جانوروں کے اگائے گئے چارے پر عشر کا حکم
جانوروں کے اگائے گئے چارے پر عشر کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس زمین کا حصہ موجود ہے اس میں وہ جانوروں کا چارہ اگاتا ہے۔ جس میں سے وہ کچھ بیچ دیتا ہے اور کچھ اپنے جانوروں کے لئے رکھ لیتا ہے۔تو کیا اس صورت میں وہ شخص عشر دے گا یا نہیں؟
الجواب بعون الملك الوهاب
اگر جانوروں کا چارہ باقاعدہ کا شت کیا تو اس میں بھی عشر ہوگا چاہے اسے بیچے یا نہیں بیچے۔ اس لئے کہ ایسی چیز جس سے زمین کے منافع مقصود ہوں اور وہ بالقصد کا شت کی جائے تو اس میں عشر واجب ہوگا۔
تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: "الا فیھا لا یقصد بہ استغلال الارض نحو حطب و قطب۔۔۔وحشیش۔۔۔حتی لو اشغل ارضہ بھا یجب العشر"۔ ترجمہ:ان چیزوں میں عشر نہیں جن سے زمین کے منافع مقصود نہیں ہوتے جیسا کہ ایندھن،نرکل،گھاس لیکن اگر بالقصد انہیں زمین میں کاشت کیا تو ان میں بھی عشر واجب ہوگا۔ [تنویر الابصار مع الدر مختار،جلد3،صفحہ315-316دارالمعرفہ بیروت]۔
اس کے تحت شامی میں ہے: "وان المدار علی القصد حتی لو قصد بذٰلک وجب العشر" ترجمہ: بے شک مدار قصد پر ہے اگر گھاس وغیرہ کو اگانے کا قصد کیا تو ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔[ردا لمحتار علی الدر المختار،جلد3،صفحہ315دارالمعرفہ بیروت]۔