میں دے کے لہو رنگ چمن دیکھ رہا ہوں
آہ ! میرا وطن
میں دے کے لہو رنگ چمن دیکھ رہا ہوں
اجڑا ہوا گلزار وطن دیکھ رہا ہوں
کل تک جو مرے پاک وطن کے تھے فدائی
بگڑا ہوا اب ان کا چلن دیکھ رہا ہوں
محبوب جو رکھتے تھے کبھی ملک کی عزت
اب ختم ہوئی ان کی لگن دیکھ رہا ہوں
اب ہاتھ میں ہر ایک کے شمشیر قلم ہے
خون ادب و شعر سخن دیکھ رہا ہوں
یہ مرگ مسلسل ہے کہ ہے زیست سراپا
اک معرکئہ روح و بدن دیکھ رہا ہوں
ہر گام پہ اک رقص اجل شام وسحر ہے
ہر موڑ پہ میں دارورسن دیکھ رہا ہوں
اس رات سے حاؔفظ مجھے امید سحر ہے
میں گھور اندھیرے میں کرن دیکھ رہا ہوں
(۳۰ جولائی ۱۹۷۶ء)