مولانا سید محمد مرغوب اختر الحامدی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

مرحبا صلِّ علیٰ عزمِ کلیمانۂ دل

مرحبا صلِّ علیٰ عزمِ کلیمانۂ دل
ہے حبیبی اَرِنی نعرۂ مستانۂ دل
نغمۂ درد ہے یا قصّۂ جانانۂ دل
مطلعِ نعت ہے یا سرخئ افسانۂ دل
رُخ ہے کعبہ کی طرف ہاتھ مدینے کی طرف
کتنا شاہانہ اندازِ گدایانۂ دل
شانۂ پنجۂ قدرت سے سنورنے والے
گیسوئے نور کہاں؟ اور کہاں شانۂ دل
یادِ کعبہ کے فدا، حسرتِ طیبہ کے نثار
آج مکّہ بھی، مدینہ بھی کاشانۂ دل
داغِ ہجرِ مدنی چاند تِری عمر دراز
جگمگاتا ہی رہے تجھ سے نبی خانۂ دل
بادۂ عشقِ محمّدﷺ سے ہے لبریز مگر
کبھی چھلکا نہیں اختؔر مِرا پیمانہ دل

...

سلطانِ رسلﷺ سے تابہ خدا، اللہ سے تا سلطانِ رسلﷺ

سلطانِ رسلﷺ سے تابہ خدا، اللہ سے تا سلطانِ رسلﷺ
ایسی بھی ہے منزل صرف جہاں اللہ ہے یا سلطانِ رسلﷺ
لو وہ لبِ کوثر آپہنچے اے صلِّ علٰی سلطانِ رسلﷺ
وہ دوڑ پڑے رندانِ حرم کہتے ہوئے یا سلطانِ رسلﷺ
کونین کے ذرّے ذرے میں ہے نور کا عالم کیا کہنا
ہیں یوسفِ بزمِ کن فیکون نو شاہِ دنیٰ سلطانِ رسلﷺ
مانا کہ خلیل اللہ بھی ہیں، نبیوں میں کلیم اللہ بھی ہیں
ہیں آپ مگر اے صلِّ علیٰ محبوبِ خدا سلطانِ رسلﷺ
وہ جھوم کے برسیں رحمت کی گھنگور گھٹائیں محشر میں
وہ دوش پہ آئے کھولے ہوئے گیسوئے دوتا سلطانِ رسلﷺ
یہ نقطۂ سرِّ وحدت ہیں، یہ مرکزِ دورِ کثرت ہیں
خالق ہے جہاں موجود، وہاں ہیں جلوہ نما سلطانِ رسلﷺ
کس طرح سکوں پائیگا جنوں، دیوانوں کا عالم کیا ہوگا
جنت میں اگر پائی نہ تِرے کوچے کی ہوا سلطانِ رسلﷺ
واللہ تمہاری ذات سے ہے تابندہ چراغِ لم یَزَلی
اے ماہِ مبیں! اے آئینۂ اللہ نما سلطانِ رسلﷺ
فیضانِ ضیؔا سے اختؔر کا دل طُورِ جمال نعت رہے
تادیر تجلّی پاش رہیں انوارِ ضیؔا سلطانِ رسلﷺ

...

زندگی ہم کو ملی سرورِ ذیشاںﷺ کے طفیل

زندگی ہم کو ملی سرورِ ذیشاںﷺ کے طفیل
یہ بہاریں ہیں اسی جانِ بہاراںﷺ کے طفیل
پھول ہنستے ہیں تمہارے لبِ خنداں کے طفیل
جگمگاتے ہیں ستارے درِ دنداں کے طفیل
شب مہک بار ہے زلفِ شہِ دوراںﷺ کے طفیل
مہر درکف ہے سحر، عارضِ تاباں کے طفیل
آپﷺ کی ذات ہُوَاللہُ اَحَد کی ہے دلیل
رب کا عرفان ہوا آپﷺ کے عرفاں کے طفیل
بقعۂ نور ہے ہر گوشۂ ایوانِ حیات
بدر کے چاند ترے روئے درخشاں کے طفیل
نامِ نامی ہے سرِ لوحِ کتابِ ہستی
زندگی ہوگئی اَنمول اِسی عنواں کے طفیل
نہیں شکوہ مجھے اب بے سر و سامانی کا
بخدا تِری تمنّا، تِرے اَرماں کے طفیل
صدقے ہو کر تِری زلفوں پہ برستی ہے گھٹا
ابر اٹھتا ہے ترے سایۂ داماں کے طفیل
شاعرِ بزمِ رسالتﷺ ہے خطابِ اختؔر
یہ اُسے اَوج مِلا حضرتِ حسّاں کے طفیل

...

اے خدا کے حبیبﷺ عرش مقام

اے خدا کے حبیبﷺ عرش مقام
تم پہ بے انتہا درود و سلام
تیرا دَر مامنِ خواص و عوام
سایۂ لطفِ حق، پناہِ انام
آمدِ سید الرسلﷺ کے طفیل
پیر کا دن ہے سید الایّام
المدد شوقِ دیدارِ ارضِ حرم
ہم بھی نکلے ہیں باندھ کر احرام
صاحبِ سیرِ منزلِ اَسریٰ
تیرے تابع ہے گردشِ ایّام
موت آئی جنہیں مدینے ہیں
مل گئی اُن کو زندگی دوام
ہیں جو زلف و رُخِ نبیﷺ پہ نثار
کتنے رنگیں ہیں اُن کے صبح و شام
اے ھُوَ الاَوّلُ وَھُوَ الآخِر
تو ہی آغاز ہے تو ہی انجام
وہ مدینہ ہو یاد یادِ حرم
سجدہ ریزی سے رکھئے اختؔر کام

...

دل ہے نثارِ سرورِ عالمﷺ

دل ہے نثارِ سرورِ عالمﷺ
عاشقِ زارِ سرورِ عالمﷺ
ارضِ حرم سے عرشِ علیٰ تک، عرشِ علیٰ سے قصرِ دنیٰ تک
راہ گزارِ سرورِ عالمﷺ
مصحفِ حق کی آیت آیت، مصحفِ حق کا نقطہ نقطہ
نقش و نگارِ سرورِ عالمﷺ
باغِ جناں سے باغِ جہاں تک، باغِ جہاں سے گلشنِ جاں تک
فیض بہارِ سرورِ عالمﷺ
ماہِ منیرِ شامِ غریباں، نیّرِ صبحِ تِیرہ نصیباں
لیل و نہارِ سرورِ عالمﷺ
خُلق و محبت، رحمت و رأفت، مہر و مروت، لطف و عنایت
حُسنِ شعارِ سرورِ عالمﷺ
غازۂ روئے مہرِ درخشاں، سرمۂ چشمِ ماہِ تاباں
خاکِ دیارِ سرورِ عالمﷺ
سب سے اونچا، سب سے بالا، زیبِ اَوجِ عرشِ معلّی
تختِ وقارِ سرورِ عالمﷺ
قصرِ حرم کا گوشہ گوشہ، خاکِ عرب کا ذرّہ ذرّہ
آئینہ وارِ سرورِ عالمﷺ
ان کی چمک سے، ان کی دَمک سے، ان کی مہک سے، ان کی لہک سے
پھول ہیں خارِ سرورِ عالمﷺ
ہے یہ دعائے اخترِؔ عاصی موت ہو حاصل مثلِ شہیؔدی
پیشِ مزارِ سرورِ عالمﷺ

...

بہاروں کا مرکز دیارِ مدینہ نہ کیوں جنّتیں اس پہ قربان جائیں

بہاروں کا مرکز دیارِ مدینہ نہ کیوں جنّتیں اس پہ قربان جائیں
ہیں فردوس برکف، گلستاں بداماں تمہاری گلی کی معطّر ہوائیں
ہے طٰہٰ جبیں اور والّلیل گیسو حسیں چشمِ مازَاغ، قوسین اَبرو
خدا کی قسم مرکزِ حسن ہے تو، جمالِ خدا کی ہیں مظہر ادائیں
جو بیمارِ رنج و اَلم ہو چکے ہیں، جونخچیرِ ظلم و ستم ہوچکے ہیں
جو مایوسِ لطف و کرم ہو چکے ہیں، درِ مصطفیٰﷺ پر نصیب آزمائیں
دیارِ محمدﷺ بہشتِ نظر ہے، مہک پاش و گل پوش ہر رہگذر ہے
مقدّس زمیں ہے مقدس سفر ہے، فرشتے نہ کیوں اپنی آنکھیں بچھائیں
وہ چُھپنے لگا عاصیو مہرِ محشر، وہ دیکھو ہوئیں رحمتیں سایہ گستر
وہ کھولیں محمدﷺ نے زلفیں معنبر، وہ اُٹھیں وہ اٹھیں کرم کی گھٹائیں
کہیں عکسِ عارضِ ضحٰی بن کے چمکا، ہے منظر کہیں زلف کے پیچ و خم کا
ہر آیت میں جلوہ ہے حُسنِ کرم کا، ہیں ضَو بار قرآں میں تیری ادائیں
الہٰی نظر آئیں جلوے کرم کے، میسّر جبیں کو ہوں سجدے حرم کے
اِس اختؔر کا اب اخترِ بکت چمکے، عطا ہوں اسے بھی ضیؔا کی ضیائیں

...

عرشِ حق کا شانۂ مہردنیٰ ماہِ مبیں

عرشِ حق کا شانۂ مہردنیٰ ماہِ مبیں
دل تجلّی خانۂ مہرِ دنیٰ ماہِ مبیں
تاجِ سُبحانَ الَّذِی اَسْریٰ ہے اے صلِّ عَلٰی
بر سرِ شاہانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
فرش سے تا عرشِ اعلیٰ، عرش سے تا لامکاں
ہے حد کاشانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
ہوش کی دنیا میں اک تیرے جنوں کی دھوم ہے
مرحبا دیوانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
نقشِ وَاللِّیلِ اِذَایَغْشٰی کے آئینے میں ہے
طرزِ زلف و شانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
دل بھی ہے ناچیز تحفہ ، جاں بھی ہے ناچیز شَے
کیا کروں نذرانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
آیۂ لَاتَقْنَطُوا میں مستتر ہے عاصیو
بخششِ شاہانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
کائناتِ حُسن میں تیری یہ نور افشانیاں
جلوۂ جانانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
کوثر و تسنیم کے ہمراہ دے ساقی مجھے
خلد میں پیمانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
مَے فشاں مینائے مَازَاغْ الْبَصَر سے ہے ہنوز
نرگسِ مستانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں
میں نے اختؔر پی ہے دستِ ساقی بغداد سے
بادۂ میخانۂ مہرِدنیٰ ماہِ مبیں

...

آئیے تسکینِ جانِ زار کی باتیں کریں

آئیے تسکینِ جانِ زار کی باتیں کریں
سرورِ دیں سیدِ ابرارﷺ کی باتیں کریں
ہو رہی ہیں بادلوں سے چاند کی اٹکھیلیاں
ہم بھی ان کے کاکل درخسار کی باتیں کریں
ہوش آجائے نہ پھر میرے جنونِ شوق کو
چارہ گر طیبہ کے صحرا زار کی باتیں کریں
گوشِ نازک سے ہے یوں زلفِ نبیﷺ کا اتصال
دو حسِیں جیسے بہم اسرار کی باتیں کریں
بلبلیں گل کی، چمن کی گفتگو کرتی رہیں
ہم محمّدﷺ کے لب و رخسار کی باتیں کریں
اوج پر ہے ان کے دیوانے کی شوریدہ سری
آپ طیبہ کے درو دیوار کی باتیں کریں
ہم تو اختؔر یوسفِ طیبہ کے ہاتھوں بِک چکے
کرنے والے مصر کے بازار کی باتیں کریں

...

لَیلتہ القَدر سے وَالفَجْر عیاں ہے کہ نہیں

لَیلتہ القَدر سے وَالفَجْر عیاں ہے کہ نہیں
عارضِ نور پسِ زلف نہاں ہے کہ نہیں
کہیئے جنت کا مدینے میں سماں ہے کہ نہیں
جو وہاں لطف ہے رضواں وہ یہاں ہے کہ نہیں
یہ بھی سوچا کبھی اے شکوہ گرِ ہجرِ حبیب
کہ تِرا ذوق شعلہ بہ جاں ہے کہ نہیں
جامِ مَازَاغ سے اَسریٰ کا جھلکتا ہے سرور
چشمِ مخمورِ نبیﷺ بادہ فشاں ہے کہ نہیں
ہے تِری خاک ہمہ کیمیا تاثیر مگر
فطرتِ برق بھی ہستی میں نہاں ہے کہ نہیں
تم نے دیکھا ہے جہاں نقشِ کفِ پائے حضورﷺ
وہیں جبریل کے سجدے کا نشاں ہے کہ نہیں
یہ زمیں اور یہ اشعارِ شگفتہ اختؔر
مائلِ نعت مِری طبعِ رواں ہے کہ نہیں

...

لب پہ اشعار تِرے وصف میں جب آتے ہیں

لب پہ اشعار تِرے وصف میں جب آتے ہیں
تذکرہ عرش پہ قدسی مرا فرماتے ہیں
ان کے تلووں سے جو ذرّات چمٹ جاتے ہیں
بخدا عرش کے تارے وہی کہلاتے ہیں
تِری راہوں میں کچھ ایسے بھی مقام آتے ہیں
منزلِ قربِ الہٰی سے جو مِل جاتے ہیں
مدنی چاند تِرا ذکر جہاں ہوتا ہے
عالمِ قدس کے انوار اُتر آتے ہیں
خلد کی سمت چلا، کوئی حرم کی جانب
اُن کے دیوانے مدینے کیطرف جاتے ہیں
مرتبہ تیرے غلاموں کا کوئی کیا جانے؟
جب مَلَک آنکھ مِلاتے ہوئے شرماتے ہیں
رات دن سوئے مدینہ ہے نظر اے اختؔر
یاد کب دیکھئے آقاﷺ مجھے فرماتے ہیں

...