سفید رخ پہ جو ان کے سیاہ خال بھی تھا
حال و خال
سفید رخ پہ جو ان کے سیاہ خال بھی تھا
نہ صرف یہ کہ وہ نایاب ‘ بے مثال بھی تھا
خزاں کے بعد بہار آئی تو ہوا معلوم
فراق تلخ سہی ‘ موجب وصال بھی تھا
یہ بے خودی تھی کہ فرزانگی خدا جانے؟
زباں پہ نام تو دل میں ترا خیال بھی تھا
جو آئے میرے جنازے پہ سرخ جوڑے میں
گلے میں ان کے پڑا ریشمی رومال بھی تھا
وہ اب کہیں گے کہ ہم ’’جارہے ہیں ‘‘ اے حاؔفظ
جب آئے گھر میں ہمارے تو یہ ملال بھی تھا
(نومبر ۱۹۸۱ء)