مولانا سید محمد مرغوب اختر الحامدی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ  

میرے سلطانِ باوقارﷺ سلام

تضمین برسلام مولانا حسن رضا خاں بریلوی ﷫

میرے سلطانِ باوقارﷺ سلام
شہر یاروں کے شہر یارﷺ سلام
اے شہِ عرش اقتدارﷺ سلام
اے مدینے کے تاجدارﷺ سلام
اے غریبوں کے غمگسارﷺ سلام
سر و قامت پہ جان و دل وارے
رخ پہ قرباں جناں کے نظارے
صدقے دندانِ پاک پر تارے
تیری اِک اِک ادا پہ اے پیارے
سو درودیں فدا ہزار سلام
نور پر نور کے قبالے پر
عرش کے چاند پر، اُجالے پر
نور کے دوش پر، دوشالے پر
ربِّ سَلّمِْ کے کہنے والے پر
جان کے ساتھ ہوں نثار سلام
میرے طجاپہ، میرے ماویٰﷺ پر
میرے سرور پہ، میرے مولاﷺ پر
میرے مالک پہ، میرے داتاﷺ پر
میرے پیارے پہ میرے آقاﷺ پر
میری جانب سے لاکھ بار سلام
راہ سیدھی دکھانے والے پر
دین اِسلام لانے والے پر
اوجِ معراج لانے والے پر
میری بگڑی بنانے والے پر
بھیج اے میرے کردگار سلام
آفتابِ حسینِ فاراں پر
روحِ رنگینئ بہاراں پر
اس کرم بار ابرِ باراں پر
اس پناہِ گناہ گاراں پر
یہ سلام اور کرور بار سلام
ان کے اور ان کے نام کے صدقے
ان کے ادنےٰ غلام کے صدقے
واپسی کے پیام کے صدقے
اس جوابِ سلام کے صدقے
تاقیامت ہوں بے شمار سلام
جبکہ میری تلاش حشر میں ہو
بندۂ رسوا نہ کاش حشر میں ہو
لطفِ حق، لطف پاش حشر میں ہو
پردہ میرا نہ فاش حشر میں ہو
اے میرے حق کے راز دارﷺ سلام
پر مَسّرت رہا قیامت میں
محوِ مدحت رہا قیامت میں
زیرِ رحمت رہا قیامت میں
وہ سلامت رہا قیامت میں
پڑھ لئے جس نے دل سے چار سلام
گلشنِ آرزوئے اختؔر کا
رشکِ جنت ہو ہر گل و غنچہ
صدقۂ احمد رضا مولیٰ
عرض کرتا ہے یہ حسؔن تیرا
تجھ پہ اے خلد کی بہار سلام
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ

...

مرحبا کیا روح پرور ہے نظارا نور کا

تضمین

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی﷫ کے قصیدہ  نور پر جو تضمین حضرت مولانا اختر الحامدی﷫ نے تحریر فرمائی ہے۔ وہ ملاحظہ فرمائیں۔

مرحبا کیا روح پرور ہے نظارا نور کا
فرش سے تا عرش پھیلا ہے اُجالا نور کا
تاجدارِ شرق سائل بن کے نکلا نور کا
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
ڈالی ڈالی نور کی ہے پتّہ پتّہ نور کا
بوٹا بوٹا نور کا ہے غنچہ غنچہ نور کا
نور کی اِک اِک کلی کلی اِک اِک شگوفہ نور کا
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بُو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
جشن نورانی ہے ہر جانب ہے چرچا نور کا
انجمن آرا ہوا مکّہ میں کعبہ نور کا
ماہ حق تشریف لایا بن کے قبلہ نور کا
بارھویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اِک اِک ستارہ نور کا
دونوں عالم کی ہر اک شے پر سکّہ نور کا
دوجہاں کی نعتیں ادنیٰ صدقہ نور کا
ان کے بحر لطف سے کوثر ہے قطرہ نور کا
ان کے قصرِ قدر سے خلد ایک کمرہ نور کا
سدرہ پائیں باغ میں ننّھا سا پودا نور کا
فرق انور پر خدا نے تاج رکّھا نور کا
نور نے خود نور کو مالک بنایا نور کا
کونسی شئے ہے نہیں ہے جس پہ قبضہ نور کا
عرش بھی، فردوس بھی، اس شاہِ والا نور کا
یہ مثمّن بُرج وہ شکوئے اعلیٰ نور کا
کس قدر سنولا گیا ہے آج چہرہ نور کا
پھیکا پھیکا ، دھندلا دھندلا ہے اُجالا نور کا
روئے انور سے ذرا پردہ اٹھانا نور کا
آئی بدعت، چھائی ظلمت، رنگ بدلا نور کا
ماہِ سنت، مہر طلعت، لے لے بدلا نور کا
بڑھ گیا پا کر جبینِ نور رتبہ نور کا
دور پہنچا نور کی دنیا سے شہرہ نور کا
اللہ اللہ کوئی دیکھے تو نصیبا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان‘ سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
نور کی سرکار میں آیا ہے منگتا نور کا
ہے یہی دُربار دربارِ معلّٰے نور کا
ایک مدت سے دلِ مضطر ہے پیاسا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
پنجگانہ پیش کرتے ہیں قصیدہ نور کا
یہ نمازیں ہیں حضورِ نور تحفہ نور کا
سامنے ہوتا ہے آنکھوں کے سراپا نور کا
تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رُخ ہے قبلہ نور کا، ابرو ہے کعبہ نور کا
آسمانِ نور سے آیا رسالہ نور کا
یا کتابِ نور پر رکھا ہے پارہ نور کا
عرش سے نازل ہوا کیا خوب نسخہ نور کا
پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شِملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طُور سے اترا صحیفہ نور کا
فرقِ انور نور کی، دستار چہرہ نور کا
سادگی میں بھی ہے اِک انداز پیارا نور کا
کجکلا ہی پر کچھ ایسا رُعب چھایا نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
سَر جُھکاتے ہیں الہٰی بول بالا نور کا
ضَو فگن ہے کعبۂ جاں پر منارا نور کا
ہے اسی کی سیدھ میں لاریب رستہ نور کا
زرفشاں کیا پرچمِ حق پر ہے تارا نور کا
بینئ پُر نور پر رخشاں ہے بُکّہ نور کا
ہے لِوَاءُ الْحَمد پر اُڑتا پھریرا نور کا
صفحۂ قرطاسِ نوری پر یہ نقطہ نور کا
کس قدر ہے جگمگاتا استعارا نور کا
نور کی تحریرِ بخشش عفونامہ نور کا
مصحفِ عارض پہ ہے خطِ شفیعہ نور کا
لو سیاہ کارو مبارک ہو قبالہ نور کا
مشعلِ روشن پہ ہے نازک سا شیشہ نور کا
یاعذارِ نور پر تاریک پردہ نور کا
تبرتا ہے چاندنی میں چاند کیسا نور کا
تابِ زر بنتا ہے عارض پر پسینہ نور کا
مصحفِ اعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
چار سُو ہے طُور کے گردش میں شعلہ نور کا
مثلِ پروانہ ہے چکّر میں شرارہ نور کا
ہے طوافِ ماہ میں مصروف بالا نور کا
پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا
گردِ سر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا
ہے جلالِ مہر سے لرزاں شرارہ نور کا
کانپتا رعبِ سحر سے ہے ستارا نور کا
طُور پر ہے رعشہ بر اندام کوندہ نور کا
ہیبتِ عارض سے تھرّاتا ہے شعلہ نور کا
کفشِ پا پر گِر کے بن جاتا ہے گپُھّا نور کا
چشمِ مَازَاغَ الْبَصَر، قوسَین قبلہ نور کا
وَاضُّحےٰ نوری جبیں والْفَجر چہرہ نور کا
شرحِ قرآنِ الہٰی ہے سراپا نور کا
شمع دل، مشکوٰۃ تن، سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لیے آیا ہے سورہ نور کا
جسم نورانی ہے کیسا صاف ستھرا نور کا
منبعِ انوارِ حق، مہر مجلّٰے نور کا
پیراہن ہے تن پہ یا مشعل پہ شیشہ نور کا
مَیل سے بالکل مبرّا ہے وہ پتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کو راہی کرتا نور کا
تُجھ سے پاتا ہے جہانِ نور صدقہ نور کا
آستاں بوسی سے بڑھ جاتا ہے درجہ نور کا
تیری چوکھٹ پر ہے ساجد ہر فرشتہ نور کا
تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا تِرے سجدے سے ماتھا نور کا
اللہ اللہ ہے وجودِ پاک کیسا نور کا
اِک مکمل مظہرِ باری تعالٰے نور کا
آیۂ نُوْرًا مُبِیْنَا ہے اشارہ نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سائے کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
خال ہے رخسار پر ماہِ دو ہفتہ نور کا
زلفِ مشکیں میں ہلالی خم انوکھا نور کا
رخ یہ غازہ نور کا، آنکھوں میں سُرمہ نور کا
کیا بنا نامِ خدا، اسریٰ کا دولہا نور کا
سر پہ سہ پہر نور کا، بر میں شہا نہ نور کا
سیلِ حسن درنگ ہے اٹدا ہے دریا نور کا
اِک عجب عالم ہے تاقصرِ تدتّٰے نور کا
اب حریم نور سے اُٹھے گا پردہ نور کا
بزمِ وحدت میں مزا ہوگا دوبالا نور کا
ملنے شمِع طور سے جاتا ہے اِکّہ نور کا
ہر طرف ہے بزمِ نورانی میں چرچا نور کا
عالمِ انوار میں بکھرا ہے نغمہ نور کا
جلوہ گاہِ نور میں آتا ہے دولہا نور کا
وصفِ رُخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بینوں میں کیا بجتا ہے لہرا نور کا
شب پَرہ کیا جائے، دن ہوتا ہے کیسا نور کا
دیکھ سکتا ہے اندھیرا کب اجالا نور کا
لطف پاسکتا ہے کیا آنکھوں سے اندھا نور کا
یہ کتابِ کُن میں آیا طرفہ آیہ نور کا
غیر قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنی نور کا
اِک حجابِ نَو بہ نَو، جلوہ بہ جلوہ نور کا
ہر تجلّی، ہر کرن، ہر عکس پردہ نور کا
کر سکیں آنکھیں نہ جی بھر کر نظارا نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
مَنْ رَّآنی کیا یہ آئینہ دکھایا نور کا
لے کے آیا عید جَاءَ الحق سویرا نور کا
شرقِ انوارِ حرا سے مہر نکلا نور کا
دھوپ چمکی نور کی پھیلا اُجالا نور کا
صبح کردی نور کی، سچا تھا مژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شبِ تیرہ کو دھڑکا نور کا
ابرِ رحمت جھوم کر کعبہ سے اٹھا نور کا
نکھری نکھری ہے فضا، منظر ہے پیارا نور کا
قحطِ تاریکی گیا، آیا زانہ نور کا
پڑتی ہے نوری بَھَرن، امڈا ہے دریا نور کا
سر جُھکا اے کشتِ کَفر آتا ہے اہلا نور کا
تم سے پہلے تھا کہاں اتنا اجالا نور کا
تم سے پہلے تھا کہاں یہ دَور دورہ نور کا
تم سے پہلے ایک بت خانہ تھا کعبہ نور کا
ناریوں کا دور تھا، دلِ جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجہ نور کا
نورِ کامِل، دین ِ کامِل لے کے آیا نور کا
ہے شریعت نور کی، جاری ہے سِکّہ نور کا
ناسخِ مطلق، خدا نے خاص بھیجا نور کا
نسخِ ادیاں کر کے خود قبضہ بٹھایا نور کا
تاجوَر نے کر لیا کچّا علاقہ نور کا
کِس قدر مسرور ہے ہر ایک منگتا نور کا
سب کو قسمت سے سوا مِلتا ہے حصّہ نور کا
بِھیڑ ہے دربار میں، جاری ہے صدقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
پھوٹ نکلا اے تعالیٰ اللہ چشمہ نور کا
شاد ہیں سائل، اُبلتا ہے خزانہ نور کا
مَوج اُٹھی بحرِ کرم کی ، ہاتھ اُٹھا نور کا
بھیک لے سرکار سے، لا جَلد کاسا نور کا
ماہِ نَو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
مَل چکے ہیں اپنی آنکھوں سے یہ تلوا نور کا
ان کے دل پر نقشِ کفِ پا نور کا
تو ہے معمولی دیا، یہ طورِ سینا نور کا
دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
مہر لکھ دے یاں کے ذرّوں کو مچلکہ نور کا
خاتمِ شاہی درخشندہ عطیّہ نور کا
مہرِ تصدیقِ عقیدت ہے یہ ٹھپّہ نور کا
رکھتے ہیں اپنی جبیں پر ہم بھی سکّہ نور کا
یاں بھی داغِ سجدۂ طیبہ ہے تمغہ نور کا
اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹیکہ نور کا
ہر ادا، ہر طرز، ہر خُو، ہر سلیقہ نور کا
ہر روش، ہر طَور، ہر ڈھب، ہر سلیقہ نور کا
پاس رہ کر بن گئے پیکر صحابہ نور کا
شمع ساں اِک ایک پروانہ ہے اس با نور کا
نورِ حق سے لَو لگائے دل میں رشتہ نور کا
دائرہ ہے گردِ خورشیدِ مدینہ نور کا
برحق پر ہے شعاعوں سے احاطہ نور کا
شمعِ محفل شاہِ دیں اصحاب گھیرا نور کا
انجمن والے ہیں انجم، بزمِ حلقہ نور کا
چاند پر تاروں کے جھرمٹ سے ہے ہالہ نور کا
تجھ سے مکّہ نور کا، تجھ سے مدینہ نور کا
تجھ سے قبلہ نور کا ، ہے تجھ سے کعبہ نور کا
تجھ سے جس رشتہ کو نسبت ہے وہ رشتہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا
تو ہے عینِ نور ، تیرا سب گھرانہ نور کا
بخت اللہ غنی عثماں﷜ تمہارا نور کا
اخترِ قسمت ہے یا ماہِ دو ہفتہ نور کا
خلعتِ نورٌ علٰے نورٍ مِلا کیا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک، تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
کِس کے جلوے سے ہوا سارا زمانہ نور کا
کس کے پَر تَو سے بنی دنیا نمونہ نور کا
کِس کے عکسِ نور سے تھا ذرّہ ذرّہ نور کا
کس کے پردے نے کیا آئینہ اندھا نور کا
مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا
اب کہاں وہ عکس ریزی وہ اجالا نور کا
اب کہاں وہ جگمگاہٹ، وہ چمکنا نور کا
اب کہاں وہ صبح دلکش، وہ سویرا نور کا
اب کہاں وہ تابشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
مہر نے چھپ کر آیا خاصہ دھند لکا نور کا
تم مقابل تھے تو تاباں تھا نصیبہ نور کا
تم مقابل تھے تو پھیلا تھا اُجالا نور کا
تم مقابل تھے تو منظر اور کچھ تھا نور کا
تم مقابل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا
تم سے چھٹ کر منہ نکل آیا ذرا سا نور کا
جگمگاتا ہے کلس، صلِّ علٰے کیا نور کا
گنبدِ خضرا ہے یا بُرجِ مطلّا نور کا
اک حسیں منظر ہے تا اوجِ ثریّا نور کا
قبرِ انور کہئے یا قصرِ معلّٰے نور کا
چرخِ اطلس یا کوئی سادہ سا قُبہّ نور کا
بارگاہِ نور ہے یہ آستانہ نور کا
ہے یہاں کا چَپّہ چَپّہ گوشہ گوشہ نور کا
حاجب و درباں یہاں ہے ذرّہ ذرّہ نور کا
آنکھ مِل سکتی نہیں در پر ہے پہرہ نور کا
تاب ہے؟ بے حکم پر مارے پرندہ نور کا
روح پرور کس قدر منظر وہ ہوگا نور کا
موت آئے گی بتانے جب کہ دولہا نور کا
بن کے چمکے گا غبارِ نور غازہ نور کا
نزع میں لوٹے گا خاکِ نور پہ شیدا نور کا
مَرکے اوڑھے گی عروسِ جہاں دوپٹہ نور کا
باغِ بخشش سے چلے جب تک نہ جھونکا نور کا
ہو بہارِ سامعہ جب تک نہ نغمہ نور کا
سُن نہ لے جب تک لبِ عیسٰی سے مثردہ نور کا
تابِ نہرِ حشر سے چونکے نہ کشتہ نور کا
بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا
درحقیقت مبتدا ہے ذات والا نور کا
وجہِ وصل و غایت و مقصود و منشا نور کا
نورِ مطلق نے بنایا تجھ کو مبدا نور کا
وضعِ واضع میں تری صورت ہے معنیٰ نور کا
یوں مجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا
مرسلیں انوار، تو جوہر سراپا نور کا
سب نبی تارے ہیں توﷺ مہر مجلّی نور کا
فرع یہ تو اصل، یہ گل تو حدیقۂ نور کا
انبیاء اجزاء ہیں تو بالکل ہے جملہ نور کا
اس علاقہ سے ہے ان پر نام سچا نور کا
ہے مُنورّ دن، مُنوّر رات صدقہ نور کا
دھوپ کیسی چاندنی کیا؟ ہے اتارا نور کا
روز و شب آتے ہیں لے کر درپہ کاسہ نور کا
یہ جو مہر و مہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا
جھیل پر ہیں حُسن کی دو آہوانِ خوش جمال
نور کی رفتار سے بھی تیز تَر ہے جنکی چال
مرشدِ کامل نے میرے دی ہے کیا ستھری مثال
سرمگیں آنکھیں حریم حق کے وہ مشکیں غزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کا رمنا نور کا
دیکھنا کچھ ایسا جو بن لائیں گے دل کے کنول
دائمی عہد ِ جوانی پائیں گے دل کے کنول
تازگی پاکر نہ پھر مرجھائیں گے دل کے کنول
تابِ حسنِ گرم سے کِھل جائیں گے دل کے کنول
نَو بہاریں لائے گا گرمی کا جھلکا نور کا
خاک والے تا فلک تیر توسُّط سے گئے
دیکھنے بس اِک جھلک تیرے توسّط سے گئے
نور سے لینے چمک تیرے توسّط سے گئے
ذرّے مہرِ قدس تک تیرے توسّط سے گئے
حدِّ ارسط نے کیا صغریٰ کو کبرےٰ نور کا
برق سے چشمک زنی آخر نہیں کوئی مذاق
بھول بیٹھا اِک تجلّی ہی میں سارا اطمطراق
با ادب خم آج تک ہے منزلِ نیلی رواق
سبزۂ گردوں جُھکا تھا بہر پابوسِ براق
پھر نہ سیدھا ہوسکا کھایا وہ کوڑا نور کا
نورِ حق راکب ہو جب مرکب کا پھر کیا پوچھنا
چال کیا تھی؟ برقِ سِینا کا تھا گویا کوندنا
کس کا زہرہ؟ دیکھنا کیسا؟ کہاں کا حوصلہ؟
تابِ سم سے چوندھیا کر چاند انہی قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا، دیکھا چھلاوا نور کا
رات چمکانے کو دوڑی اخترِ بختِ سیاہ
رخ اجالے کیلئے لی صبح نے مکہّ کی راہ
ارتسامِ عکس کرنے دل پر آئے مہر و ماہ
دیدِ نقش سَم کو نکلی سات پردوں سے نگاہ
پُتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا
مہرا آیا بہر نظارا، پئے دیدارِ چاند
نیرِ تاباں ہوا، اِک ایک پَر انوار چاند
وہ بنا خورشیدِ عالمتاب یہ ضَو بار چاند
عکسِ سئم نے چاند سورج کو لگائے چار چاند
پڑگیا سیم وزرِ گردوں پہ سِکہّ نور کا
چاندنی لاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
نور برساتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
باادب آتا جدھر انگلی اٹھاتا مہد میں
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
دونوں تاروں میں ہے خورشیدِ نبوت کی چمک
دونوں پھولوں میں گلزارِ رسالت کی مہک
دونوں شہزادوں میں ہے شاہِ دو عالم کی جھلک
ایک سینے تک مشابہ اک اک وہاں سے پاؤں تک
حسنِ سبطین ان کے جاموں میں ہے نیما نور کا
یہ ادا، یہ طور، یہ اندازِ شاہِ دوجہاں
ہُو بہُو گویا سراپائے حسینِ لامکاں
جیسے شمعِ مَنْ رَآنی قَدْ رَآں الحق ضوفشاں
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خطِّ تَوَام میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا
کس قدر شفّاف ہے آئینہ نوری نہاد
جس کے دیکھے سے خدا بیساختہ آتا ہے یاد
بے نیازِ ہر ستائش، مادرائے حسنِ داد
کہ گیسو ہؔ دہن یؔ ابرو آنکھیں عؔ صؔ
 کٓہٰیٰعٓصٓ ان کا ہے چہرہ نور کا
یہ قصیدہ جو حدِ فکر رسا سے دور ہے
جو مضامیں کی بلندی میں بہت مشہور ہے
میں کروں تخمیس اختؔر کب مرا مقدور ہے
بس رضؔا ادا احمدِؔ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی تضمین بھی بڑھ کر قصیدہ نور کا
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا مولانا محمدﷺ واٰلہ واصحابہ اجمعین و بارک وسلم

نوٹ: مورخہ: ۱۵ ربیع النور (ربیع الاوّل شریف) بروز ہفتہ دو بجے شب تظمین مکمل ہوئی۔ ۳۰  اپریل  ۱۹۷۲؁ء

...

مدینے میں ہیں شہر یارِ مدینہ

تضمین بر نعتِ استاد زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خاں حسؔن بریلوی﷫ برادرِ خورد اعلٰحضرت فاضلِ بریلوی قدس سرّہ و تلمیذِ بلبلِ ہند، دبیر الدولہ فصیح الملک جناب داغؔ دہلوی مرحوم

تضمین

مدینے میں ہیں شہر یارِ مدینہ
ہے رضواں بجا افتخارِ مدینہ
نگاہوں میں ہے ہیچ ہر پھول بالکل
ہمیں دشتِ طیبہ بہارِ بریں ہے
عجب ہے مقدر دلِ ناتواں کا
ادب سے ہے سرخم جہاں آسماں کا
بس اُڑکر سوئے رحمت آباد جائے
یہ ذرّہ بھی تاروں میں ہو جائے شامِل
کھلیں پھول ہستی کے گلشن میں یارب
لگی تھی جو کل دشتِ ایمن میں یارب
رُخِ گل پہ جب تازگی دیکھتا ہوں
کلی خندہ زن جب کوئی دیکھتا ہوں
بہارِ جناں آج مجھ پر فدا ہے
زمیں پر مزہ خلد کا آرہا ہے
سیہ خانہ ہو طُور ان کی ضیا سے
منورّ ہوں اے کاش سب داغ دل کے
مِلا طور موسٰے کو اَوجِ مکرّم
اُڑا کر دَنیٰ پر تقرب کا پرچم
ہے فردوس بھی ایک حصہ یہاں کا
غلامِ کرم ہیں ملائک بھی ان کے
ذرا دیکھے ان کا مقدّر تو کوئی
بربِّ مدینہ مقدّس سمجھ کر
پئے غوثِ اعظم﷜، طفیل رضا دے
مجھے مدحِ محبوب کا یہ صلہ دے
نہ کیوں ناز ہو اختؔرِ بے نوا کو
جو بے مانگے دیتے ہیں شاہ و گدا کو

نعت

عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
کہ سب جنتیں ہیں نثارِ مدینہ
مبارک رہے عندلیبو تمہیں گل
ہمیں گل سے بہتر ہیں خارِ مدینہ
بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کا
بیاں کیا ہو عزّو وقارِ مدینہ
مِری خاک یارب نہ برباد جائے
پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ
کبھی تو معاصی کے خرمن میں یارب
لگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ
رگِ گل کی جب ناز کی دیکھتا ہوں
مجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ
جدھر دیکھئے باغِ جنت کِھلا ہے
نظر میں ہیں نقش و نگارِ مدینہ
رہیں ان کے جلوے، بسیں ان کے جلوے
مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ
بنا آسماں منزلِ ابنِ مریم
گئے لامکاں تاجدارِ مدینہ
دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا
ہمیں اِک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی
شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ
مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے
خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ
شرف جن سے حاصل ہوا انبیاء کو
وہی ہیں حسؔن افتخارِ مدینہ

...

انوار کی بارش ہوتی ہے، ضَو بار گھٹائیں ہوتی ہیں!

تضمین بر نعت حضرت لسان الحسّان علّامہ ضیاء القادری بدایونی ﷫

انوار کی بارش ہوتی ہے، ضَو بار گھٹائیں ہوتی ہیں!
ڈوبی ہوئی کیفِ حمد میں جب بلبل کی نوائیں ہوتی ہیں!
پھولوں پہ نسیمِ جنت کی قربان ادائیں ہوتی ہیں
طیبہ کے شگفتہ باغوں کی دلکش وہ فضائیں ہوتی ہیں
خوشبو سے معطّر دم بھر میں عالم کی ہوائیں ہوتی ہیں
پر کیف ہوائیں طیبہ کی عنوانِ ترنّم کیوں نہ بنیں
خاموش فضائیں وقتِ سحر فطرت کا تکلّم کیوں نہ بنیں
ضَو بخش ضیائیں تاروں کا زرپاش تبسّم کیوں نہ بنیں
مینارِ حرم کے جلووں سے تارے مہ و انجم کیوں نہ بنیں
روضہ پہ تجلّی بار آکر، سورج کی ضیائیں ہوتی ہیں
ہستی کی رہِ مشکل میں مجھے خطرہ ہے نہ کوئی اب غم ہے
یا سرورِ عالم شام و سحر جب میرے لبوں پر ہر دم ہے
مِن جانبِ حق اے صلِّ علیٰ الطاف کی بارش پیہم ہے
عنوانِ مناجات بخشش سرکار کا اسمِ اعظم ہے
نامِ شہِ دیں کی برکت سے مقبول دعائیں ہوتی ہیں
کیوں سامنے سب کے محشر میں ہوں نادم و رُسوا اَب عاصِی
دامانِ کرم کے سائے میں ہیں روزِ ازل سے سب عاصی
وہ کچھ بھی سہی، پھر بھی ہیں مگر محبوبِ حبیبِﷺ رب عاصی
روتے ہیں خطاؤں پر اپنی ہو ہو کے پشیماں جب عاصی
مولیٰ کی طرف سے بندوں پر کیا کیا نہ عطائیں ہوتی ہیں
ہوتے ہیں روانہ سُوئے عدم، جو دید کی حسرت دل میں لئے
ہر گام پہ لَا تَحْزَنْ کے انہیں آتے ہیں نظر اختؔر جلوے
آنکھوں سے حریمِ انور تک اُٹھ جاتے ہیں دُوری کے پردے
مرقد کی اندھیری راتوں میں ہوتے ہیں ضیؔا روشن چہرے
روضے کی حسِیں قندیلوں کی سینے میں ضیائیں ہوتی ہیں

...

کونین سے سوا ہے حقیقت رسولﷺ کی

تضمین برنعتِ برادرِ معظّم حضرت مولانا مفتی سید ریاض الحسن نیّر حامدی رضوی جیلانی جود ھپوری ﷫

کونین سے سوا ہے حقیقت رسولﷺ کی
ارض و سما رسولﷺ کے، جنت رسولﷺ کی
ہے عرش فرشِ پا، یہ عظمت رسولﷺ کی
قوسَین ماو راز ہے رفعتِ رسولﷺ کی
اللہ جانے کیا ہے حقیقت رسولﷺ کی
صلِّ علیٰ حبیبِ خداﷺ کا یہ مرتبہ
معراج میں بلائے گئے تاحدِ دنیٰ
ارفع مقامِ قرب تھا اتنا حضورﷺ کا
حَد ہے کہ تھک کے طائرِ سدرہ بھی رَہ گیا
قاصر مگر ہوئی نہ عزیمت رسولﷺ کی
آیاتِ بیّنات ہیں ان کی صفاتِ پاک
شرحِ صفاتِ ذاتِ خدا ہے حیاتِ پاک
قرآں بکف حضور کے ہیں تذکراتِ پاک
ہے ہاشمی و مطلبی ان کی ذاتِ پاک
مشہور کُن فکاں ہے شرافت رسولﷺ کی
کیا ان کے اَوج تک ہو رسا ذہنِ مشتِ پاک
روح الامیں کے ہوش و خرد بھی جہاں ہیں چاک
نورِ مبین ہیں، ذاتِ مبیں ہے وہ تابناک
محسوس سے مبرّہ ہے معقول سے ہے پاک
اور اک سے درا ہے حقیقت رسولﷺ کی
ہے لاج یہ غلاموں کی قربانِ مصطفیٰﷺ
امت ہے حشر میں تہِ دامانِ مصطفیٰﷺ
یہ شانِ مرحمت ہے یہ احسانِ مصطفیٰﷺ
آزاد نار سے ہیں غلامانِ مصطفیٰﷺ
آغوش میں لئے ہے شفاعت رسولﷺ کی
سرسبز نقشِ پا سے ہوا دشتِ لَق و دَق
انگلی اٹھی تو چاند بھی تھا درمیاں سے شَق
دیکھے یہ معجزے تو ہوا روئے کفر فَق
اصنام اوندھے منہ گرے سنتے ہی جَاءالحق
پتھر کو موم کرتی ہے ہیبت رسولﷺ کی
سردارِ انبیاء ہیں، پیمبر وہﷺ حق کے ہیں
محبوب ہر رسولﷺ سے بڑھ کر وہ حق کے ہیں
آئینۂ جمالِ منوّر وہ حق کے ہیں
ظاہر ہے مَنْ رَاٰنی سے مظہر وہ حق کے ہیں
نورِ خدائے پاک ہے صورت رسولﷺ کی
تیرا شرف یہ روضۂ سلطانِ باوقار
جلوہ فروز تجھ میں ہیں محبوبِ کردگار
آگوش میں ہیں تیری دو عالم کے تاجدار
سَوجاں سے میں ہُوں گنبدِ خضرا تِرے نثار
تو عرشِ حق ہے تجھ میں ہے تربت رسولﷺ کی
روشن جبیں ہے سجدوں کی تابش سے حشر تک
آئینہ رُخ سے نورِ الہٰی کی ہے جھلک
ہم ہیں وہ عاشقانِ نبیﷺ اس میں کیا ہے شک
محشر میں سنّیوں کو کہیں دیکھ کر مَلک
دیکھ وہ آرہی ہے جماعت رسولﷺ کی
مانا کہ میرے جرم و معاصی ہیں شرمناک
اعمال بَد ہزار ہیں پھر بھی نہیں ہے باک
فکرِ عذابِ حشر سے اے دل نہ ہو ہلاک
ہوتا ہے دم زدن میں وہ عاصی خطا سے پاک
جس پر ذرا ہو چشمِ عنایت رسولﷺ کی
اختؔر کی یہ دعا ہے خدا وندِ کردگار
مجھ سے نہ جیتے جی چُھٹے سرکار کا دیار
ہو جاؤں خاکِ روضۂ پُر نور پر نثار
میں نقدِ جاں کو وار دوں نیّؔر ہزار بار
حاصِل ہو یونہی کاش زیارت رسولﷺ کی

...

بہر پہلو اذیّت، ہر نفس تکلیفِ روحانی

مدد اے آمنہ﷞ کے لالﷺ

بہر پہلو اذیّت، ہر نفس تکلیفِ روحانی
سراپا درد بن کر رہ گئی ہے ہیستئ فانی
نزول آفاتِ پیہم کا، حوادث کی فراوانی
امید و یاس و حسرت‘ رنج و غم، حزن و پریشانی
فلک بے مہر، طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
اجڑتا جارہا ہے رفتہ رفتہ گلشنِ ہستی
حوادث آہ لوٹے لے رہے ہیں قلب کی بستی
امنگیں ہیں نہ اب دل میں، نہ اب وہ روح میں مستی
ہوئی جاتی ہے پروازِ تخیّل مائلِ پستی
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
مجسم کرب و بے چینی مرا دل ہوتا جاتا ہے
مجھے اب سانس تک بھی لینا مشکل ہوتا جاتا ہے
مسافر زیست کا گم کردہ منزل ہوتا جاتا ہے
نظر سے دُور رفتہ رفتہ ساحل ہوتا جاتا ہے
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
مسلسل رنج و غم نے چھین لی ہے ہر خوشی مجھ سے
ہنسی یوں دور ہے جیسے کہ ہے روٹھی ہوئی مجھ سے
مرا ہر ہَر نَفَس رکھتا ہے گویا دشمنی مجھ سے
نگاہیں پھیرتی جاتی ہے میری زندگی مجھ سے
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
یہ دل شام و سحر افسردہ و مغموم رہتا ہے
نہ جانے کس قدر آٹھوں پہر دکھ درد سہتا ہے
مسلسل ایک دریا اشک کا آنکھوں سے بہتا ہے
حضورﷺ اب آپﷺ سے بیمار اختؔر کہتا ہے
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
دل افگاروں کے ہر زخمِ جگر کا آپ مرہم ہیں
علاجِ لا دوا ہیں، غمزدوں کا چارۂ غم ہیں
فقط ہم بیکسوں کی آپ دنیا، آپ عالم ہیں
ہمارا آپ ہی دل، آپ ہی جاں، آپ ہی دم ہیں
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
مسلسل زخم کھا کر نیم جاں ہے قلب سینے میں
خراشیں پڑ چکی ہیں سیکڑوں اس آبگینے میں
یہ جینا بھی کوئی جینا ہے،مرنے میں نہ جینے میں
تمنا ہے پہنچکر موت آجائے مدینے میں
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
بس اب حد سے سوا ہے دردِ دل، دردِ جگر آقاﷺ
مری جانب بھی الطاف و کرم کی اِک نظر آقاﷺ
نگاہِ آرزو آٹھوں پہر ہے سوئے در آقاﷺ
خدارا کیجئے نخلِ تمنّا بارور آقاﷺ
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
سلام اے روشنی ہر کور کی، قوت ضعیفوں کی
سلام اے قسمتیں چمکانے والے تِیرہ بختوں کی
سلام اے بھرنے والے جھولیاں اپنے فقیروں کی
سلام اے قبلۂ حاجات، اے دولت غریبوں کی
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
سلام اے مالک و مختارِ جنت رات دن تم پر
سلام اے صاحبِ تاجِ شفاعت رات دن تم پر
سلام اے سرورِ ملک نبوت رات دن تم پر
سلام اے نوشۂ بزمِ رسالت رات دن تم پر
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ
درودیں آپ پر اَے لامکاں عرشِ عُلٰی والے
درودیں آپ پر قَوسَین والے اور دنیٰ والے
درودیں آپ پر والشمس والے والضحٰی والے
درودیں آپ پر مَازَاغ والے ماطغٰی والے
فلک بے مہر‘ طالع نارسا، دل وقفِ حیرانی
مدد اے آمنہ﷞ کے لال اے محبوبِ سبحانیﷺ

...

قصۂ کرب و اذیّت کیا کہوں ، کیوں کر کہوں

فریادِ مجسّم

قصۂ کرب و اذیّت کیا کہوں ، کیوں کر کہوں
مضطرب دل کی حقیقت کیا کہوں، کیوں کر کہوں
ہر سکوں ہے نذرِ کلفت کیا کہوں، کیوں کر کہوں
لُٹ گیا سامانِ راحت کیا کہوں، کیوں کر کہوں
داستانِ شامِ غربت‘ کیا کہوں، کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
میں گرفتارِ حوادث ہوں، کبھی صیدِ  اَلَم
مبتلائے دردِ پیہم ہوں، کبھی نخچیرِ غم
جاں گُسل حالات سے رہتا ہوں اکثر چشمِ نَم
توڑتی رہتی ہے مجھ پر گردشِ دوراں ستم
اپنی رودادِ مصیبت‘ کیا کہوں، کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
ناگہانی آفتیں لحظہ بہ لحظہ ہیں فزوں
مِٹ چکا ہے اب کتابِ دل سے عنواں سکوں
ہوچکا اِک ایک ایوانِ مسّرت سرنگوں
زیست کا ہر سانس اب ہے حاملِ سورِ دروں
دن ہے محشر‘ شب قیامت کہا کہوں‘ کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
ہر خوشی کے رُخ پہ اب رنج و محن کی گرد ہے
ہر تبسّم کی کلی کا غم سے چہرہ زرد ہے
ہر سکوں میں اِک پیامِ اضطرابِ درد ہے
ہر نَفَس گویا بجائے خود اِک آہِ سرد ہے
لُٹ گئی بزمِ مسرّت، کیا کہوں، کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
غم سے خالی کوئی بھی ساعت نظر آتی نہیں
یک نَفَس آرام کی صورت نظر آتی نہیں
کوئی شَے دنیا میں جز کلفت نظر آتی نہیں
زندگی میں اب مجھے راحت نظر آتی نہیں
میں ہوں وہ برگستہ قسمت‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
ایک محرومِ کرم، محرومِ سایا، ہوں حضورﷺ
بخت کا مارا، زمانے کا ستایا ہوں حضورﷺ 
روح افسردہ، شکستہ قلب لایا ہوں حضورﷺ
بن کے فریادِ مجسّم در پہ آیا  ہوں حضورﷺ
آپ پر روشن ہے حالت‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
ٹھوکریں کھاتا رہوں آخر کہاں تک دَر بَدر
ہے کوئی پُرسانِ غم میرا نہ کوئی چارہ گَر
سوئے دَر ہے اب نگاہِ آرزو آٹھوں پہر
یا حبیبی یا رسول اللہﷺ بَرمَن یک نظر
اب نہیں کہنے کی طاقت کیا کہوں، کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
نوشۂ بزمِ دَنیٰ، اَسْریٰ کے دولہا آپﷺ ہیں
صاحبِ قَوسَین، سلطانِ تدلّٰی آپﷺ ہیں
والضحٰی والشمس ہیں یٰس و طٰہٰ آپﷺ ہیں
نورِ حق ہیں‘ نور سر تا پا ہیں‘ کیا کیا آپﷺ ہیں
مہر بَر لب ہے شریعت‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
حاضرِ در ہے گدائے بابِ رحمت آپﷺ کا
اختؔرِ مدّاحِ سلطانِ رسالت آپﷺ کا
خاطئ و عاصی ہے یہ غرق ندامت آپﷺ کا
کچھ بھی ہے لیکن بہر صورت ہے، حضرت آپﷺ کا
آپ سے پھر بھی ہے نسبت‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں
اے حبیبِ عرش رفعتﷺ‘ کیا کہوں‘ کیوں کر کہوں

...

آنکھیں ہیں مِری تشنۂ دیدارِ مدینہ

قدموں میں بُلا لیجئے

آنکھیں ہیں مِری تشنۂ دیدارِ مدینہ
ہر وقت تصوّر ہیں انوارِ مدینہ
فردوسِ نظر ہیں در و دیوارِ مدینہ
ہے شوق زمیں بوسئ دربارِ مدینہ
لِلّٰہ کرم احمدِ مختارِﷺ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
ہے وادئ بطحا کا جو سودا مِرے سَر میں
ہر دم خلِش ہجر سے ہے درد جگر میں
لاتا ہے جنوں مجھ کو اسی راہ گذر میں
رہتا ہے بہر کیف شب و روز نظر میں
وہ دشتِ عرب اور وہ گلزارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
اِک لمحہ کی فرقت بھی نہیں دل کو گوارا
چمکے مِری تقدیر کا اے کاش ستارا
اے شاہِ امم کاش کبھی ہو یہ اشارا
جی بَھر کے کروں گنبدِ خضریٰ کا نظارا
ہر وقت رہوں حاضرِ دربارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
اے کاش حقیقت یہ مرا خوابِ حسیں ہو
پوری یہ تمنّا مِری اے سرورِ دیں ہو
دل محوِ زیارت ہو تو سجدے میں جبیں ہو
جب آئے مجھے موت مدینے کی زمیں ہو
ہوں سایہ فگن قبر پہ اشجارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
مشتاقِ زیارت کو کبھی دید بھی ہوگی
کیا شامِ اَلَم کی سحرِ عید بھی ہوگی
اس نغمۂ پُر درد کی تائید بھی ہوگی
پوری یہ دلِ زار کی امید بھی ہوگی
سلطانِ عرب، سیدِ ابرارِ مدینہﷺ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
مانا کہ گنہگار و سیہ کار ہے اختؔر
سرکارِ رضؔا کا سگِ دربار ہے اختؔر
مجبور ہے، محتاج ہے، نادار ہے اختؔر
تھوڑی سی تجلّی کا طلبگار ہے اختؔر
خورشیدِ مبیں، بدرِ ضیا بارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ

...

ساقی مجھے وہ بادۂ کیف و سرور دے

عیدِ نُور

ساقی مجھے وہ بادۂ کیف و سرور دے
دے حسن جو دماغ کو اور دل کو نور دے
روشن ہو جس سے ذہن وہ جامِ شعور دے
کوثر کی روح آج مِلا کر ضرور دے
مستی سی روح و قلب پہ چھائی ہوئی رہے
تا عمر جس کیف میں گم زندگی رہے
اُٹھی گھٹا وہ کعبہ کے پردوں سے جُھوم کر
وہ چھاگئی فلک پہ فضائیں گئیں نِکھر
ہے سرمدی سُرور کی بارش جہان پر
لا ایک جام اور پلا، ایک اور بھر
رِندوں کی آج عید ہے ، مستوں کی عید ہے
ساقی حرم کے بادہ پر ستوں کی عید ہے
لاوارثوں کی عید، یتیموں کی عید ہے
ٹوٹے دلوں کی، تیرہ نصیبوں کی عید ہے
مایوس و ناامید، غریبوں کی عید ہے
بیمار، بیکسوں کی، ضعیفوں کی عید ہے
ہے فیضیابِ رحمتِ پروردگار عید
یہ عید وہ ہے جس پہ تصدق ہزار عید
جنت کا ہے جواب گلستاں بنا ہوا
ہے چاندنی کا فرش چمن میں بچھا ہوا
غنچوں کا آبِ نور سے منہ ہے دُھلا ہوا
ہے عطرِ روحِ حُسن میں گُل بسا ہوا
ہے سامنے نگاہ کے نقشہ بہشت کا
ہوتا ہے صحنِ باغ پہ دھوکا بہشت کا
گم ہے سیاہ دَور، زمانہ ہے نور کا
عالَم تمام آج خزانہ ہے نور کا
پھر بلبلوں کے لب پہ ترانہ ہے نور کا
باہم دِگر زباں پہ فسانہ ہے نور کا
نوری سماں ہے عالَمِ صد کیف و نور ہے
کل کائنات غرقِ شرابِ سرور ہے
تاریکیوں کا دَور دلِ مضمحل گیا
چمکا نصیب گوہرِ مقصود مِل گیا
ملّت کے دل کا غنچۂ افسردہ کِھل گیا
ہستی کا چاک دامنِ امید سل گیا
وہ نورِ چشمِ آمنۂ﷞ پاکﷺ آگئے
دنیا میں آج سیّد ِ لولاکﷺ آگئے
ظلمت کدوں کو دہر کے اِک روشنی ملی
ہر مضمحل نگاہ کو تابندگی ملی
بیمار زندگی کو نئی زندگی مِلی
غم خوردہ و شکستہ دلوں کو خوشی ملی
فیضِ جمالِ ماہِ عرب آج عام ہے
مسرور و شاد کام زمانہ تمام ہے
دورِ سرور و کیف کی جلوہ گری ہوئی
کِشتِ امید سُوکھ چکی تھی، ہری ہوئی
زندہ ہے پھر ہر ایک تمنّا مَری ہوئی
ہے آج ہر فقیر کی جھولی بھری ہوئی
جاگے نصیب، روز مِلا عیدِ نور کا
صدقہ ہے یہ ولادتِ پاکِ حضورﷺ کا
سورج میں ‘ ماہتاب میں ‘ تاروں میں روشنی
گلزار میں، گلوں میں، بہاروں میں روشنی
قدرت کے دلنواز اشاروں میں روشنی
پھر آگئی تمام نظاروں میں روشنی
منظر نظر نواز، سماں بے نظیر ہے
روشن چراغِ حسنِ سراجِ منیر ہے
عہدِ سکوں و مہبطِ راحت ہے کائنات
جلوہ گہِ خلوص و محبت ہے کائنات
میخانۂ نشاط و مسرّت ہے کائنات
ہر خاص و عام کے لئے جنت ہے، کائنات
اب سلطنت ہے صاحبِ خلقِ عظیم کی
محبوبِ حق، جنابِ رؤف و رحیمﷺ کی
اللہ کے رسولﷺ، رسالت کا واسطہ
اے تاجدار، تاجِ شفاعت کا واسطہ
محبوبِ حق، نگاہِ محبت کا واسطہ
سرکار، روزِ عیدِ ولادت کا واسطہ
صدقہ رضؔا کا آج جو مانگوں وہی ملے
اختؔر کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی ملے

...

ساقی مجھے جامِ مَے عطا کر

مثنوی انوار العرفان

ساقی مجھے جامِ مَے عطا کر
لِلّٰہ پِلا نظر مِلا کر
لب تشنہ ہوں، تشنگی بجھا دے
لا جام، تجھے خدا جزا دے
دل کو نہیں میرے تاب ساقی
لا جلد، پِلا شراب ساقی
جِیلان سے کِشید کی ہوئی لا
میخانۂ غوثِ پاک﷜ کی لا
بغداد کی ہو بہار جس میں
ہو نگہتِ چار یار﷠ جس میں
ہو فاطمی﷞ انبساط جس میں
اور پنجتنی﷠ نشاط جس میں
بُو چشتی ہو، رنگ نقشبندی
ہو کیف و سرور سہروردی
نوری[1]؎ مئے معرفت پلا دے
جو قلب و دماغ کو جِلا دے
ہر جُرعہ میں کیف و سرمدی ہو
وہ لا کہ جو آج تک نہ پی ہو
پاکیزہ سرور بھی ہو جس میں
اللہ کا نور بھی ہو جس میں
دارین کی لذتیں ہوں جس میں
کونین کی فرحتیں ہوں جس میں
فردوس کی نکہتیں ہوں جس میں
جنت کی لطافتیں ہوں جس میں
اے حامدِ[2]؎ نور بار ساقی
یہ رِند تیرے نثار ساقی
ہے عیدِ نویدِ موسمِ گل
کر آج شکستِ ساغرِ مُل
آنکھوں سے پِلا کے مست کر دے
مدہوش شرابِ ہست کر دے
آج ایسی پِلا، کبھی نہ پی ہو
ہر جرعہ میں غسلِ روح بھی ہو
اس طرح ہو روح پاک ساقی
ہر سانس ہو تابناک ساقی
ہے غسلِ مئے طہور کا دن
ہے آج ظہورِ نور کا دن
دن آگئے پھر مسرّتوں کے
پھر بدلے نصیب قسمتوں کے
گلشن سے خزاں کا زور ٹوٹا
وہ غنچۂ نَو چمن میں پھوٹا
تاریکئ کفر ہٹ رہی ہے
ظلمت کی گھٹا سمٹ رہی ہے
لو دُور ہوئے مصیبت و غم
لہرایا وہ رحمتوں کا پرچم
اَکْملتُ لَکُم کا دَور آیا
رحمت نے کرم کا دن دکھایا
دن گیارہواں ‘ شب ہے بارہویں آج
ہے بارہ ربیعِ اوّلیں آج
محبوبِ خداﷺ ہیں آنے والے
سلطانِ دنیٰ ہیں آنے والے
کونین کے شاہﷺ آرہے ہیں
تشریف حضورﷺ لا رہے ہیں
ہے آمدِ تاجدارِ عالمﷺ
ہے آمدِ نو بہارِ عالَمﷺ
کل مملکتِ خدا کے مالکﷺ
ہر شاہ کے ہر گدا کے مالکﷺ
ہے عرش پہ اقتدار جن کا
ہے فرش پہ اختیار جن کا
ہے چودہ طبق پہ جن کی شاہی
ہیں جن کے ملائکہ سپاہی
جو قاسمِ رزقِ کبریا ہیں
محبوبِ خدائے دوسرا ہیں
تابع ہیں انہیں کے انس اور جن
مومن ہیں کرم سے جن کے مومن
جو دو جہاں کے تاجورﷺ ہیں
محبوبِ خدائے بحروبَر ہیں
وہ بیکسوں، بے بسوں کا حامی
جن کے بشر و ملک سلامی
ہر کور و ضعیف کا سہارا
وہ آمنہ بی﷝ کا ماہ پارا
فریادِ غریب سننے والے
وہ دُور و قریب سننے والے
بیکس کرے غرب میں جو نالے
یہ شرق سے ہیں پہنچنے والے
آیا وہ سرِ یتیم کا ظِل
جو ٹوٹے ہوئے دلوں کا ہے دِل
مظلوم پہ ظلم اب نہ ہوگا
اندھیر یہ روز و شب نہ ہوگا
بیماروں کو مژدۂ شفا ہے
وہ جانِ مسیح آرہا ہے
دنیا میں ہے ان کی آمد آمد
ہے اسمِ شریف جن کا احمدﷺ
ہے نورِ خدا کی عِید کا دِن
دراصل ہے آج عید کا دن
کچھ اور ہے آج شانِ عالم
ہے یومِ ظہورِ جانِ عالم
پہنے ہے زمیں قبائے نوری
ہے طُور بکف ضیائے نوری
ذرّات کا یہ حِسیں تبسّم
جس پر ہیں نثار ماہ وانجم
غنچے ہیں کہ مسکرا رہے ہیں
 تارے ہیں کہ جگمگا رہے ہیں
برسا ہے کرم کا عطر ہر سُو
مٹی میں بھی مشک کی ہے خوشبو
ہیں جنّ و بَشَر، مَلَک معطّر
خوشبو سے ہیں نُہ فلک معطّر
ہر غنچہ و گل ہے خلد بَرکف
ہر شاخِ شجر بہار درکف
تھا جن کا نہ باغباں نہ مالی
سر سبز ہے اُن کی ڈالی ڈالی
ہر شاخِ جناں پہ خندہ زن ہے
ہر خار شگوفۂ چمن ہے
باغوں میں پرے طیور کے ہیں
نغمات زباں پہ نور کے ہیں
غنچوں کو مِلا ہے لحنِ داؤد
ہے وردِ زباں درودِ مسعود
پُر کیف ہیں سرمدی ترانے
گلشن زرِگل کے ہیں خزانے
یہ دشت نہیں ہے گلستاں ہے
فردوس ہے یہ چمن کہاں ہے
شاخوں پہ بہار کا ہے عالم
مستی کا، خمار کا ہے عالم
پھولوں سے لدی ہیں ‘ جھومتی ہیں
سوسن کے لبوں کو چومتی ہیں
پتے کفِ دستِ حوریاں ہیں
مرأتِ جمالِ نوریاں ہیں
ایک ایک کلی بہ حسن و خوبی
ہے خلد کی نگہتوں میں ڈوبی
ہر غنچہ بکف بہارِ جنت
ہر گل پہ فدا ہزار جنت
رقصاں ہیں فلک پہ چاند تارے
آپس میں ہیں نور زا اشارے
حوروں نے لباسِ نور پہنا
قدرت سے ملا حسِین گہنا
پہنے ہوئے نور کی قبائیں
پھر اس پہ وہ نازنیں ادائیں
شاغِل بہ درود ہیں فرشتے
مائل بہ سجود ہیں فرشتے
پہنے ہوئے حلّہائے زرّیں
مشکیزے لئے بہ دوش مشکیں
ہر سمت قریب و دُور غلماں
برساتے ہیں آبِ نور غِلماں
ہے عالَمِ وجد و کیف میں عرش
سجدے میں جھکا ہے جانبِ فرش
ہے وحش و طیور میں مچی دھوم
آنے کو ہیں وہ نبئﷺ معصوم
خوں اب نہیں کفر کی رگوں میں
بت اوندھے پڑے ہیں مندروں میں
نزدیک ہے آمدِ شہِ دیں
زنجیروں میں قید ہیں شیاطیں
ہے معجزۂ ظہورِ والا
دریا تو ہے خاک، خاک دریا
وہ دیکھئے اُڑ رہا ہے کیسا
کعبے پہ محمّدیﷺ پھریرا
ابوابِ نظر کُھلے ہوئے ہیں
فردوس کے دَر کُھلے ہوئے ہیں
دو رویہ فرشتگانِ افلاک
استادہ ہیں تا بہ مولدِ پاک
ہے نور زمیں سے آسماں تک
جلوے ہیں مکاں سے لامکاں تک
پُر نور مکاں ہے آمنہ﷞ کا
گھر رشکِ جناں ہے آمنہ﷞ کا
صدقے ہے بہار آمنہ﷞ پر
انجم ہیں نثار آمنہ﷞ پر
پَردوں میں جو نور، ؟؟؟ ہے
سب پیشِ نگاہِ آمنہ﷞ ہے

 

[1] حضرت ابو الحسن نوری قدس سرہ العزیز ۱۲

حضرت حجتہ الاسلام آقائے نعمت بریلوی ﷫ ۱۲ (اختر الحامدی)[2]

...