ہائے جلالہ
درج ذیل نظم دار العلوم امجدیہ کراچی میں ۱۹۷۱ء ‘ میں دوران تعلیم کہی جب ‘ بزم امجدی رضوی کے صدر محترم جناب ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری (کراچی یونیورسٹی)تھے۔ جو بعد میں حصول تعلیم کی مزید تزئین کیلئے بغداد شریف چلے گئے تھے۔ مدرسہ کے ایک استاد حضرت مولانا ابوالفتح محمد نصر اللہ خاں افغانی صاحب ‘ موصوف کو جلالہ کہہ کر پکارتے تھے ۔ اس نظم میں ‘ ان کے دور صدارت کی عکا سی کی گئی ہے۔
جلال الدین نے جب سے جلالہ کا لقب پایا
بوجہ ایں انہیں غصے میں ہم نے روز وشب پایا
مگر کس بات پر غصہ ؟ہے اپنے نام کے جز پر
فقط تاثیر اسمی ہے کہ تم نے یہ غضب پایا
اسے ’’پکڑو اسے مارو‘‘(۱) ! عجب طوفان برپا ہے
بنے ہیں یہ صدر جب سے یہی شور و شغب پایا
رسائل اور اخبارات (۲) آتے ہیں بلا ناغہ
کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ڈھونڈا ہم نے تب پایا
مگر اک آس رہتی تھی کہ شاید اب یہ مل جائے
اور اب اس آس کو بھی سب نے ہی توجاں بلب پایا
ارے یارو ذرا ٹھہرو تو کیوں نشتر چھبوتے ہو؟
ملا ہو ان کو کچھ حصہ یہ تم نے حال کب پایا
زباں تیری ہے شیریں اور سخن تیرا کسیلا ہے
سخن گوئی کا حاؔفظ تو نے یہ کیسا ہے ڈھب پایا
(۱)مولانا بھاشانی کی سیاسی تحریک ’’پکڑومارو‘‘ کی جانب اشارہ ہے۔
(۲) دار المطالعہ میں آنے والے اخبارات۔
(۱۹۷۱ء)
...