زائرو پاس ادب رکھو ہوس جانے دو
زائرو! پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو آنکھیں اندھی ہوئی ہیں اُن کو ترس جانے دو سوکھی جاتی ہے امیدِ غربا کی کھیتیبوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں نغمۂ ’’قُم‘‘ کا ذرا کانوں میں رس جانے دو ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھہرو گھٹریاں توشۂ امّید کی کس جانے دو دیدِ گل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پرہم صفیرو! ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو آتشِ دل بھی تو بھڑکاؤ ادب واں نالوکون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس ...