بھکاری کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
بھکاری کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مفتی صاحب!
میرا آپ سے سوال یہ پوچھنا ہے کہ کوئی بھکاری آئے اور ہم اسے زکوٰۃ دیں تو کیا اس طرح بھکاری کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
الجواب بعون الملك الوهاب
بھکاری تین طرح کے ہوتے ہیں:ایک تو وہ ہیں جو مالدار ہیں یعنی صاحبِ نصاب ہوتے ہیں ان کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ اور دوسرے وہ ہیں جو صاحبِ نصاب نہیں ہوتے یعنی شرعی فقیر اور مستحقِ زکوٰۃ تو ہوتے ہیں لیکن کسب و معاش پر قادر ہوتے ہیں ایسوں کو سوال کرنا، ہاتھ پھیلاناجائز نہیں ۔ایسے کو زکوٰۃ دینا منع ہے لیکن اگر زکوٰۃ دی گئی تو ا دا ہو جائے گی۔ اور تیسرے وہ ہیں جو صاحبِ نصاب نہیں ہوتے اور محتاجی میں اس حد تک پہنچے ہوتے ہیں کہ ان کا سوال کرنا جائز ہو جاتا ہے ایسوں کا سوال کرنا بھی جائز ہے اور ان کو زکوٰۃ دینا بھی جائز ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اسی طرح کے مسئلہ کے بارے میں فرماتے ہیں:" گدائی تین قسم: ایک غنی مالدار جیسے اکثر جوگی اور سادھو بچّے، انھیں سوال کرنا حرام اور انھیں دینا حرام، اور اُن کے دئے سے زکوٰۃ ادانہیں ہوسکتی، فرض سرپر باقی رہے گا۔دوسرے وُہ کہ واقع میں قدرِ نصاب کے مالک نہیں مگر قوی و تندرست کسب پر قادر ہیں اور سوال کسی ایسی ضروریات کے لیے نہیں جوان کے کسب سے باہر ہوکوئی حرفت یا مزدوری نہیں کی جاتی مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں انھیں سوال کرنا حرام، اور جو کچھ انھیں اس سے ملے وہ ان کے حق میں خبیث۔۔۔ انھیں بھیک دینا منع ہے کہ معصیت پر اعانت ہے، لوگ اگر نہ دیں تو مجبور ہوں کچھ محنت مزدوری کریں۔۔۔ مگر ان کے دئے سے زکوٰۃ ادا ہوجائیگی جبکہ اور کوئی مانع شرعی نہ ہو کہ فقیرہیں۔۔۔ تیسرے وُہ عاجز نا تواں کہ نہ مال رکھتے ہیں نہ کسب پر قدرت، یا جتنے کی حاجت ہے اتنا کمانے پر قادر نہیں، انھیں بقدرِ حاجت سوال حلال، اور اس سے جو کچھ ملے ان کے لیے طیّب، اور یہ عمدہ مصارفِ زکوٰۃ سے ہیں اور انھیں دینا باعثِ اجرِ عظیم، یہی ہیں وُہ جنھیں جھڑکنا حرام ہے"۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد 10،صفحہ 253، 254، رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔