سَ سَ سَرْو کے دَ دَرخت پر
ہکلا شعر
سَ سَ سَرْو کے دَ دَرخت پر
قَ قَ قُمریاں قَ قَ قُوں کریں
صَ صَ صُبح کو مَ مَ مَدرسہ میں
گَھ گَھ گھنٹیاں ٹَ ٹَ ٹُوں کریں
(۲۰ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۲ھ)
سَ سَ سَرْو کے دَ دَرخت پر
قَ قَ قُمریاں قَ قَ قُوں کریں
صَ صَ صُبح کو مَ مَ مَدرسہ میں
گَھ گَھ گھنٹیاں ٹَ ٹَ ٹُوں کریں
(۲۰ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۲ھ)
قریب آگیا امتحان کا زمانہ
مرا لیٹ جانے کو جی چاہتا ہے
جو کہتا ہے کوئی سبق تو سناؤ
بہانے بنانے کو جی چاہتا ہے
(۱۵ رجب المرجب ۱۳۹۳ھ)
طلب اب صدارت کی مجھ کو نہیں ہے
الہی نہ میں عزو جاہ مانگتا ہوں
میرا ان کے پنجے سے دامن چھڑادے
میں ’’ووٹر‘‘ سے تیری پناہ مانگتا ہوں
(۲۰ ذی قعد ۱۳۹۳ھ)
کھیتوں کی رکھوالی کی ‘ گلشن کی ہریالی کی
خون پسینہ ایک کیا ‘ اپنے وہ دن بیت گئے
یوں تو آنا مشکل تھا ‘ پیر جمانا مشکل تھا
پکنک پر جب کام کیا ’’قاسم ثانی‘‘ (۱) جیت گئے
(۱) حضرت مولانا محمد قاسم قادری ۔ کوئٹہ
(۲۷ ذی الحجہ ۱۳۹۳ھ)
...
جی میں آتا ہے وہ کار نمایاں کیجئے
سال میں دو بار تو پٹنے کا ساماں کیجئے
توڑئیے کچھ پھوڑئیے انکار پھر کرجائیے
جب کوئی پوچھے تو پھر جلدی سے ہاں ہاں کیجئے
(۲۵ ربیع الاخر ۱۳۹۴ھ)
وہ خود تو ہنستے ہیں ‘ ہم کو رلائے جاتے ہیں
’’رحیم بھائی‘‘ (۱) تو گردن ہلائے جاتے ہیں
سحر کی چائے کے بدلے سزا یہ ہم کو ملی
نمک ہے تیز ‘ وہ سالن کھلائے جاتے ہیں
(۱) عبدالرحیم سواتی‘ مولانا ‘ سابق ناظم مطبخ‘ دارالعلوم امجدیہ کراچی
(۱۰ ربیع الاخر ۱۳۹۵ھ)
ہم آج مدرسہ پھر آئے
تو دل ہی یہاں پر کھو بیٹھے
پانی نہ ملا تنکی میں جب
تو حوض سے چہرہ دھوبیٹھے
(دسمبر ۱۹۷۶ء)
چلو مدینے چلو مدینے قدم قدم سے ملا ملا کر
بلا رہے ہیں وہ پھر حرم میں عطائیں اپنے بڑھا بڑھا کر
انہیں کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں ‘ انہیں کی خیرات کھا رہے ہیں
بجھا رہے ہیں وہ پیاس میری‘ طلب سے بڑھ کر پلا پلا کر
میں فرمان جاوُکَٔ رب کا لے کر چلوں گا محشر میں تیز ہوکر
قریب جاؤں گا میں بھی اُن کے روکاوٹوں کو ہٹا ہٹا کر
کھلیں گے میرے عمل کے دفتر ‘ خدائے برتر کے روبرو جب
منا ہی لوں گا کریم رب کو ‘ نبی ﷺ کی نعتیں سناسنا کر
میرے عمل میں کمی جو ہوگی نبی رحمت شفیعِ امت ﷺ
کریم رب کے کریم سرورﷺ ‘ بھریں گے پلّہ ہلا ہلا کر
کرم جو رہتا ہے خاص مجھ پر ‘ عنایتوں کا سخاوتوں کا
مدینے جاؤں گا ہر طرح کے ‘ میں فاصلوں کو مٹا مٹا کر
کرم کی خیرات لوٹنے کو میں جب بھی جاؤں گا سوئے طیبہ
زمین طیبہ کو چوم لوں گا لبوں کو اپنے جما جما کر
ہمیشہ محروم ہی رہیں گے کبھی نہ عزت کو وہ چھوئیں گے
نبی ﷺ کر در سے ہٹے ہیں دیکھو جو فاصلوں کو بڑھا بڑھا کر
انہی کا صدقہ انہی کی بخشش ‘ انہی کی خیرات کھا رہے ہیں
انہیں کے دم سے تو جی رہے ہیں ‘ مقدّروں کو جگا جگا کر
نبیﷺ کی خیرات کھانے والو ‘ تم اول آخر کے پھیر میں ہو
رضا سے پوچھو بتا گئے ہیں ‘ وہ دائرے سے بنا بنا کر
نصیب ِحاؔفظ چمک گیا ہے ‘ جو رب کا قرآن پڑھتے پڑھتے
تو سوئے جنت بلا رہے ہیں ‘ فرشتے آنکھیں بچھا بچھا کر
از: (احمد میاں حافظ البرکاتی)
ہے میری بس یہی دعا ہے یہی التجا فقط
بندۂ مصطفےٰ ﷺ ہی رکھ مجھ کو میرے خدا فقظ
جس کو اگر ہو جاننا سیرت مصطفےٰ ﷺ فقط
کافی ہے اس کو قولِ وَالنَّجمِ اِذا ھَویٰ فقط
خالق کائنات کُل بالیقیں ربِّ کائنات
باعث خلق کائنات احمد مجتبیٰ فقط
روز ازل سے تاابد کوئی نہیں ہے آپ سا
بعد از خدا بلند ہے آپ کا مرتبہ فقط
اَسْریٰ کی شب تھی منتظر وسعتیں لامکان کی
آپ کی آپ کی فقط آپ کی مصطفےٰ ﷺ فقط
کس کو ملی ہیں عظمتیں کس کو ملیں یہ رفعتیں
سجدۂ گہہ ملائکہ آپ کا نقش پا فقط
وسعتیں دو جہاں کی ہیں ان کے غلام کے لئے
مسکن جبرائیل ہے سدرۂ منتہیٰ فقط
اس میں نہیں ہے کوئی شک دونوں جہان میں حضور ﷺ
ضامن راہ مستقیم آپ کی اقتدا فقظ
عشق رسول پاکﷺ میں مجھ کو عطا ہو وہ مقام
میرے روئیں روئیں کی ہو صَلِّ علٰی صدا فقط
جس کو کہیں شفا نہ جس کی کہیں دوا نہ ہو
خاک در حضور ﷺ ہے اس کے لئے دوا فقط
ہو یہ جہان رنگ و بو یا کہ وہ روز حشر ہو
کافی ہمیں ہے یا نبی ﷺ آپ کا آسرا فقط
حاؔفظ بے نوا کو ہے دونوں جہاں میں آسرا
آپ کا آپ کا حضور ﷺ آپ کا آپ کا فقط
(ابنِ خلیل مفتی احمد میاں حاؔفظ البرکاتی)
جہاں مل سکے نہ گماں کو رَہ وہ نبیﷺ کا حسن و کمال ہے
جو ہر اک سانس پہ ہو عطا وہ نبیﷺ کا جود و نوال ہے
یہی زندگی ، ہے یہی متاع ، یہی میرا مال و منال ہے
میرے دل میں حُبِّ رسول ﷺ ہے مِرے لب پہ ذکر جمال ہے
وہی وجہ کلقِ زمیں زماں ‘ وہ حبیب خالقِﷺ کل جہاں
کہاں ان ساکوئی جہان میں کہاں کوئی ان کی مثال ہے
مہَ و مہر کیا ، یہ نجوم کیا گل و غنچہ کیا ، یہ شمیم کیا
ہیں ان ہی کی ساری یہ تابشیں یہ ان ہی کا سارا جمال ہے
میرے لب پہ مدح حضورﷺ ہے ، یہ کرم بھی تو ان ہی کا ہے
بیاں وصف ان کا میں کرسکوں کہاں مجھ میں اتنی مجال ہے
نہ حکومتیں ، نہ امَارتیں ، نہ وزارتیں ، نہ سفارتیں
ملیں سب ہی مجھ کو تو میں نہ لوں بھلا کوئی مثل نعال ہے
نہ کسی کو کوئی بتا سکا نہ سمجھ سکا کوئی آج تک
’’سر عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے‘‘
ہے نبیﷺ کے رخُ پہ جو قَدْنَریٰ تو ہے قبلہ مرضئِ مصطفےﷺ
وہ کھلے ہیں در جو کرم کے پھر نہ جواب ہے نہ سوال ہے
سرِ عرش تھی جو وہ اک صدا ’’تُو قریب آ تُو قریب آ‘‘
تری عظمتوں کی دلیل ہے تری رفعتوں کا مآل ہے
میں ہوں نازاں حاؔفظ بے نوا درِ شہ پہ خم ہے جو سرمرا
یہی زندگی کا عروج ہے، یہی زندگی کا کمال ہے
(از: ابن خلیل احمد میاں حاؔفظ البرکاتی)