲۲)

خلاصہ کلام

صورت مسئولہ میں آپ کے عزیز کا اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے باوجود واپس لے آنا اور اس کے ساتھ رہنا حرام اور اشد حرام ہے اور جنسی تعلق قائم کرنا زنا ہے ،

لہٰذا (۱)پہلے آپ اپنے عزیز کواپنی طاقت اور اختیارکے ذریعہ مذکورہ گناہ سے روکیں اور اگر طاقت اور اختیار سے نہیں روک سکتے تو اسے زبان سے روکیں اور اگرزبان سے بھی نہیں روک سکتے تو  پھردل میں اسے برا جاننااور بائیکاٹ کرنا ضروری ہے۔

(۲)مطلّقہ مغلّظہ بیوی کو حلالہ شریعہ کے بغیر اپنے گھر واپس لانے اور اس کے ساتھ رہنے اور جنسی تعلق قائم کرنےیعنی زنا کرنےاورحکم شرعی سے اعراض کرنے  کی بنیاد پر قطع تعلق کر یں۔اور اسکی صورت یہ ہے کہ آپ اور آپ کے تمام رشتہ دار اور سب اہل علاقہ اس کے ساتھ کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا شادی بیاہ پرآنا جانا غرض کہ زندگی کے تمام معاملات چھوڑدیں ۔

(۳)اگر ایک آدمی کوئی  گناہ کررہا ہے اور لوگ اسے منع نہیں کرتے اور اس سے قطع تعلق نہیں کرتے تو اس کا مطلب  اگز یہ نہیں ہے کہ اس گناہ کی وجہ سے  بھی  ہم اسے منع نہ کریں اور اس سے قطع تعلق نہ کریں ۔کیونکہ گناہ کرنے ولالے کو منع نہ کرنا اور اس سے قطع تعلق نہ کرنا یہ اس کی گناہ میں معاونت کرنا ہے اور گناہ کی معاونت بھی گناہ ہے ۔اور اس کے ساتھ ہم دردی یہی ہے کہ اسے گناہ سے منع کیا جائے اور بعض نہ آنے پر قطع کیا جائے  تاکہ آخرت کی رسوائی سے بچ جائے۔اور جہاں تک مطلقہ کی اولاد کا تعلق ہے  تو اسکی پروش شرعا شوہر کے ذمہ ہے اور اگر میاں بیوی ایک ساتھ رہ کرکرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے شریعت نے حلالہ شرعیہ کا راستہ رکھاہے ۔کہ حلالہ شرعیہ کے بعد ایک ساتھ رہ  ہیں

اور اس طرح  کےایک اور سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں۔

اللہ عزوجل فرماتاہے: واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین ۱؎۔ اور اگر تجھے شیطان بھلادے تویا د آنے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں  کے۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم ۶/ ۶۸)

 

تفسیرات احمدیہ میں  ہے: دخل فیہ الکافر والمبتدع والفاسق والقعود مع کلھم ممتنع ۲؎۔ س آیت کے حکم میں  ہر کافر ومبتدع اور فاسق داخل ہیں  اور ان میں سے کسی کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں ۔

 

 (۲؎ التفسیرات لاحمدیہ تحت آیۃ ۶/ ۶۸ مطبع کریمی بمبئی، انڈیا ص۳۸۸)

 

اللہ عزوجل فرماتاہے: ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ۳؎۔ ظالموں  کی طرف میل نہ کرو کہ تمھیں  آگ چھوئے گی۔

 

 (۳؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۱۳)

(فتاوٰی رضویہ :ج۱۵،ص۷)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء