طالب علم کے لئے زکوٰۃ لینا کب جائز ہے؟

06/25/2016 AZT-20777

طالب علم کے لئے زکوٰۃ لینا کب جائز ہے؟


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحبان!

 میرا سوال یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ طالب علم کے لئے صدقات وغیرہ کا استعمال جائز نہیں۔کیا طالب علم صدقات ،زکوٰۃ، وغیرہ لے سکتے ہیں اور ان کا استعمال کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمادیں۔

الجواب بعون الملك الوهاب

طالب علم کا فطرانہ، زکوٰۃ اور صدقات واجبہ  لینا اسی صورت میں جائز ہے جبکہ وہ محتاج ہو۔

صدر الشریعہ بدر  الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"فی سبیل اللہ یعنی راہ خدا میں خرچ کرنا اس کی چند صورتیں ہیں۔مثلاً کوئی شخص  محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے ،سواری اور زادراہ اس کے پاس نہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں کہ یہ راہ خدا میں دینا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہو یا کوئی حج  کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں،مگر اس کو حج کے لئے سوال کرنا جائز نہیں۔یا طالب علم کہ علمِ دین پڑھتا  یا پڑھنا چاہتا ہے، اسے دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہ خدا میں دینا ہے۔(بہار شریعت،جلد1،صفحہ926،مکتبۃ المدینہ کراچی)۔

صدر الشریعہ  مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں :"بہت سے لوگ اپنی زکوٰۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیئے کہ متولی مدرسہ کا اطلاع دیں کہ یہ مال زکوٰۃ ہے تا کہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صرف کرے، کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی"۔ (بہار شریعت،جلد 1،صفحہ926 ،مکتبۃ المدینہ کراچی)۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء