نعت محل  

ہے مُرِیْدیْ لَا تَخَفْ جب اذنِ عامِ غوثِ پاک

منقبت حضرت غوثِ اعظم ﷜

ہے مُرِیْدیْ لَا تَخَفْ جب اذنِ عامِ غوثِ پاک﷜
کیوں نہ ہوں آزاد دوزخ سے غلامِ غوثِ پاک﷜
ہے جہانِ معرفت میں احترامِ غوثِ پاک﷜
اللہ اللہ کِتنا ارفع ہے مقامِ غوثِ پاک﷜
میں بھی دیکھوں پوچھتے ہیں مجھ سے کیا مُنکَر نکیر
نزع میں لکھ دے جبیں پر کوئی نامِ غوثِ پاک﷜
آپ کے زیرِ قدم ہیں اولیاء کی گردنیں
اے تعالی اللہ یہ اوجِ مقامِ غوثِ پاک﷜
منہ میں پاتا ہوں حلاوت کوثر و تسنیم کی
لب پہ جب بے ساختہ آتا ہے نامِ غوثِ پاک﷜
گلشنِ صد رنگ و بُو ہے مصرعہ مصرعہ شِعر شِعر
ہے بہشتِ معرفت گویا کلامِ غوثِ پاک﷜
ان کا پَیر و اِک قدم ہٹتا نہیں اِسلام سے
کس قدر مضبوط و محکم ہے نظامِ غوثِ پاک﷜
خلد بر کف اے مقدّس سرزمیں بغداد کی
کب سے ہے تیرے لئے مضطر غلامِ غوثِ پاک﷜
وہ فضائے میکدہ اختؔر ہے فردوسِ نظر
بادۂ جیلاں، رضا کا ہاتھ، جامِ غوثِ پاک﷜

...

ائل بہ کرم چشم ضیا بارِ رضا ہے﷫

منقبتِ اعلحٰضرت مجدّدِ دین و ملّت، امام احمد رضا خان بریلوی قُدِّسَ سِرّہ

ائل بہ کرم چشم ضیا بارِ رضا ہے﷫
خدّام چلیں عرسِ پُر انوارِ رضا ہے﷫
ہے اس کی دمک قاطع تاریکی باطِل
آئینۂ حق روئے ضیا بارِ رضا ہے﷫
اس باغ کا ہر پھول ہے ہر دم تر و تازہ
گلزارِ اِرم گلشنِ بے خارِ رضا ہے﷫
ضُو بار ہے مارہرۂ پُر نور کی مشعل
اللہ رے کیا رونقِ دربارِ رضا ہے﷫
ایمان کی ہے بھیک ترے کاسۂ دل میں
 کیا شان تِری سائلِ سرکارِ رضا ہے﷫
فرقِ حق و باطل ہے عیاں آج جہاں پر
تو کلکِ رضا اصل ہیں تلوارِ رضا ہے﷫
اختؔر تِری شہرت نہ ہو کیوں ملکِ سخن میں
تو شاعرِ دربارِ پر انوارِ رضا ہے﷫

...

آگیا روزِ عیدِ وصالِ حبیب، مثردہ اے مَیگسارانِ احمد رضا﷫

منقبتِ امامِ اہلسنّت، مجدّدِ دین و ملّت فاضلِ بریلوی قدس سِرّہ

آگیا روزِ عیدِ وصالِ حبیب، مثردہ اے مَیگسارانِ احمد رضا﷫
پینے والوں کی خود جستجو میں ہے آج، جامِ صہبائے عرفانِ احمد رضا﷫
پھر بریلی کی جانب سے بادل اُٹھے، ہو مبارک غلامانِ احمد رضا﷫
اہلِ سنت پہ ہونے لگی جھوم کر بارشِ خاص فیضانِ احمد رضا﷫
عشقِ ماہِ مدینہ کے انوار کا، چاند روئے درخشانِ احمد رضا﷫
مصطفیٰﷺ کی محبت کا ہے آئینہ، عکسِ رخسارِ تابانِ احمد رضا﷫
مِل رہا ہے شہِ دیں کا صدقہ یہاں، بٹ رہا ہے مدینے کا باڑا یہاں
نعمتِ عشقِ محبوب سے لے چلو، بھر کے جھولی گدایانِ احمد رضا﷫
اہلِ سنت کا ہے خلد برکف چمن، کیوں اٹھائیں بھلا ہم خزاں کے مِحَن
نگہتِ عشقِ گلزارِ محبوب سے، ہے معطّر گلستانِ احمد رضا﷫
عَلَمِ عظمتِ شاہِ دیں کو لئے، اللہ اللہ وہ معرکے سَر کئے
مصطفیٰﷺ کی وِلا کا نشاں بن گیا، پرچمِ عزت و شانِ احمد رضا﷫
ذاتِ والا ہے سر تا پا بحر العلوم، اک عجم کیا زمانے میں ہے جس کی دھوم
خود عرب کے افاضِل نے اسناد لیں‘ اللہ اللہ یہ شانِ احمد رضا﷫
جلوۂ مصطفیٰﷺ ہے نظر سے قریب، عام ہے دعوتِ سوزِ عشق حبیب
کس قدر اَوج پر ہے ہمارا نصیب‘ ہم ہوئے آج مہمانِ احمد رضا﷫
تابہ کئے یہ خلش اور دردِ جگر، تابہ کَے ٹھوکریں کھاؤں میں دَر بہ دَر
ہو گنہگار اختؔر پہ آقا نظر، ہوں غلامِ غلامانِ احمد رضا﷫

...

فخرِ دین و فخرِ ملّت، سیّدی احمد رضا﷫

منقبتِ اعلحٰضرت امامِ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرّہ

فخرِ دین و فخرِ ملّت، سیّدی احمد رضا﷫
نورِ وحدت، ظلِّ رحمت، سیّدی احمد رضا﷫
کعبۂ اہلِ طریقت، سیّدی احمد رضا﷫
آفتابِ قادریّت، سیّدی احمد رضا﷫
الغیاث اے مہرِ طلعت، سیّدی احمد رضا﷫
آگیا پھر دورِ ظلمت، سیّدی احمد رضا﷫
چھا رہی ہے ہر طرف کفر و ضلالت کی گھٹا
ہے پریشاں حال امّت، سیّدی احمد رضا﷫
دینے والے درس نظم و ضبط ہیں خود منتشر
ہے الگ سب کی جماعت، سیّدی احمد رضا﷫
دینِ حق پر مٹنے والے جاہ پر مِٹنے لگے
ہیں شہیدِ حسنِ دولت، سیّدی احمد رضا﷫
الغرض کوئی ہمارا اب نہیں پُرسانِ حال
اے امامِ اہلِ سنّت، سیّدی احمد رضا﷫
تنگ آکر آج اِن ہمّت شِکن حالات سے
در پہ لایا ہوں شکایت، سیّدی احمد رضا﷫
کس سے پوچھیں‘ کون بتلائے، کہاں جائیں غلام
آپ کی ہے پھر ضرورت، سیّدی احمد رضا﷫
لایئے تشریف تربت سے قلم در کف حضور
کیجئے تجدیدِ ملّت، سیّدی احمد رضا﷫
آئیے بھٹکے ہوؤں کی رہبری فرمائیے
خضرِ راہِ دین و سنّت، سیدی احمد رضا﷫
ہم گئے گزرے ہووں کو شان و شوکت ہو نصیب
پھر عطا ہو اَوج و رفعت، سیّدی احمد رضا﷫
ہے یہ مدّت سے پریشان حال مدّاحِ حبیب
اِک نظر اے ابرِ رحمت، سیّدی احمد رضا﷫
ہُوں اِسی در کا بھکاری، ہُوں اسی دَر کا غلام
کیجئے چشمِ عنایت، سیّدی احمد رضا﷫
کلکِ انور کی جواہر ریزیوں سے پھر حضور
کھول دو چشمِ بصیرت، سیّدی احمد رضا﷫
حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے ما
پیشوائے اہلِ سنّت، سیّدی احمد رضا﷫
اختؔرِ عاصیِ کو نظّارہ ہو طیبہ کا نصیب
مرشدی، آقائے نعمت، سیدی احمد رضا﷫

...

یہ کیسی روح پرور میرے کانوں میں پکار آئی

مجدّدِ مأتہِ حاضرہ، امام احمد رضا خان بریلوی کے تجدیدی کارنامے کا منظوم[1]؎خاکہ

یہ کیسی روح پرور میرے کانوں میں پکار آئی
کہ باغِ اہلِ سنّت میں بہارِ خوشگوار آئی
مَلا دستِ نسیمِ رحمتِ کونین نے غازہ
نظر آتے ہیں رضویّت کے گُل بوٹے تر و تازہ
عجب جوشِ نمو، طوفانِ رنگ و نور برپا ہے
شبابِ عشقِ ماہِ طیبہ جامے سے ہویدا ہے
ہجومِ میکشاں ہے، والئے میخانہ بریلی کا
مئے طیبہ، رضا کا ہاتھ، پیمانہ بریلی کا
یہ میخانہ اُبلتا ہے کہ لطفِ حق کا فوّارہ
تعالیٰ اللہ کیسی جوش پر ہے قادری دھاوا
جدھر دیکھو سرور و کیف کے ساغر کھنکتے ہیں
مئے عشقِ حبیبِ حق کے پیمانے چھلکتے ہیں
کسی کے لب پہ مستی میں ہے یا اللہ کا نعرہ
کہیں ہر گھونٹ پر ہے یا رسول اللہﷺ کا نعرہ
اٹھاتا ہے کوئی یا غوث﷜ کہہ کر اپنا پیمانہ
رضا﷫ کا نام لے کر جھومتا ہے کوئی مستانہ
عجب پر کیف نقشہ ہے، عجب پُر نور منظر ہے
یہ لطفِ اعلیٰ حضرت﷫ کی بہارِ روح پرور ہے
مِرے مرشد کا دریائے کرم طغیانیوں پر ہے
زہے قسمت کہ میری طبع بھی جو لانیوں پر ہے
گُہر ہائے کرم سے اپنی جھولی میں بھی پُر کر لوں
سعادت کے دُرِ تاباں سے دامانِ تہی بھر لُوں
لِکھوں اِک نظم تازہ یعنی اپنے پیر و مرشد پر
میں ڈالوں روشنی کچھ سیرتِ پاک مجدّد پر
مگر میں بے بضاعت، بے ہنر، کج مج زباں شاعِر
کہاں وہ علم و حکمت کا سمندر اور کہاں شاعِر
میں اِک ذرّے سے کم وہ نیّرِ برجِ فضیلت ہیں
مجدّد دین و ملّت کے، امامِ اہلِ سنّت ہیں
محیطِ کائناتِ عقل و دانش ان کا خامہ ہے
سند عِلم لَدُنّی کی ہر علمی کارنامہ ہے
میں اِک بے علم، ہے جس کی نظر خود اپنی خامی پر
مگر ہے فخر مجھ کو اعلیٰ حضرت﷫ کی غلامی پر
اس اعزازِ غلامی نے بڑھایا حوصلہ میرا
میں نقشہ کھینچتا ہوں ان کے علمی کارناموں کا
ذرا دیکھیں؟ کہ کیا شانِ تجدّد، کیا فضیلت ہے
فلک پر مسندِ اَوجِ امام اہلِ سنّت ہے
سنبھالا جب امام احمد رضا﷫ نے کام افتاء کا
زمینِ ہند پر چھایا ہوا گہرا اندھیرا تھا
ادھر بکھرا ہوا تھا ملّتِ بیضاء کا شیرازہ
کُھلا تھا ایک جانب دین میں فتنوں کا دروازہ
ابوجہلی، بظاہر متقی بن کر زمانے میں
چراغِ سنّیت مصروف تھے مِل کر بُجھانے میں
قبائیں نیچی نیچی، لبمی لبمی داڑھیوں والے
تقدّس کے لبادوں میں لٹیرے، قلب کے کالے
جبینوں پر نشانِ سجدہ اور تسبیح ہاتھوں میں
یہ رہزن سب کے سب تھے دین پر حملے کی گھاتوں میں
بی عیّاری کلام حق کو سینوں سے لگائے تھے
یہ اپنی آستینوں میں مگر خنجر چھپائے تھے
موحّد کوئی ان میں، کوئی عالم بن کر آیا تھا
ہر اِک رہزن تقدّس کا سنہرا جال لایا تھا
نئی توحید تھی ان کی، نیا اسلام تھا ان کا
غرض اسلام میں فتنے اٹھانا کام تھا ان کا
کہیں دعوے نبّوت کے، کہیں حملے رسالت پر
کہیں کیچڑ اچھالا جا رہا تھا شانِ قدرت پر
کوئی گستاخ، اندھا، کور باطن صاف لکھتا ہے
’’دخولِ کذب تحتِ قدرتِ باری تعا لیٰ ہے‘‘
کسی نے نصِّ قطعی میں بھی یوں تحریف کر ڈالی
نرالی آیۂ[2]؎ مَاکَان کی تعریف کر ڈالی
اگر بالفرض ہو بعدِ محمّدﷺ نبی پیدا
تو پھر بھی خاتمیت میں نہ اصلا فرق آئے گا
مریدوں سے درود اپنا کسی نے خود پڑھا ڈالا
کہیں علمِ نبی، علمِ بہائم سے مِلا ڈالا
کسی نے علمِ شیطاں، علمِ آقاﷺ سے بڑھا ڈالا
کسی نے انبیاء کو اپنا بھائی تک بنا ڈالا
کہیں لکھا ’’نبی ہیں ذرّۂ ناچیز سے کمتر‘‘
کہیں پھونکوں سے حملے مشعلِ بزمِ رسالتﷺ پر
کہیں لکھا ’’نبی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا‘‘
’’محمدﷺ کے برابر ہوں کروڑوں آن میں پیدا‘‘
کہیں لکھا کہ آیا ہے حدیثِ مصطفیٰﷺ میں یوں
کہ ’’مَر کر ایک دن مٹی میں، میں بھی ملنے والا ہوں‘‘
کہیں انکار ہے تعظیمِ سرکارِ مدینہﷺ سے
محبّانِ شہِ دیں پر کہیں ہیں کفر کے فتوے
فقط نقشہ ہے معمولی سایہ ان کے عقائد کا
یہ تھے ورنہ مجّسم شرک اور بدعت کا پشتارہ
پئے تکمیل یہ لے کر بڑھے اپنے مقاصد کو
مسلمانوں میں پھیلانے لگے باطل عقائد کو
کچھ اب کے جبّہ و دستار سے کھانے لگا دھوکا
بظاہر دین کے پر چار سے کھانے لگا دھوکا
مِلا کر شربتِ توحید میں یہ سَمْ پلاتے تھے
اجل کی نیند ہر بیدارِ ایماں کو سلاتے تھے
ہزاروں دولتِ حسنِ عقیدت اپنی کھو بیٹھے
معاذ اللہ، ایماں تک سے اکثر ہاتھ دھو بیٹھے
جدھر دیکھو ادھر بو جہلیوں کا دور دورہ تھا
زمینِ ہند پر ہر سمت اِک کہرام برپا تھا
نہ تھا کوئی انہیں جرأت سے بڑھ کر ٹوکنے والا
نہ دینی لُوٹ پر تھا ہاتھ ان کا روکنے والا
زبانیں گنگ تھیں، طاری تھا سب پر عالَمِ سکتہ
غرض ہر ایک تھا باہم دگر حیرت سے منہ تکتا
یکایک ایک گوشے سے نبیﷺ کا شیر نَر نکلا
نرالی شان سے مردِ جری سینہ سِپر نکلا
سجا کر اسلحہ سرکارﷺ کے عشق و محبّت کا
عَلَم تھامے ہوئے میداں میں آیا شہ کی عظمت کا
یہ عبدالمصطفیٰ احمد رضا خاں اعلحٰضرت﷫ ہیں
مجدّد اس صدی کے، فخرِ دین و فخرِ مِلّت ہیں
نبیﷺ کے اس فدائی نے عدّو دیں کو للکارا
ہوا اِک اِک سے پنجہ آزما و معرکہ آرا
چلا پَیکر اَشِدَّاءُ عَلَے الْکُفّار کا بن کر
گِرا کوہِ غضب، بَرقِ بلا، قہرِ خدا بن کر
دکھایا کر کے بے پردہ ہر اِک مکّار کا چہرہ
رُخِ مکروہ پر تھا جن کے علم و فضل کا پہرہ
تقدّس کی نقابیں نوچ پھینکی ان کے چہروں سے
کیا آگاہ مسلم قوم کو ان کے فریبوں سے
قلم کی نوک کیا تھی؛ بُرّشِ سیفِ الہٰی تھی
مچی ہر سمت باطل کی صفوں میں اک تباہی تھی
اِدھر تنہا فدا کارِ نبیﷺ، دشمن ادھر سارے
لرزتے تھے بایں کثرت بھی لیکن خوف کے مارے
جدھر دیکھو ادھر تھا دشمنوں میں غلغلہ آیا
یہ کیسا آسماں ٹُوٹا، یہ کیسا زلزلہ آیا
ٹھہرتا کس طرح غولِ بیاباں شیر کے آگے
کہ رکھ کر پاؤں سَر پر، سب محاذِ علم سے بھاگے
بڑا احساں مسلمانوں پہ ہے یہ اعلحٰضرت﷫ کا
اُٹھایا بار اپنے دوش پر تجدیدِ ملّت کا
بہ تائید ِ الہٰی یوں رُخِ اھلِ فِتن موڑا
کہ ان میں سے کسی نے بھی نہ اَب تک لَوٹ کر دیکھا
نوشت و خواند میں شام و سحر بھی ایک کر ڈالے
لکھے دفتر کے دفتر اَن گِنت صفحات بھر ڈالے
دلائل دے کے باطل قول کی تردید فرمائی
خدا و مصطفیٰﷺ کے دین کی تجدید فرمائی
رضا﷫ کی ذات گویا حق تعا لےٰ کا کرم کہئے
یہ علمی کارنامہ ’’اَلْجِہَادُ بِالْقَلَمْ‘‘ کہئے
پھریرا اس قدر اونچا اڑا علمی فضیلت کا
خدا کے فضل سے پہنچا عجم سے تا عرب شہرہ
بلایا اپنے خادم کو نبیﷺ نے آستانے پر
نوازا اِس طرح اسلام کی عزت بچانے پر
غلامِ خاص کو بخشا شرف پہلے زیارت کا
کیا دربار سے تمغہ عطا اعلیٰ فضیلت کا
قدم چُومے عرب کے مفتیوں نے اس فضیلت پر
فِدا ہونے لگے پروانۂ شمعِ رسالتﷺ پر
نہ کیوں نازاں ہوں اختؔر اہلِ سنّت اپنی قسمت پر
رضؔا﷫ لوٹے مدینے سے مُجدّد کی سند لے کر

 

 [1]یہ نظم حضر ت اختر الحامدی نے راقم الحروف کی التماس کو شرفِ قبولیت بخشے ہوئے ’’ معارفِ رضا‘‘ کتاب کے لئے قلم برداشتہ لکھ کر ارسال فرمائی تھی۔ ’’معارفِ رضا‘‘ میں احقر نے امام احمد رضا خاں بریلوی﷫ کے تجدیدی کارنامے کو چار ضمیم جلدوں میں بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ نظم ’’ نعت محل‘‘ کے مرسلہ مسورے میں نہ تھی لیکن حسنِ اتفاق سے جناب اختر الحامدی کا مجموعہ کلام چونکہ اس ناچیز کے ہاتھوں ترتیب دیا جارہا ہے لہذا اس معرکتہ الآرا، نظم کو احقر نے ’’معارفِ رضا‘‘ کی زینت بنانے کے ساتھ ’’ نعت محل‘‘ میں مناسب جگہ دے کر شاملِ اشاعت کر دیا ہے ۱۲ اختؔر تشاہجانپوری

[2]مراد ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین آلایتہ (سورۃ الاحزاب)

...

امامِ اہلِ سنّت، افتخارِ اہلِ عرفاں ہیں

حضور سیّدی و مرشدی‘ آقائے نعمت‘ مرجع الانام‘ حضور حجتہ الاسلام‘ مولانا علّامہ مفتی الحاج شاہ محّمد حامد رضا خاں﷫ (فرزندِ اکبر اعلحٰضرت فاضلِ بریلوی قدس سرہ)

امامِ اہلِ سنّت، افتخارِ اہلِ عرفاں ہیں
خدا شاہد ہے عبد المصطفیٰ حامد رضا خاں ہیں
عجب علمی جلالت آپ کو اللہ نے دی ہے
فقیہِ دین و ملّت، نائبِ شاہِ رسولاں ہیں
ہیں دورِ حاضرہ میں آپ امام اعظم ثانی
تصدّق آپ پر اہلِ شریعت ‘ اہلِ ایماں ہیں
ولائے صاحبِ لولاک کی تبلیغ فرمائی
فنا فی العِشق ہیں، شیدائی محبوبِ رحمٰں ہیں
قلم تھا آپ کا گویا زبانِ خامۂ قدرت
مسلمانانِ عالم آپ کے، دل سے ثناخواں ہیں
حضورِ خواجۂ اجمیر﷫ کی ہے آپ پر شفقت
معاون آپ کے خود غوثِ اعظم شاہ جیلاں﷜ ہیں
برائے اہلسنّت زندگی کو وقف فرمایا
ہزاروں آپ کے خدّامِ دینِ حق پہ احساں ہیں
تِری صورت ہے آئینہ جمالِ قادریّت کا
تِرے جلوے میں انوارِ جمالِ شاہِ جیلاں﷜ ہیں
ہمارا مسلک و مذہب ولائے سرورِ دیںﷺ ہے
بحمداللہ ہم اختؔر پیرِ حامد رضا خاں ہیں

...

اِک بزرگِ پاک کی ہے منقبت کا اہتمام

منقبتِ محدّثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد﷫ بانی مظہرِ اسلام بریلی  و  لائل پور

اِک بزرگِ پاک کی ہے منقبت کا اہتمام
نِکھرا نِکھرا سا ہے اختؔر اور بھی حسنِ کلام
جُھک گیا اَوجِ تخیّل با ادب با احترام
عاشقِ نامِ نبیﷺ کا آگیا ہونٹوں پہ نام
اے امیرِ اہلِ سنّت، اے شریعت کے امام
السّلام اے سیّدی سردار احمد السّلام
اے فقیہِ اعظم و شیخ الحدیثِ بے مثال
واعظِ شیریں مقال و مفتئ عالی مقام
اے مکمل معنئ نورانئ اُمّ الکتاب
اے مُجَسَّم اِتِّباعِ سنّتِ خیر الانام
مرتبہ تیرا بھلا تحریر میں کیا آسکے
عجز سے ہے سر بسجدہ اسپِ عقّلِ تیز گام
سرحدِ تخیل سے ہے اس طرف منزل تِری
ہر حد ادراکِ شاعر سے تِرا اونچا مقام
ہے تِری اِک اِک ادا آئینۂ حُبِّ رسولﷺ
ہے ترا ہر ہر نفس دیوانۂ شاہِ انام
سر سے پا تک مظہرِ شان شہِ احمد رضا﷫
مرشدی حامد رضا کا یعنی آئینۂ تمام
آفتابِ نورِ فیض مفتئ اعظم ہے تُو
کیسے پاک و ہند میں روشن نہ ہوتا تیرا نام
آج پَھیلی ہیں تِری کرنیں زمینِ ہند تک
ہے بظاہر سرزمینِ پاک پر تیرا قیام
سومناتِ نجد توڑا تو نے لائل پُور میں
اللہ اللہ تیری ضربِ الَصَّلوٰۃُ وَالسَّلام
پنجۂ باطل مروڑا تو نے ہر شیطان کا
بدزباں، بیباک، گستاخوں کے منہ میں دی لگام
تو ہے سُنّی کے لئے پیمانۂ آبِ حیات
اور نجدی کے لئے سر تا پا تیغِ بے نیام
آج لائل پور گویا مظہرِ اسلام ہے
یا بالفاظِ دگر ہے مرکزِ ہر خاص و عام
خاص عشقِ مصطفیٰﷺ کی بھیک مِلتی ہے یہاں
فیض جاری ہے شہِ احمد رضا﷫ کا صبح و شام
اے شہیدِ عشق، اے جاں دادۂ نام حبیب
تو نے راہِ حق میں مِٹ کر حق کو دی عمرِ دوام
زندہ باد اے سیّدی سردار احمد زندہ باد
اے مجسّم حق، مجسّم سُنّیت پائندہ باد

...

اے شگفتہ شگفتہ گُلِ پنجتن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن

یہ چند اشعار برادرِ معظم حضرت مفتی شاہ محمد ریاض الحسن رضوی حامدی قادری جیلانی  جودھپوری کے اچانک سانحۂ ارتحال پر قلم برداشتہ تحریر ہوگئے

اے شگفتہ شگفتہ گُلِ پنجتن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
اے نسیمِ ریاضِ حسین و حسن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
عالمِ نکتہ رس، ماہرِ علم و فن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
تجھ سا لائیں کہاں سے اب اہلِ وطم، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
 مسندِ اقتدارِ شریعت پہ تو، رفعتِ آسمانِ فضیلت پہ تُو
گو کہ خاکِ لحد پر ہے تیرا بدن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
رخصتی آپ کی الاماں الاماں، ہر براتی کی آنکھوں میں سیلِ رواں
جیسے میکے سے سُسرال جائے دلہن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
یہ محمد[1]؎ علی ہیں، یہ مفتی[2]؎ خلیل، سب کے سب زینتِ بزمِ میلاد ہیں
آج تم کیوں نہیں رونقِ انجمن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
نغمۂ جانفزا نَمْ کَنَوْمِ الْعُرُوْس، سُن کے آسودہ ہیں آپ تو چین سے
اور ہم ہیں یہاں وقفِ رنج و محن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
مسندِ اَوج تم نے کہاں پائی ہے؟ کس مبارک[3]؎ مہینے میں موت آئی ہے
دُھل کے زمزم[4]؎ سے آیا تمہارا کفن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
آشنا ہم ہیں تیری تفاسیر سے، دِل مُنورّ ہیں تیری تقاریر سے
تیری آواز کانوں میں ہے نغمہ زن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن
دامنِ اختؔرِ بے نوا بھر دیا، آپ نے کامِل علم دفن کر دیا
آپ پر دائما رحمتِ ذوالمنن، مولوی شاہ مفتی ریاض الحسن

 

 حضرت مولانا محمد علی رضوی، ممبر قومی اسمبلی ۱۲[1]

 حضرت مفتی محمد خلیل خاں صاحب مدظلہ، دار العلوم احسن البرکات ۱۲[2]

[3] برادرِ گرامی ﷫ کا وصال ۲۷ رمضان المبارک کا روزہ افطار فرمانے کے بعد اٹھارہویں تراویح پڑھ کر ہوا ۱۲

[4]کئ جگہ سے کفن آئے جو زمزم شریف سے دُھلے ہوئے تھے مگر الحاج مولانا سید محمد علی صاحب رضوی(ممبر قومی اسلمبلی) کے مدینہ طیبہ سے لائے ہوئے اور آبِ زمزم سے ڈوبے ہوئے کفن سے ملبوس کر کے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا گیا ۱۲ اخترالحامدی

...

قلب و نظر کا اجیالا ہے نعت محل

قطعاتِ تاریخِ طباعت

نتیجۂ افکار، عزیز الشعراء جناب  عزیؔز حاصِل پوری ملتان

قلب و نظر کا اجیالا ہے نعت محل
چشمِ ضیؔا ہے، فیضِ رضؔا﷫ ہے نعت محل
اختؔر حامدی و رضوی کا مجموعہ
شرِ سخن کی شان بنا ہے نعت محل
اختؔر شاہجہان پوری نے چھپوایا
اختؔر اختریوں لگتا ہے نعت محل
نقش و نگار مِری آنکھوں میں پھرتے ہیں
میں نے تصؤر میں دیکھا ہے نعت محل
ان آنکھوں پہ کم ہے جتنا رشک کرو
جن آنکھوں نے دیکھ لیا نعت محل
مِلتی رہے گی اس سے ٹھنڈک آنکھوں کو
دل کے لئے تسکین فزا ہے نعت محل
برجستہ تاریخِ طباعت کہہ دو عزیؔز
دیکھو اب تعمیر ہوا ہے نعت محل
۱۳۹۳ھ

(نوٹ) گزشتہ برس ’’نعت محل‘‘ کو مرتب تو کر لیا گیا تھا لیکن طباعت نہ ہوسکی  لہذا مذکورہ قطعۂ سنِ ترتیب سمجھا جائے۱۲ اختؔر شاہجانپوری

...

نسخۂ مستطابِ نعت محل

از حضرت سیّد شریف احمد شرافت قادری نوشاہی مدظلہ سجادہ نشین ساہن پال شریف ضلع گجرات

نسخۂ مستطابِ نعت محل
ہست مرغوب و دلکش و خوشتر
اختؔرِ حامدی مصنّفِ او
عاشقِ ذاتِ پاکِ پیغمبرﷺ
نعت گوئی فنِ کمالش ہست
ازضیائے نبیﷺ شدہ انور
چُوں شرافت سنِ طباعت جُست
گفت ہاتف، صحیفۂ اختؔر
۱۳۹۴ھ

...