زندگی جب جنوں میں ڈھلتی ہے
انتہائے محبت
زندگی جب جنوں میں ڈھلتی ہے
میرے ہی مشوروں پر چلتی ہے
تلخ کا مان غم کی محفل میں
سَمْ کے بدلے شراب چلتی ہے
شمعِ تابانِ بزمِ حسن و جمال
دل جلوں کے لہو سے جلتی ہے
منزلِ دار پر جنوں پہنچا
عقل حسرت سے ہاتھ ملتی ہے
دونوں عالم کے دل دھڑکتے ہیں
جب نظر زاویہ بدلتی ہے
زندگی برق و رعد ہی تو نہیں
برف کی طرح بھی پگلتی ہے
کھیل سمجھو نہ تم اسے حاؔفظ
شاعری خونِ دل سے پلتی ہے
(ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی نومبر ۱۹۷۶ء)