تہمت ثابت نہ کرنے پر حکم؟

10/09/2017 AZT-24862

تہمت ثابت نہ کرنے پر حکم؟


السلام علیکم ورحمۃ اللہ مفتی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ زید نے عمرو پر زنا کے علاوہ تہمت لگائی مثلا کہا: اے فاسق ، اے کافر تو ثبوت تہمت کے لیے کیا شرطیں ہیں ؟ اور اگر زید تہمت ثابت نہ کر سکے تو اس کیا حکم شرع ہوگا ؟ مدلل جواب عطا فرمائیں (جنک پور دھام ، نیپال)

الجواب بعون الملك الوهاب

اس تہمت(یعنی عمروکے فاسق یاکافرہونے) کے ثبوت کے لئےشرط یہ ہے کہ عمرو سے کسی گناہ کبیرہ   کاصدور دو گواہو ں سےیا کلمہ کفر یہ یا عقیدہ کفریہ دو گواہوں سے  ثابت ہو۔اوراگریہ تہمت ثابت  نہ ہوسکے  تو زید اگر عمروکےفاسق اور کافر ہونے کاعقیدہ رکھتا ہے تو زید خود فاسق اور کافر ہوجائے گااور اگر فاسق اور کافر ہونے کاعقیدہ  نہیں رکھتابلکہ صرف دشمنی کی وجہ سے کہتا ہے تو پھر فاسق و کافر نہ ہو گا  لیکن سخت گناہ گار ہے اسے اللہ تعالیٰ کےحضورتویہ و استغفار کرنی چاہیئے ۔ 

   اس طرح ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں

صحیح بخاری ج ۲ ص۹۰۱، صحیح مسلم ج ۱ ص ۵۷ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد: ایما امری قال لااخیہ کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والارجعت الیہ ۱؎۔ یعنی کسی کلمہ گو کو کافر کہے ان دونوں میں ایک پریہ بلاضرور پڑے اگر جسے کہا وہ سچ کافر تھا جب تو خیر، ورنہ یہ لفظ اسی کہنے والے پر پلٹ آئے گا،

 (۱؎ صحیح مسلم    کتاب الایمان باب بیان حال من قال لاخیہ المسلم یا کافر    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱ /۵۷)

صحیح بخاری ص ۸۹۳، صحیح مسلم ص ۵۷ ابوذررضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحدیث حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث: لیس من دعارجلا بالکفر اوقال عدواﷲ ولیس کذلک الاحار علیہ ۲؎۔

 

جو کسی کو کفر پر پکارے یا خدا کا دشمن کہے اور وہ حقیقت میں ایسا نہ ہو تواس کا یہ کہنا اسی پر پلٹ آئے۔

 (۲؎ صحیح مسلم  کتاب الایمان باب بیان حال من قال لاخیہ المسلم یا کافر    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۵۷)

حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ مطبوعہ مصر ۱۲۷۶ ھ ج ۲ ص ۱۵۶ : کذالک یا مشرک ونحوہ۳؎ اسی طرح کسی کو مشرک یا اس کی مثل کوئی لفظ کہنا کہ وہ مشرک نہ تھا تو کہنے والا خود مشرک ہوگیا۔

 (۳؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ    النوع العاشر      مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد        ۲/ ۲۳۶)

میں کہتاہوں یہ معنی خود انھیں حدیثوں سے ثابت کہ ہر مشرک دشمن خداہے، تقویۃ الایمان ص۴۴:'' مشرک ہیں اللہ سے  پھرے ہوئے رسول کے دشمن ۴؎'' تومشرک کہنا خدا کا دشمن کہنا ہوا اور اس کا پلٹناخود حدیث میں فرمایا بلکہ اسی حدیث میں فرمایا کہ فاسق کہنا بھی پلٹتا ہے تو مشرک توکہیں بدتر ہے۔

(۴؎ تقویۃ الایمان    الفصل الرابع       مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور    ص۲۹)

شرح الدور الغرر للعلامۃ اسمعیل النابلسی  پھر حدیقہ ندیہ ج ۲ ص ۱۴۰ و ۱۵۶:

لوقال للمسلم کافرکان الفقیہ ابوبکر الاعمش یقول کفر وقال غیرہ  من مشائخ بلخ لایکفر واتفقت ھذا المسئلۃ ببخارا فاجاب بعض ائمۃ بخارا انہ یکفر فرجع الجواب الی بلخ انہ یکفر فمن افتی بخلاف قول الفقیہ ابی بکر رجع الی قولہ۱؎ اھ ملخصا۔

جو کسی مسلمان کو کافرکہے امام ابوبکر اعمش فرماتے تھے کافر ہوگیا، اور دیگر مشائخ بلخ فرماتے کافر نہ ہوا،

پھر یہ مسئلہ بخارا میں واقع ہوا بعض ائمہ بخارا شریف نے حکم کفر دیا یہ جواب پلٹ کر بلخ میں آیا تو جو پہلے امام ابوبکر کے خلاف فتوے دیتے تھے انھوں نے بھی اسی طرف رجوع فرمائی۔

(۱؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ    النوع الرابع        مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۲۱۲

  الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ    النوع العاشر       مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۲۳۷)

شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۲۰ : رجع الکل الی فتوٰی ابی بکر البلخی وقالوا کفر الشاتم ۲؎۔

سب ائمہ اسی فتوے ابوبکر کی طرف پلٹ آئے اور فرمایا مسلمان کو ایسی گالی دینے والا خود کافر ہے۔

(۲؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    فصل فی الکفر صریحا وکنایہ    مصطفی البابی مصر    ص۱۸۱)

عالمگیری ج ۲ ص ۲۷۸ ذخیرہ سے، برجندی شرح نقایہ مطبع لکھنؤ  ج ۴ ص ۶۸ فصولی عماد ی سے، حدیقہ ندیہ ص ۱۴۰  و ۱۵۶ احکام حاشیہ درر سے، خزانۃ المفتین ج ا کتاب السیر آخر فصل الفاظ الکفر، جامع الفصولین ج ۲ ص ۳۱۱ قاضی خاں سے، بزازیہ ج ۳ ص ۳۳۱، ردالمحتار مطبع استنبول  ج ۳ ص ۲۸۳ نہر الفائق وغیرہ سے :

المختار للفتوی فی جنس ھذہ المسائل ان القائل بمثل ھذہ المقلات ان کان اراد الشتم ولایعتقدہ کافرا لایکفر وان کان یعتقدہ کافر افخاطبہ بھذا بناء علی اعتقادہ ان کافر یکفر ۳؎۔

اسی قسم کے مسائل میں فتوے کےلئے مختار یہ ہے کہ مسلمان کو اس طرح کاکوئی لفظ کہنے والا اگر صرف دشنام ہی کا ارادہ کرے اور دل میں کافر نہ جانے تو کافر نہ ہوگا ار اگر اپنے مذہب کی رو سے اسے کافر سمجھتاہے اس بناء پر یوں کہا تو کافر ہوجائے گا۔

 (۳؎ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ    النوع الرابع        مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۲۱۲

فتاوٰی ہندیہ    الباب التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۲۷۸

شرح النقایۃ للبرجندی    کتاب الحدود    نولکشور لکھنؤ            ۴ /۶۸

ردالمحتار     باب التعزیر        مطبع مجتبائی دہلی    ۳/ ۱۸۳)

درمختار ص ۲۹۳ شرح وہبانیہ سے : یکفر ان اعتقد المسلم کافر ابہ یفتی ۱؎۔

مسلمان کو کافر سمجھے تو خود کافر ہے اسی پر فتوٰی ہے۔

(۱؎ درمختار    باب التعزیر   مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۲۷)

جامع الرموز(عہ۱) مطبع کلکتہ ۱۲۷۴ھ  ج ۴ ص ۶۵۱: المختارانہ الواعتقد المخاطب کافرا کفر ۲؎۔

مختاریہ ہے کہ اسے اپنے مذہب میں کافر جان کر کافر کہا تو کافر ہوگیا۔

عہ۱:  فصول عمادی سے ۱۲ سل السیوف

(۲؎ جامع الرموز     کتاب الحدود     فصل القذف    مکتبۃ الاسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۴ /۵۳۵)

مجمع الانہر مطبع استنبول ج ۱ ص ۵۶۶: لو اعتقد المخاطب کافرا کفر ۳؎۔

اپنے عقیدے میں ایسا سمجھ کر کہے تو کافر ہے۔

 (۳؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر    کتاب الحدود فصل فی التعزیر    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۶۱۰)

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء