عنوان :زکوٰۃواپس لینے کا حکم

09/13/2018 AZT-26360

عنوان :زکوٰۃواپس لینے کا حکم


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وپرکاتہ :مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ زید تقریباً 6سال کے عرصہ سے بکر کو اہلسنت کے ایک دینی ادارہ کے لئے زکوٰۃ کی مد میں رقم ادا کر رہا ہے ،اور اس کا دل مطمئن ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ صحیح مصرف میں ادا کر رہا ہے۔ اس دوران عمرو نے شرارت کی اور زید کو بکر کے خلاف بھڑکایا اور خوب شر پھیلانے کی کوشش کی جس کی وجہ سےزید کے دل میں بکر کے خلاف خلش پیدا ہو گئی اور وہ بکر کو بدعقیدہ سمجھنے لگا ، (جب کہ بکر صحیح العقیدہ سنی ہے ) جب بکر کو معلوم ہوا کہ زید کا نظریہ بدل گیا ہے تو اس غلط فہمی کودور کرنے کے لئے بکر نے اپنے صحیح العقیدہ سنی ہونے کے لئے لاکھ دلائل دیئے مگر زید نے ایک نہ مانی،اور کہا کہ بس میں اب آپ سے مطمئن نہیں ہوں ۔ بکر نے کہا اگر آپ مجھ سے مطمئن نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو گزشتہ 6 سالوں سے جس زکوٰۃ کی رقم کا امین مجھے بنایا تو بقول آپ کے وہ زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوئی تو لہٰذا وہ آپ کی زکوٰۃ کی رقم میں آپ کو لوٹانے کے لئے تیار ہوں۔ کیونکہ بکر اس رقم کو مدرسہ کے لئے خرچ کر چکا ہے اب بکر جو رقم ادا کرے گا وہ اپنی جیب سے ادا کرے گا۔ اب اس صورت میں: (۱)کیا زید کے لئے جائز ہے کہ وہ رقم وصول کرے؟ (۲)کیا زید کی گزشتہ 6 سالوںکی زکوٰۃ ادا ہو گئی ؟ (۳)اگر زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی تو کیا وہ رقم وصول کر سکتا ؟ برائے کرم اس مسئلہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سائل :محمد فرقان لیاقت آباد کراچی 03343521009

الجواب بعون الملك الوهاب

صورت مسئولہ میں  زید  کوزکوٰۃ کی رقم واپس لینا   قطعا ََجائز نہیں اورنہ ہی بکر کے لئے  یہ جائز ہےکہ وہ ادارہ کے فنڈ سے  زکوٰۃ کی رقم  واپس کرےاوربکرکو اپنے ذاتی مال سے زکوٰۃ کی رقم لوٹانابھی   ضروری نہیں  ۔ کیونکہ زید کی سابقہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا ہو گئی  ہےاگرچہ اب وہ بکر پر کسی بھی وجہ سے  مطمئن نہ ہو ،

اورفتاوٰی ہندیہ میں ہے

"إذَا شَكَّ وَتَحَرَّى فَوَقَعَ فِي أَكْبَرِ رَأْيِهِ أَنَّهُ مَحَلُّ الصَّدَقَةِ فَدَفَعَ إلَيْهِ أَوْ سَأَلَ مِنْهُ فَدَفَعَ أَوْ رَآهُ فِي صَفِّ الْفُقَرَاءِ فَدَفَعَ فَإِنْ ظَهَرَ أَنَّهُ مَحَلُّ الصَّدَقَةِ جَازَ بِالْإِجْمَاعِ، وَكَذَا إنْ لَمْ يَظْهَرْ حَالُهُ عِنْدَهُ" وَأَمَّا إذَا ظَهَرَ أَنَّهُ غَنِيٌّ أَوْ هَاشِمِيٌّ أَوْ كَافِرٌ أَوْ مَوْلَى الْهَاشِمِيِّ أَوْ الْوَالِدَانِ أَوْ الْمَوْلُودُونَ أَوْ الزَّوْجُ أَوْ الزَّوْجَةُ فَإِنَّهُ يَجُوزُ وَتَسْقُطُ عَنْهُ الزَّكَاةُ "

یعنی ؛اگر کسی شخص کے زکوٰۃ کے مستحق ہونے میں شک ہو یا غالب گمان اس کا یہ ہو کہ وہ زکوٰۃ لینے کامستحق ہے اور اس کو زکوٰۃ دیدی یا اس سے پوچھا اور پھر اس کو زکوٰۃ دیدی یا اس کو فقیروں کی صف میں دیکھا اور زکوٰۃ دیدی اور پھر ظاہر ہو ا کہ وہ زکوٰۃ لینے کا مستحق تھا تو بلاجماع جائز ہے اور اس طرح اگراس کا کچھ حال معلوم نہ ہو تو بھی جائز ہے ۔اور بہر حال جب  یہ ظاہر ہو اکہ وہ جس کو زکوٰۃ دی ہے غنی  ہےیا ہاشمی  ہےیا کا فر  ہےیا ہاشمی    کا غلام  ہے یا والدین ہے  یا اولاد ہےیا شوہر ہے یا بیوی ہے تو بھی جائزہے اور اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے

(الفتاوٰی الھندیۃ:ج1،ص190)

بہار شریعت میں ہے:

جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں اورزکاۃ دے دی بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مصرف زکاۃ ہے یا کچھ حال نہ کُھلا تو ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا اُس کے والدین میں کوئی تھا یا اپنی اولاد تھی یا شوہر تھا یا زوجہ تھی یا ہاشمی یا ہاشمی کا غلام تھا یا ذمّی تھا،، جب بھی ادا ہوگئی۔

(بہارشریعت :ج1،ح5،ص420)

خلاصہ کلام یہ کہ صورت  مسئولہ میں زید کی گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا ہو گئی  ہےاوراب اس کے لئےگذشتہ سالوں کی زکوٰۃ کی رقم واپس لینا  قطعاََجائز نہیں ہےاورنہ ہی بکر کوادارہ کے فنڈ سے  زکوٰۃ کی رقم واپس کرنا جائز  ہے  اور اپنے زاتی مال سےادا کرنا  ضروری  نہیں ہے ۔

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء