نعت محل  

کتنی حسیں ہے اُن کے ثناخواں کی گفتگو

کتنی حسیں ہے اُن کے ثناخواں کی گفتگو
آٹھوں پہر ہے سرورِ دوراں کی گفتگو
ہر وقت کیجئے شہِ خوباں کی گفتگو
آنکھوں کا ذکر ہو کبھی مثرگاں کی گفتگو
اَسریٰ میں جب حضورﷺ تھے خالق سے ہمکلام
تھی قُدسیوں میں عظمتِ انساں کی گفتگو
اللہ اور سلسلۂ شب دراز تو ہو
جاری ہے اُن کے گیسوئے ذیشاں کی گفتگو
سُن لے جو تذکرہ بھی عذارِ حبیبﷺ کا
چھیڑے نہ عندلیب گلستاں کی گفتگو
کیا شامِ عیدِ آمدِ یادِ حبیبﷺ ہے
ہے آنسوؤں میں جشنِ چراغاں کی گفتگو
تیرے سوا خیالِ نبیﷺ! میں تِرے نثار
سمجھا نہ کوئی دیدۂ گریاں کی گفتگو
دردِ فراقِ طیبہ ہے خود میرا چارہ گر
کیجے نہ میرے سامنے درماں کی گفتگو
پھولوں کی بزم ہو کہ ہو تاروں کی انجمن
ہوتی ہے آپ کے لب و دنداں کی گفتگو
کل روزِ حشر مدحِ نبیﷺ کے طفیل میں
اختؔر سے ہوگی حضرتِ حسّاں کی گفتگو

...

زائر ہیں رواں شام و سحر سُوئے مدینہ

زائر ہیں رواں شام و سحر سُوئے مدینہ
اے کاش ہو اپنا بھی سفر سُوئے مدینہ
سر سُوئے حرم، دل ہے مگر سُوئے مدینہ
سجدے ہیں بالفاظِ دگر سُوئے مدینہ
اِتنی ہو وارفتگئ شوقِ نظارا
ہر وقت ہو بیتاب نظر سُوئے مدینہ
اُٹھ اور نئے انداز سے اُٹھ میں تِرے صدقے
لے چل مجھے اے دردِ جگر سُوئے مدینہ
ذرّاتِ مدینہ کی کِشش دیکھ رہا ہوں
جاری ہے ستاروں کا سفر سُوئے مدینہ
ہر ذرّہ ہمہ طُور، ہمہ برقِ تجلّی
باچشمِ کلیمانہ مگر سُوئے مدینہ
کب دیکھئے سرکار سے آتا ہے بُلاوا
دن رات ہے اختؔر کی نظر سُوئے مدینہ

...

ہوتے ہی قیدِ تن سے رہا اپنے گھر گئی

ہوتے ہی قیدِ تن سے رہا اپنے گھر گئی
مہجور روح تا درِ خیر البشر گئی
بارانِ اشکِ غم میں نہا کر سنور گئی
کچھ اور بھی عروسِ تمنّا نِکھر گئی
اللہ ری بہشتِ مدینہ تِری بہار
ہر گُل جناں بکف تھا جہاں تک نظر گئی
فرمایا جو کلام وہ وحیِ خدا ہوا
کی آپ نے جو بات وہ دل میں اُتر گئی
طیبہ کی سمت لے کے درودوں کے ہار پھول
دلہن بنی ہوئی مِری آہِ سحر گئی
کھولی جو زلف آپ نے گلشن مہک اٹھے
شانہ کیا تو کاکلِ ہستی سنور گئی
اختؔر ہے میرے ہاتھ میں دامانِ مصطفیٰﷺ
دنیا سنور گئی مِری عقبیٰ سنور گئی

...

یہ مانا ؎ جان اِک دن قیدِ آب و گِل سے نکلے گی

یہ مانا[1]؎ جان اِک دن قیدِ آب و گِل سے نکلے گی
ولائے مصطفیٰﷺ لیکن نہ میرے دل سے نکلے گی
الہٰی کس قدر محبوب حسرت دل سے نکلے گی
جو دیدارِ جمالِ رحمتِ کامِل سے نکلے گی
خدا چاہے تو پائے گی جگہ آغوشِ رحمت میں
عروسِ روح جس دن بھی حریمِ دِل سے نکلے گی
عطائے بے طلب جب شان ہے تیری کریمی کی
طلب کی پھر صدا کیسے لبِ سائل سے نکلے گی
تمہاری یاد کے قربان کتنی کیف آور ہے
نہ اب تک دِل سے نکلی ہے نہ کل تک دل سے نکلے گی
سواری رحمتِ کونینﷺ کی میدان محشر میں
لٹاتی رحمتیں ہر راہ پر منزل سے نکلے گی
نظر سے تا حریمِ قدس ہے اِک نور کا عالَم
کہ لیلائے تمنّا پردۂ محمل سے نکلے گی
دمِ آخر جو ہوں گے سامنے معراج کے دولہاﷺ
دلہن بن کر مِری جاں جسمِ آب و گِل سے نکلے گی
رخ و زلفِ نبیﷺ کا ہے تصوّر رات دن اختؔر
نہ دن مشکل سے نکلا ہے نہ شب مشکل سے نکلے گی

 

 [1]اس مبارک نعت کے متعلق لسان الحسان علامہ ضیاء القادری ﷫ کا بشارت آمیز، ایمان افروز مکتوبِ گرامی حقر نے ’’حرفِ آغاز‘‘ کے تحت پیش کیا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے قارئینِ کرام پھر یہ نعت شریف پڑھیں۔ (اختر شاہجہانپوری)

...

تم پر نثار ہونے کو آئی ھے چاندنی

تم پر نثار ہونے کو آئی ھے چاندنی
تاروں کے پھول نذر کو لائی ہے چاندنی
اے نازنینِ حقﷺ! تِری بزمِ جمال سے
سورج نے دھوپ چاند نے پائی ہے چاندنی
یاد آگئی ہے تابشِ رخسارِ مصطفیٰﷺ
کیا سرد آگ دِل میں لگائی ہے چاندنی
وہ لب کُھلے کہ نور کا چشمہ اُبل پڑا
وہ مسکرا دئے ہیں کہ چھائی ہے چاندنی
طیبہ کی خاک سے پئے کسبِ تجلیات
گردوں سے فرش پر اُتر آئی ہے چاندنی
کرنا سلام عرض مدینے کے چاندﷺ سے
تابابِ نور تیری رسائی ہے چاندنی
شاید ملا ہے غازۂ خاکِ درِ حبیبﷺ
کیا تیرا روپ تیری صفائی ہے چاندنی
تو اپنی چاندنی مہِ کامل سمیٹ لے
مجھ کو تو رب کے چاند کی بھائی ہے چاندنی
وہ ذرّہ بن کے ماہِ مبیں ضوفشاں ہوا
جس نے خدا کے چاند سے پائی ہے چاندنی
روشن ہے تجھ سے شب‘ تو جمالِ حبیبﷺ سے
میں نے بھی بزمِ نعت سجائی ہے چاندنی
اختؔر ہے تابناک ہر اِک گوشۂ حیات
ماہِ عرب کی دل میں سمائی ہے چاندنی

...

جو ہیں حبیبِ خالقﷺ بر تر وہﷺ آگئے

جو ہیں حبیبِ خالقﷺ بر تر وہﷺ آگئے
جشنِ سرور و نور ہے گھر گھر وہﷺ آگئے
لب تشنہ! دیکھ ساقئ کوثر وہﷺ آگئے
رحمت کا بادہ خانہ بہ ساغر وہﷺ آگئے
نغمہ ہے بلبلوں کی زباں پر وہﷺ آگئے
بولی کلی گلوں سے چٹک کر وہﷺ آگئے
وقفِ پیامِ عید چمن میں صبا ھے آج
جو ہیں بہارِ حسنِ گُلِ تَر وہﷺ آگئے
دیتی ہے شاخ، شاخ کو پیغامِ تہنیت
کہتا ہے پھول، پھول سے ہنس کر وہﷺ آگئے
بھرتے ہیں رات دن جو فقیروں کی جھولیاں
کرتے ہیں جو گدا کو تو نگر وہﷺ آگئے
قسمت پہ اپنی آج ہیں نازاں گناہگار
کہتے ہیں جن کو شافعِ محشر وہﷺ آگئے
جانِ حزیں کا چَین، سکونِ شکستہ دِل
جو ہیں قرارِ خاطرِ مضطر وہﷺ آگئے
روشن ہے جن کے نام سے اسلام کا چراغ
جو حق کے نازنین ہیں اختؔر وہﷺ آگئے

...

وہ اصل آئینۂ حقیقت، دہ عین حسنِ مجاز آئے

وہ اصل آئینۂ حقیقت، دہ عین حسنِ مجاز آئے
سراجِ بزمِ اَلَشت بن کر زمیں پہ ہستی نواز آئے
مجھے تو جب لطف بندگی کا جبینِ عجز و نیاز آئے
اِدھر ہو سجدہ اُدھر اٹھا کر حجاب جانِ نماز آئے
قدم قدم پر مجھے پکارا، تِرے کرم نے دیا سہارا
عدم کی دشوار راہ میں جب کٹھن نشیب و فراز آئے
نثار ہے قَد نریٰ ادا پر، فدا ہے انداز پر فَتَرضٰے
خدا اٹھاتا ہے ناز جن کے وہ ناز نیں جانِ ناز آئے
ترے سوا کرسکا نہ کوئی علاج بیمارِ زندگی کا
بڑے بڑے چارہ ساز دیکھے بڑے بڑے چارہ ساز آئے
پھر ایسے عیسیٰ نفس کا درد فراق جاں آفریں نہ کیوں ہو
کہ جس کے در پر اجل بھی لے کے پیامِ عمرِ دراز آئے
خلش مٹی روحِ مضمحل کی مراد بر آئی آج دل کی!
وہ لطف گستر، غریب پرور، حضورﷺ اختؔر نواز آئے

...

اگر چشمِ بصیرت ہو تو ظاہر ہے یہ قرآں سے

اگر چشمِ بصیرت ہو تو ظاہر ہے یہ قرآں سے
بیاضِ کُن کی رب نے ابتدا کی ہے کس عنواں سے
احاطہ ہو نہیں سکتا کبھی ادراکِ انساں سے
بہت آگے تِری عظمت کی حد ہے حدِّ امکاں سے
نظر مشتاق، دل بیتاب، جاں پُرسوز، نَم آنکھیں
چلا ہوں جانبِ طیبہ نرالے ساز و ساماں سے
مدینے کی بہاریں پھر مدینے کی بہاریں ہیں
بدل دیتی ہیں یہ تقدیر صحرا کی گلستاں سے
فراقِ مصطفیٰﷺ کی رات کیسی جگمگاتی ہے؟
تسلسل آنسوؤں کا کم نہیں جشنِ چراغاں سے
تعالیٰ اللہ اوجِ درس گاہِ سرورِ عالم
فرشتوں کو سبق لیتے ہوئے دیکھا ہے انساں سے
سُرورِ لذتِ حسنِ عمل اس سے کوئی پوچھے
جسے بھی ایک چٹکی مل گئی ان کے نمکداں سے
مدیحِ خاص ممدوحِ ازل خود حق تعالیٰ ہے
ادا وصفِ نبیﷺ کا حق ہو کیا اختؔر ثناخواں سے

...

سوادِ شب میں ملے، مطلعِ سحر میں ملے

سوادِ شب میں ملے، مطلعِ سحر میں ملے
تم اے جمالِ خدا شمس میں قمر میں ملے
گدا نوازئ محبوب اور کیا ہوگی
وہ دیکھنے سے بھی پہلے مجھے نظر میں ملے
ہے ایک جاں سے قریں اک رگِ گلو کے قریب
تلاش جن کی تھی باہر، مجھے وہ گھر میں ملے
تھی قدسیوں کی جبیں کی چمک دمک جن میں
نشان ایسے بھی طیبہ کی رہگذر میں ملے
تلاشِ منزلِ اوجِ نبیﷺ بھی کیا شَے ہے
شریک آدم و عیسٰی بھی اس سفر میں ملے
جو آپ عین خبر ہے وہ مبتدا تم ہو
وہ تم خبر ہو کہ خود مبتدا خبر میں ملے
وہ خارِ دشتِ حرم لے اُڑے ہوا جس کو
الہٰی کاش وہ میرے دل و جگر میں ملے
ہے اب حضورﷺ کا در اور اختؔر سائل
بھلا کسی سے طلب کیوں کروں جو گھر میں ملے

...

خاکِ وطن سے دور بلا لیجئے مجھے

خاکِ وطن سے دور بلا لیجئے مجھے
طیبہ میں اب حضورﷺ بُلا لیجئے مجھے
لطفِ عمیم آپﷺ، رؤف و رحیم آپﷺ
میں ہُوں ہمہ قصور بلا لیجئے مجھے
خالی ز حُسن و کیف بہ ہر کیف ہے حیات
تا بزمِ رنگ و نور بلا لیجئے مجھے
مومن کی جان سے بھی زیادہ قریں ہیں آپ
کیا آپ سے ہے دُور بلا لیجئے مجھے
معراجِ دیدِ گنبدِ خضرٰی نصیب ہو
جانِ کلیمِ طُور بلا لیجئے مجھے
تیرِ حوادثات کی بارش ہے روز و شب
زیرِ ردائے نور بلا لیجئے مجھے
اے مستقل نشاط، ہمہ کیفِ سرمدی
تامنزلِ سُرور بلا لیجئے مجھے
اے کارسازِ اخترِؔ محتاج و بے نوا
امسال تو ضرور بلا لیجئے مجھے!

...