کسی سے جبراً طلاق لی گئی تو کیا حکم ہے؟

04/20/2016 AZT-19073

کسی سے جبراً طلاق لی گئی تو کیا حکم ہے؟


اگر کوئی جان کی دھمکی دے کر طلاق دلوا دے اور خاوند جانتا ہے کہ اگر طلاق نہ دی تو دھمکی دینے والا جان۔لے لے گا، ایسے میں اگر طلاق دی جائے لیکن دل میں نیت نہ کی جائے تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی ؟
حالانکہ سنا ہے کہ جان بچانے کیلئے کفر کرنا بھی جائز ہے جبکہ دل سے نیت نہ کی جائےجواب دے کر اجر لیں

الجواب بعون الملك الوهاب

 جس پر جبر کیا گیا اگر اس نے زبانی طلاق دی تو اس کی طلاق واقع ہوجائیگی اگرچہ اس نے طلاق کی  نیت نہ کی ہو۔  اگر تحریری طلاق دی اور طلاق کی نیت نہ کی تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ اور تحریری طلاق دی او رنیت بھی کرلی تو  اس صورت میں بھی طلاق واقع ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے: طَلَاقَ الْمُكْرَهِ صحیح. ترجمہ:  جس پر اکراہ کیا گیا اس کی طلاق واقع ہوگی۔[فتاوی شامی,  كتاب الطلاق, جلد: 3, صفحہ: 235, دار الفكر بيروت]۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کسی نے شوہر کو طلاق نامہ لکھنے پر مجبور کیا اُس نے لکھ دیا، مگر نہ دل میں ارادہ ہے، نہ زبان سے طلاق کا لفظ کہا تو طلاق نہ ہوگی۔ مجبوری سے مراد شرعی مجبوری ہے محض کسی کے اصرار کرنے پر لکھ دینا یا بڑا ہے اُس کی بات کیسے ٹالی جائے، یہ مجبوری نہیں۔[بہار شریعت،جلد:2، حصہ 8، صفحہ:115، مکتبہ المدينہ کراچی ]۔

  • مفتی محمد رمضان تونسوی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء