عنوان :زکوٰۃواپس لینے کا حکم
عنوان :زکوٰۃواپس لینے کا حکم
الجواب بعون الملك الوهاب
صورت مسئولہ میں زید کوزکوٰۃ کی رقم واپس لینا قطعا ََجائز نہیں اورنہ ہی بکر کے لئے یہ جائز ہےکہ وہ ادارہ کے فنڈ سے زکوٰۃ کی رقم واپس کرےاوربکرکو اپنے ذاتی مال سے زکوٰۃ کی رقم لوٹانابھی ضروری نہیں ۔ کیونکہ زید کی سابقہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہےاگرچہ اب وہ بکر پر کسی بھی وجہ سے مطمئن نہ ہو ،
اورفتاوٰی ہندیہ میں ہے
"إذَا شَكَّ وَتَحَرَّى فَوَقَعَ فِي أَكْبَرِ رَأْيِهِ أَنَّهُ مَحَلُّ الصَّدَقَةِ فَدَفَعَ إلَيْهِ أَوْ سَأَلَ مِنْهُ فَدَفَعَ أَوْ رَآهُ فِي صَفِّ الْفُقَرَاءِ فَدَفَعَ فَإِنْ ظَهَرَ أَنَّهُ مَحَلُّ الصَّدَقَةِ جَازَ بِالْإِجْمَاعِ، وَكَذَا إنْ لَمْ يَظْهَرْ حَالُهُ عِنْدَهُ" وَأَمَّا إذَا ظَهَرَ أَنَّهُ غَنِيٌّ أَوْ هَاشِمِيٌّ أَوْ كَافِرٌ أَوْ مَوْلَى الْهَاشِمِيِّ أَوْ الْوَالِدَانِ أَوْ الْمَوْلُودُونَ أَوْ الزَّوْجُ أَوْ الزَّوْجَةُ فَإِنَّهُ يَجُوزُ وَتَسْقُطُ عَنْهُ الزَّكَاةُ "
یعنی ؛اگر کسی شخص کے زکوٰۃ کے مستحق ہونے میں شک ہو یا غالب گمان اس کا یہ ہو کہ وہ زکوٰۃ لینے کامستحق ہے اور اس کو زکوٰۃ دیدی یا اس سے پوچھا اور پھر اس کو زکوٰۃ دیدی یا اس کو فقیروں کی صف میں دیکھا اور زکوٰۃ دیدی اور پھر ظاہر ہو ا کہ وہ زکوٰۃ لینے کا مستحق تھا تو بلاجماع جائز ہے اور اس طرح اگراس کا کچھ حال معلوم نہ ہو تو بھی جائز ہے ۔اور بہر حال جب یہ ظاہر ہو اکہ وہ جس کو زکوٰۃ دی ہے غنی ہےیا ہاشمی ہےیا کا فر ہےیا ہاشمی کا غلام ہے یا والدین ہے یا اولاد ہےیا شوہر ہے یا بیوی ہے تو بھی جائزہے اور اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے
(الفتاوٰی الھندیۃ:ج1،ص190)
بہار شریعت میں ہے:
جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں اورزکاۃ دے دی بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مصرف زکاۃ ہے یا کچھ حال نہ کُھلا تو ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا اُس کے والدین میں کوئی تھا یا اپنی اولاد تھی یا شوہر تھا یا زوجہ تھی یا ہاشمی یا ہاشمی کا غلام تھا یا ذمّی تھا،، جب بھی ادا ہوگئی۔
(بہارشریعت :ج1،ح5،ص420)
خلاصہ کلام یہ کہ صورت مسئولہ میں زید کی گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہےاوراب اس کے لئےگذشتہ سالوں کی زکوٰۃ کی رقم واپس لینا قطعاََجائز نہیں ہےاورنہ ہی بکر کوادارہ کے فنڈ سے زکوٰۃ کی رقم واپس کرنا جائز ہے اور اپنے زاتی مال سےادا کرنا ضروری نہیں ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم