کرائے پر چلنے والی الیکٹرک اشیاء پر زکوٰۃ نہیں
کرائے پر چلنے والی الیکٹرک اشیاء پر زکوٰۃ نہیں
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام ان الیکٹرک اشیاء کے بارے میں جو کرائے پر چلائی گئی ہیں۔ مثلاً ایک شخص نے ایک بہت ہی اعلیٰ قسم کی LCDاور کمپیوٹر سسٹم کرائے پر چلا رہا ہے۔کیا اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی؟
الجواب بعون الملك الوهاب
کرائے پر چلانے کےلئے بنائی ہوئی LCDاور کمپیوٹر سسٹم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔البتہ اگر یہ کرایہ مالِ نصاب کی مقدار کے برابر یا دوسرے مال کے ساتھ مل کر نصاب جتنا ہو جائے تو سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ ہو گی۔
امام اہلسنت،مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں:"(کرائے کے )مکانات پر زکوٰۃ نہیں اگرچہ پچاس کروڑ کے ہوں۔کرایہ سے جو سال تمام پر انداز ہو گااس پر زکوٰۃ آئے گی اگر خود یا اور مال سے مل کر قدرِ نصاب ہو۔[فتاوٰی رضویہ،صفحہ161،جلد10،رضا فاؤنڈیشن لاہور]
فتاوٰی فقیہ ملت میں ہے:"زکوٰۃ تین قسم کے مال پر ہے ثمن یعنی سونا چاندی(نوٹ اور پیسہ)،مالِ تجارت،سائمہ یعنی چَرائی پر چھوٹے جانور اور کرایہ پر چلنے والے ٹرکوں اور بسوں کی قیمت مذکورہ چیزوں میں سے کوئی نہیں۔ لہٰذازکوٰۃ صرف ان گاڑیوں کی آمدنی پر واجب ہے قیمت پر نہیں اس لئے کہ قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں کہ کرائے پر چلانے کے سامان کمانے کے آلے ہیں اور ان پر زکوٰۃ نہیں۔"[فتاوٰی فقیہ ملت،جلد1،صفحہ306-307،شبیر برادر لاہور]۔