منظومات  

کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے

کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہےہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے مانگ من مانتی منھ مانگی مرادیں لے گا نہ یہاں ’’نا‘‘ ہے نہ منگتا سے یہ کہنا ’’کیا ہے‘‘ پند کڑوی لگے ناصح سے ترش ہواے نفس زہرِ عصیاں میں ستمگر تجھے میٹھا کیا ہے ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرےاس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجایوں نہ فرما کہ تِرا رحم میں دعویٰ کیا ہے صدقہ پیا...

سرور کہوں کہ مالک ومولیٰ کہوں تجھے

سَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے باغِ خلیل کا گُلِ زیبا کہوں تجھے حرماں نصیب ہوں تجھے امّید گہ کہوں جانِ مراد و کانِ تمنّا کہوں تجھے گلزارِ قُدس کا گُلِ رنگیں ادا کہوں درمانِ دردِ بلبلِ شیدا کہوں تجھے صبحِ وطن پہ شامِ غریباں کو دوں شرف بے کس نواز گیسوؤں والا کہوں تجھے اللہ رے تیرے جسمِ منوّر کی تابشیں اے جانِ جاں میں جانِ تجلّا کہوں تجھے بے داغ لالہ یا قمرِ بے کلف کہوں بے خار گلبنِ چمن آرا کہوں تجھے مجرم ہوں اپنے عفو کا ساماں کروں شہا ی...

مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے

مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے عرش سا فرشِ زمیں ہے فرشِ پا عرشِ بریں کیا نرالی طرز کی نامِ خُدا رفتار ہے چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدے کریں بَارَکَ اللہ مرجعِ عالَم یہی سرکار ہے جن کو سوئے آسماں پھیلا کے جل تھل بھر دیےصدقہ اُن ہاتھوں کا پیارے ہم کو بھی درکار ہے لب زلالِ چشمۂ کُن میں گندھے وقتِ خمیر مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے گورے گورے پاؤں چمکا دو خدا کے واسطے نور کا تڑکا ہو پیارے گور ...

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے بزم ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو ساری بہارِ ہشت خُلد چھوٹا سا عطردان ہے عرش پہ جاکے مرغِ عقل تھک کے گراغش آ گیااور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دھام کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے اِک تِرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہوجان ہیں وہ...

اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے

اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب سے اُن کے خدا بچائے جلالِ باری عتاب میں ہے جلی جلی بو سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عشقِ چشمِ والا کبابِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے اُنھیں کی بو مایۂ سمن ہے اُنھیں کا جلوہ چمن چمن ہے اُنھیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنھیں کی رنگت گلاب میں ہے تِری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی...

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے نہ ہو مایوس آتی ہے صدا گورِ غریباں سے نبی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لےاندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آ گئی سر پرکہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے اندھیرا گھر اکیلی جان دم گھٹتا دل اُکتاتا خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے زمیں تپتی کٹیلی راہ بھاری بوجھ گھائل پ...

گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے

گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے اسے بو کر تِرے رب نے بنا رحمت کی ڈالی ہے تمھاری شرم سے شانِ جلالِ حق ٹپکتی ہے خمِ گردن ہلالِ آسمانِ ذوالجلالی ہے زہے خود گم جو گم ہونے پہ ڈھونڈے کہ کیا پایا ارے جب تک کہ پانا ہے جبھی تک ہاتھ خالی ہے میں اک محتاجِ بے وقعت گدا تیرے سگِ در کا تِری سرکار و...

سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے آنکھ سے کاجل صاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں تیری گھٹری تاکی ہے اور تونے نیند نکالی ہے یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گاہائے مسافر دم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا زہر ہے اٹھ پیارے تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جمائی انگڑائی نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے جگنو چمک...

نبی سرور ہر رسول و ولی ہے

نبی سَروَرِ ہر رسول و ولی ہے نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِیْ ہے وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا رؤف و رحیم و علیم و علی ہے ہے بے تاب جس کے لیے عرشِ اعظم وہ اس رہروِ لا مکاں کی گلی ہے نکیریں کرتے ہیں تعظیم میری فدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبِیْ اَغِثْنِیْ اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے صبا ہے مجھے صرصرِ دشتِ طیبہ اِسی سے کلی میرے دل کی کھلی ہے تِرے چاروں ہمدم ہیں یک...

نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے

نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے نہ لطفِ اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیبِ لَنْ تَراَنِیْ ہے نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زندگانی ہے اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے ہر اِک دیوار و در پر مہر نے کی ہے جبیں سائی نگارِ مسجدِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی زبانِ بے زبانی ترجمانِ خستہ جانی ہے کھلے کیا رازِ محبوب و م...