شہزادیٔ رسول حضرت سیدہ فاطمہ
شہزادیٔ رسول حضرت سیدہ فاطمہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چوتھی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاہیں ۔
ولادت با سعادت:
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکی پیدائش ، ولادت نبوی علیہ السلام کے اکتالیسویں سال ہوئی ۔ اہل سیر کہتے ہیں کہ یہ قول ابو بکر رازی کا ہے۔ ابن اسحق کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تمام اولاد اظہارِ نبوت سے پہلے پیدا ہوئی ہے بجز حضرت ابراہیم آپ کے صاحبزادے کے جو مدینہ المنورہ میں پیدا ہوئے۔اس لیئے اس قول کے بموجب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت اظہار نبوت سے پانچ سال قبل ہے مشہور تر روایت یہی ہے جبکہ ابن اسحاق کے دوسرے قول کے مطابق سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ (طبرانی کبیر ۲۲:۳۹۷)
اتفاق اسی پر ہے کہ سیدہ کی ولادت مبارک نبوت کے پہلے سال ہوئی اور سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر مبارک اس وقت اکتالیس سال تھی۔
(المستدرک ۳:۱۶۱، مدارج النبوۃ /دوم:۷۸۷، اتحاف السائل بما لفاطمہ من المناقب و الفضائل : ۱۶،
امام محمد عبد الرؤف بن علی بن زین العابدین مناوی علیہ الرحمہ ۱۰۳۱ھ(
سیدہ کے نام کی شان:
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کا نام ’’فاطمہ ‘‘ اس بنا پر رکھا کہ حق تعالیٰ نے ان کو اور ان کے محبین کو آتش دوزخ سے محفوظ رکھا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
انما سمیّت ابنتی فاطمۃ لانّ اللّٰہ تعالٰی فطمھا و محبیھا عن النّار
تحقیق میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے علیحدہ کر دیا ہے۔(رواہ الدیلمی و ابن عساکر، الصواعق محرقہ صفحہ ۱۵۳)
معلوم ہوا کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کے نام مبارک کی ہی تعظیم و تکریم اور محبت، ایمان والوں کو جنت کی بشارت اور نجاتِ دوزخ سے پیش گوئی ہے۔
سیدہ کے القابات عظیمہ اور ان کے خصائل:
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے القابات تو بہت ہیں لیکن ایک مشہور لقب آپ کا ’’زہرا‘‘ ہے اور زہرا کے معنٰی ہیں کلی یعنی نہایت خوبصورت۔ سیدہ سب سے زیادہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت و صورت اور حسن وجمال سے مشابہ تھیں اس لیے آپ کو کلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آپ کا حسن و جمال ایساخوبصورت تھا کہ جیسے چودہویں رات کا چاند چمکتا ہے سیدہ اس طرح حسین و جمیل تھیں اور سیرت و صورت میں سیدہ ام المؤ منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
(ترجمہ) میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جو بیٹھنے اٹھنے چلنے پھرنے ، حسن و خلق اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زیادہ مشابہ ہو۔ (جامع الترمذی ، ۲:۷۰۶)
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ سیدہ ام المؤ منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :
مارایت احدکان اصدق لھجۃ من فاطمۃ الّا ان یّکون الذّی ولدھا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔
) ترجمہ): کہ میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑھ کر کسی کوفصیح نہیں دیکھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں۔ (المستدرک۳:۱۶۰، ذخائر العقبیٰ، ص ۴۴، الاستیعاب ۲:۷۷۲)
معلوم ہوا کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کا بچپن شریف اور زندگی کا ہر لمحہ حضور سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش مبارک میں گذرا۔ ظاہر ہے کہ ایسی شہزادی کے اعمال و افعال حسن و سیرت ، فصاحت و بلاغت اخلاق و عادات، طہارت و عصمت ،سر مبار ک سے لے کر پائوں تک ہم شکل مصطفی تھیں آپ کی چال ڈھال ہر وضع قطع مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مشابہ تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی جیتی جاگتی تصویر بنائی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا |
سیدہ کے القابات میں طاہرہ، زاکیہ اور طیبہ بھی ہیں جس کے معنی ہیں ہر قسم کی آپ کو ظاہر و باطن کی پاکیزگی حاصل تھی حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
ان فاطمۃ احصنت فرجھا فحرم اللّٰہ ذریتہا علی النّار۔(المستدرک ، ۳:۱۵۲)
(ترجمہ) بے شک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پاکدامن ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولادپر جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔
دوسری حدیث میں حضرت اسماء بنت عمیس زوجہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا امام حسن ص کی ولادت شریفہ کے وقت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی اور میں نے دایہ کے فرائض انجام دیے میں نے کوئی خون وغیرہ جو بوقت ولادت ہوتا ہے نہ دیکھا یہ جب حضور اکرم ا سے بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
اما علمت انّ فاطمۃ طاہرۃ مّطھّرۃ لا یریٰ لہا دماً فی طلعت
(ترجمہ) کیا تم نہیں جانتی ہو کہ فاطمہ میری طاہرہ مطہرہ ہے اس کے حیض میں بھی خون نہیں ہے۔(الشرف المؤبد :۴۴)
(فیض القدیر شرح جامع الصغیر جلد ۔۴:۵۵۵)
معلوم ہو اکہ سلطان دارین سرکار محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس مقدس شہزادی کو نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہے سلطنت اسلام کی یہ طیبہ طاہرہ حیض و نفاس ، رجس و نجس سے مبرا سیدہ زہرہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
سیدہ زاہرہ، طیبہ، طاہرہ |
’’عابدہ اور زاہدہ‘‘بھی سیدہ کے مشہور لقب ہیں جس کے معنی ہیں زہد و عبادت سے زندگی گزارنے والی اور ’’راضیہ مرضیہ‘‘بھی ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی پر رہا کرتی تھیں۔
سیدفاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابھی بچی تھیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے وہاں بہت سے کفار و قریش موجود تھے جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سجدہ میں گئے تو عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی اُوجھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک پر رکھ دی اور حضورا اسی طرح سجدہ میں تھے کہ سیدہ آئیں اور انہوں نے اپنے باپ کی پشت انور سے اُوجھ کو گرادیا اور عتبہ کیلئے بد دعا فرمائی۔(بخاری شریف اول :۷۴)
ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ کو خبر ہوئی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زخمی کر دیا گیا ہے اس خبر کا ملنا تھا کہ سیدہ جلدی سے پہنچیں اور دیکھا کہ آپ شدید زخمی ہیں اور زخموں سے خون مبارک بہہ رہا ہے۔ سیدہ نے باپ کے زخموں کو دھویا اور جب خون تھمتا نہیں تھا تو کھجور کی چٹائی کو جلا کر اس کی راکھ بنا کر زخموں پر رکھی جس سے خون بند ہوگیا۔(جامع الترمذی، ۲:۴۷۳)
اس بتول جگر پارۂ مصطفی |
سیدہ کا نکاح:
ہجرت کے دوسرے سال (جب عمر شریف ۱۳ یا ۱۴ برس تھی) حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ذریعے اکابر صحابہ سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق و عثمان ابن عفان و سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور دیگر اصحاب کو پیغام بھیجا آپ کے حکم پر سب جمع ہو گئے اور آپ نے ایک خطبہ پڑھا جس میں حمد و ثنا کے بعد ترغیب نکاح کا مضمون تھا پھر فرمایا:
ان اللّٰہ تعالٰی یا مرک ان تزوّج الفاطمۃ من علیّ
(نور الابصار : ۴۶)
مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کردوں۔ اور ان کا مہر چار مثقال مقرر کرتا ہوں اے علی کیا تجھے منظور ہے؟ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا ہاں میں بخوشی قبول کرتا ہوں تین بار آپ نے اس کا تکرار حاضرین کی موجودگی میں فرمایا اور یہ دعا فرمائی
بارک اللّٰہ علیکما واخراج منکما ولدا کثیرا طیبا
(ترجمہ)برکت دے تجھ کو اللہ تعالیٰ اور تم کو نیک و پاک اولاد عطا فرمائے۔(زرقانی علی المواھب ۲:۳۶۰)
آپ نے جب تمام اجتماع میں عقد فرمادیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا علی المرتضیٰ کے ہاں رخصت فرمادیا۔ عشا کی نماز کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ کے ہاں تشریف لائے تو آپ نے پانی پر دم کیا روایات میں ہے کہ آپ نے معوذ تین پڑھ کر اس پانی کو دونوں پر چھڑکا اور پھر فرمایا:
اللّٰہم انی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطٰن الرّجیم
(ترجمہ) یعنی اے اللہ! انہیں اور ان کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے
پھر یہ دعا فرمائی:
اللّٰہم انّھما منّی و انا منھما اللّٰہم کما اذھبت عنّی الرجس وطھّر تنی فطھّر ھما۔
(ترجمہ) اے اللہ! بے شک دونوں مجھ سے ہیں اور میں ان دونوں سے ہوں، اے اللہ! جیسے تو نے مجھ سے ہر ناپاکی دور کر دی ہے اور مجھے پاک کر دیا ہے ایسے ہی ان دونوں کو بھی پاک فرما دے۔(مجمع الزوائد ، ۹:۲۴)
پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رو پڑیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹی کیوں روتی ہو نہ رئوو میں نے تمہارا عقد اللہ تعالیٰ کے حکم سے علی المرتضیٰ سے کردیا ہے ۔(مدارج النبوۃ، جلد ۲:۱۳۰)
سیدہ کا جہیز مبارک:
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کی تو کوئی حد ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے ایک مرتبہ ایک منافق نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے کہا اگرتم میری بیٹی سے شادی کرتے تو میں تمہیں اتنا جہیز دیتا کہ اونٹوں کی قطاریں لگ جاتیں۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا یہ شادی نہ تقدیر سے اور نہ تدبیر سے ہوئی بلکہ امر الٰہی سے ہوئی ہے جو سب سے بڑا جہیز ہے اور دنیا کے مال و متاع پر تو میری نظر ہی نہیں جب آپ یہ جواب دے چکے تو غیب سے ندا آئی : اے علی! اوپر دیکھو۔ آپ نے اوپر دھیان فرمایاتو دیکھا کہ تمام آسمان پر اونٹوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں کہ ان پر بہشت کے انعام و اکرام کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا اے منافق! مجھے اللہ تعالیٰ نے فاطمہ کا وہ جہیز دکھایا ہے جو روئے زمین میں قیامت تک کسی نے نہ دیکھا ہے اور نہ دیکھ سکے گا۔(الحیات ، اول:۹۸)
پھر بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہیز عطا فرمایا اس میں دو جوڑے اور دو بازو بند نقرئی اور ایک چادر، ایک پیالہ، ایک چکی، دو گلاس، ایک مشک اور ایک کٹورہ پانی پینے کا دو رضائی جو کتان سے محلو تھیں چار گدے دو اون سے بھرے ہوئے اور دوکھجور کے پتوں سے بنے ہوئے تھے۔(طبقات ابن سعد ، ۸:۴۰۔۴۱)
سیدہ کی عبادت و ریاضت و تلاوت قرآن:
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا معمول تھا کہ آپ کھانا پکانے کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت جاری رکھتیں۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب نماز فجر کے واسطے تشریف لاتے تو راستہ میں سیدہ کے گھر سے گزرتے تو سیدہ کی چکی چلنے کی آواز سنتے تو نہایت درد محبت کے ساتھ فرماتے : اے الہٰ العالمین! میری فاطمہ کو ریاضت و قناعت کی جزائے خیر عطا فرما۔(الحیات ،اول:۹۹)
سیدنا امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں نے اپنی امی جان سیدہ خاتونِ جنت کو شام سے صبح تک عبادت و ریاضت اور خدا کے حضور گریہ زاری نہایت عاجزی سے دعا و التجا کرتے دیکھا میں نے دیکھا کہ اکثر اپنی دعائیں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا کرتیں۔(المستدرک، جلد سوم)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ علیہا السلام کے گھر پر گیا تو میں نے دیکھا کہ حسنین کریمین سو رہے ہیں اور سیدہ ان پر پنکھا کر رہی ہیں اور زبان مبارک سے قرآن کی تلاوت جاری ہے یہ دیکھ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی ۔ حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں دوپہر کے وقت جب شدید گرمی پڑ رہی تھی میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر حاضر ہوئی اور دروازہ بند تھا اور چکی کے چلنے کی آواز آرہی ہے میں نے جھانک کر دیکھا کہ سیدہ تو چکی کے پاس زمین پر سو رہی تھیں اور چکی خود بخود چل رہی تھی اور ساتھ ہی حسنین کریمین کا گہوارہ خود بخود ہل رہا تھا یہ دیکھ کر میں نہایت حیران و متعجب ہوئی اور اسی وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شدت کی گرمی میں فاطمہ روزہ سے ہے اللہ تعالیٰ نے فاطمہ پر نیند غالب کردی تاکہ اسے گرمی اور تنگی محسوس نہ ہو اور ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ فاطمہ بنت رسول کے کام کو سر انجام دیں۔ (شہادت نواسۂ سید الابرار، صفحہ ۱۲۶)
ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سیدنا مولائے کائنات علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ پانی بھرتے بھرتے میرے سینے میں درد ہوگیا ہے اور اے سیدہ آپ کے ابا جان سرکار محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس غلاموں کی کمی نہیں ان کو فرما کر کوئی خادمہ ہی لے لو سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے ہاتھوں میں بھی آٹا پیس کر چکی چلانے سے چھالے پڑ گئے ہیں اور تمام گھر کا کام بھی کرنا پڑتا ہے چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے ابا جان سرکار محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اتفاقاً اس وقت آپ گھر میں موجود نہ تھے سیدہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آنے کی غرض سیدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین سے بیان فرمائی کہ مجھے کوئی کام کاج کیلئے خادمہ دی جائے۔ یہ فرما کر سیدہ واپس آگئیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب معلوم ہوا کہ میری شہزدی آئی تھیں لیکن میں نہیں مل سکا وجہ معلوم ہوئی کہ آپ پیغام مذکورہ دے کر چلی گئیں ہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسی وقت اپنی لختِ جگر کے گھر تشریف لائے اور فرمایا اے پیاری بیٹی تم خادمہ کیلئے آئی تھیں، کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتادوں جس سے تم تمام گھر کے کام کاج کرتی رہو ار ذرا بھی تھکاوٹ محسوس نہ ہو اور یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہوگا۔ عرض کیا ہاں ابا جان سرکار آقا سید الابرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو تم نے مانگا ہے یعنی خادمہ سے بہتر تمہارے لیے یہ ہے کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو ۳۳ بار سبحان اللہ اور ۳۳ بار الحمد اللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو پس یہ تمہارے لیے بہترین ہے اور تمہیں کبھی تھکاوٹ نہ ہوگی۔(بخاری، اول :۵۲۵۔۵۲۶)
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور غیبی رزق:
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو سیدہ کو تین روز کے فاقہ سے دیکھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
اللّٰہم انزل رزقاً علی محمد و اھل بیتہٖ کما انزلت علی مریم بنت عمران
اے اللہ! تو روزق نازل فرما محمد ا اور اس کی اہلبیت پر جیسے تو نے نازل کیا رزق مریم بنت عمران پر۔(الحیات، اول :۱۰۱)
اس کے بعد فرمایا: بیٹی! اندر جاؤ اور جو کچھ ہو وہ لے لو آپ جب اندر گئیں تو وہاں پر ایک طباق جو جواہرات سے بھر اتھا اور ثرید بھرا ہوا تھا اور بھنا ہوا گوشت جو اس پر رکھا ہوا تھا اور خوشبو آرہی تھی۔ سیدہ نے وہ طباق اٹھا یا اور ابا جان کے پاس لے آئیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹی کھاؤ اللہ کا نام لے کر کھاؤپھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور سیدنا علی المرتضیٰ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین شہزادگان عظیمین نے تناول فرمایا۔
سیدہ رضی اللہ عنہا کا غریبوں کی استعانت فرمانا:
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک نیا قمیص دیا تھا کچھ عرصہ کے بعد ایک سائل نے سیدہ کے دروازے پر آکر دروازہ کھٹکایا اور کہا اے نبی کے گھر والو! میں محتاج ہوں مجھے کوئی پھٹا پرانا کپڑا عنایت کردو ۔ سیدہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پرانا قمیص تھا جس کو دینے کا خیال آیا تو فوراً فرمایا: لَنْ تَنَا لُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ جس کے معنی ہیں کہ تم ہر گز فلاحیت کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم وہ چیز نہ دو جس کے ساتھ تم کو محبت ہے تو سیدہ رضی اللہ عنہا نے فوراً وہ نیا قمیص جو جہیز میں ملا تھا وہ سائل کو دے دیا۔(نزھۃ المجالس:۲:۱۷۰)
ایک مرتبہ ایک وقت کے بعد سب کو کھانا میسر ہوا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ اور سیدنا اما م حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کھانا کھا چکے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابھی کھانا نہ کھایا تھا اور دروازہ پر ایک سائل نے آکر کہا اے نبی کی شہزادی میں دو وقت کا بھوکا ہوں اگر کچھ کھانے کیلئے ہے تو مجھے عنایت کر دو سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے حسن جاؤ اور میرا کھانا اس سائل کو دے دو عرض کیا امی جان آپ کیا کھائیں گی؟ فرمایا بیٹا میں نے تو ایک وقت کا کھانا نہیں کھایا اور سائل نے دو وقت کا نہیں کھایا میں اپنا گذر تو کرلوں گی اس سائل کو دو جو دو وقت کا بھوکا ہے۔(سیرت فاطمہ:۴۵)
سیدہ رضی اللہ عنہا اور پردہ:
حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا عورت کے کیلئے کو نسی چیز بہتر ہے؟ سب خاموش ہوگئے اور سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں فوراً گھر آیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ آج حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ سوال کیا ہے بتائو کیا جواب دوں؟ کہ عورتوں کیلئے بہتر چیز کیا ہے؟ سیدہ نے فرمایا:
قالت لا یراھنّ الرّجال ولا یرو نہنّ فذکرت النّبی ا فقال فاطمۃ بضعۃ منّی
"عورتیں مردوں کو نہیں دیکھیں اور نہ مرد غیر عورتوں کودیکھیں"۔
(دار قطنی، جامع المسانید و السنن :۱۹:۲۳۱)(مجمع الزوائد :۴:۲۵۵)
فرماتے ہیں میں نے یہ جواب جاکر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش کیا تو آپ نے فرمایا "فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے"۔ حضرت ام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے فرمایا !اے اسماء آج کل جس طرح عورتوں کا جنازہ لے کر جاتے ہیں مجھے یہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ جسم پر ایک چادر ڈال دیتے ہیں جس سے پوری طرح پردہ نہیں ہوتا بلکہ جسامت وغیرہ نظر آتی رہتی ہے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اے بنت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! میں نے حبشہ کے لوگوں میں ایک طریقہ دیکھا ہے وہ آپ کو دکھاتی ہوں خیال ہے کہ وہ آپ کو ضرور پسند آجائے گا، پھر آپ نے تازہ کھجوروں کی شاخیں منگوائیں اور ان کو چار پائی پر کمان کی طرح لگا کر باندھا اور کپڑا ڈال دیا سیدہ نے دیکھ کر فرمایا یہ تو بہت ہی اعلیٰ شاندار طریقہ ہے اس طرح مردو عورت کے جنازہ کی پہچان بھی ہو جاتی ہے۔ جب میں انتقال کر جائوں تو میرا بھی اسی طرح جنازہ بنانا اور تم اور علی المرتضیٰ دونوں مجھے غسل دینا اور کسی کو شامل نہ کرنا۔(المستدرک : ۳:۱۶۲)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آپ کے کسی بچہ کو مانگا تو آپ نے پردہ کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر دیا حالانکہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاص طور پر خادم تھے اور عزیزوں کی طرح آپ کے پاس رہتے تھے پھر بھی سیدہ نے ان سے پردہ فرمایا اور سامنے نہ ہوئیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور سیدہ کے پاکیزہ عمل سے معلوم ہوا کہ غیر محرموں کے روبرو ہونا فتنہ کا موجب ہو سکتا ہے۔
اہل اسلام غور کریں کہ ہماری فلاحیت و آبرو کا تحفظ اسلامی پردہ میں ہے اور سیدہ کا عمل ہمارے لیے عملی نمونہ ہے۔
سیدہ النساء العالمین و سیدہ النساء اہل الجنۃ:
حضرت عمران ابن حصین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا بنتیۃ اما ترضیت انک سیدۃ نسآء العالمین قالت یا بت این مریم بنت عمران قال تلک سیدۃ نساء عالمہا وانت سیدۃ نساء عالمک اما واللّٰہ لقد زوجتک سید فی الدنیا والاٰخرۃ۔
(ترجمہ) اے بیٹی! کیا تو اس بات پر خوش نہیں ہے کہ تم سارے جہاں کی عورتوں کی سردار ہو سیدہ نے عرض کیا مریم بنت عمران بھی تو ہیں فرمایا وہ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں اور تم اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہو اور اللہ کی قسم تمہارے شوہر علی دنیا و آخرت میں سردار ہیں۔(ذخائر العقبیٰ:۴۳)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم افضل نساء اہل الجنۃ خدیجۃ بنت خویلد و فاطمۃ بنت محمد و مریم بنت عمران و اٰسیہ بنت مزاحم امراۃ فرعون۔
(ترجمہ) فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل عورتیں خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد اور مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں۔(المستدرک : ۲:۵۹۴)
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے کہا کہ مجھ کو اجازت دیں کہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پا س جاکر آپ کیلئے بخشش کی دعاکرائوں والدہ محترمہ نے اجازت دے دی اور پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا مغرب کی نماز آپ کے ساتھ ادا کی پھر نوافل پڑھے اس کے بعد عشاء کی نماز ادا کی جب آپ نماز عشا ء کے بعدفارغ ہو کر چلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا آپ نے میرے قدموں کی آواز سن کر فرمایا کہ تم میرے پیچھے آنے والے حذیفہ تو نہیں ہو میں نے عرض کیا ہاں ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حاجتک غفر اللّٰہ لک ولامّک انّ ہذا ملک لم ینزل الارض قط قبل ھٰذہٖ اللَّیلۃ استاذن ربّہ ان یسلّم علیّ و یبشرنی بانّ فاطمۃ سیدۃ نساء اہل الجنۃ و ان الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ۔(الصواعق المحرقہ :۱۹۱)
(ترجمہ) تجھے کیا حاجت ہے ؟ اللہ تعالیٰ تجھے اور تیری ماں کو بخشے یہ ایک فرشتہ ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا اس فرشتے نے اللہ سے میرے پاس آکر سلام کرنے کی اجازت چاہی اور یہ مجھے بشارت دے رہا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور سیدنا حسن و حسین علیہما الرضوان جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
دوسری حدیث سیدہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰعنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا تھا :
الا ترضین ان تکونی سیدۃ نسآء اھل الجنۃ او نسآء العالمین۔
(ترجمہ) کیا تو میری بیٹی اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تو سارے جہاں اور جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔
(بخاری،۱:۵۳۲، مسلم جلد دوم:۲۹۰)
ایک اور حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ تمام جہاں کی عورتوں میں بہتر چار عورتیں ہیں ۔ حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا اور حضرت آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا اور حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابنت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ ایک حدیث حضرت انس بن مالک ص سے ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
خیر النّساء امتی فاطمۃ بنت محمد ۔
میری امت کی عورتوں میں بہتر میری بیٹی فاطمہ ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میں سے کون افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ سیدہ فاطمہ کو جو مقام مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے حاصل اور نسبت ہے اس لیے سیدہ جگر گوشۂ رسول ا پر کسی اور کو فضیلت نہیں مل سکتی۔ (ترمذی دوم : ۶۹۸)
امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا ہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں خود سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس بات کا اقرار و اعتراف کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ زہرا کی افضلیت کے اکمل ہونے میں کچھ شک نہیں۔(فیض القدیر شرح جامع الصغیر، جلد ۴:۵۵۵)
یہ ایک ایسا اعلیٰ و ارفع شرف و کمال ہے جو کسی بھی دوسری شخصیت کو حاصل نہیں ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سیدۃالزہرہ اولین و آخرین کی تمام عورتوں سے افضل ہیں۔
شرف فضیلت :
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سیدہ خاتون جنت فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا :
بیٹی! جس کو ساری کائنات " نبینا خیر الانبیاء" کہتی ہے۔
ھو ابوک و شھیدنا خیر الشھداء و ھو عم ابیک حمزۃ و منا من لہ جناحان یطیر بھما فی الجنۃ حیث شاء و ھو ابن عم ابیک جعفر و منا سبط ھذہ الامۃ الحسن و الحسین و ھما ابناک و منا المھدی
(ترجمہ) خیر الانبیاء تمہارا باپ ہے اور ہمارا شہید تمام شہیدوں سے بہتر ہے وہ تمہارے باپ کے چچا حمزہ ہیں، اور ہم میں سے ایک وہ ہیں جن کے دو پر ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں پرواز کرتے ہیں اور وہ تمہارے باپ کے چچا کے بیٹے جعفر ہیں، اور ہم میں اس امت کے کریم و فیاض حسن و حسین ہیں اور وہ دونوں تمہارے بیٹے ہیں اور ہم ہی میں مہدی بھی ہیں۔
(ذخائر العقبیٰ:۴۴، مؤلف حافظ محب الدین بن عبد اللہ طبری متوفی۶۹۴ھ)
مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیدہ سے والہانہ محبت:
حضرت جمیع بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھا:
ایّ الناس کان احب الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قالت فاطمۃ فقال من رجال قالت زوجہا۔
(ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب یعنی پیارا کون ہے تو سیدہ نے فرمایا حضرت فاطمہ الزہرہ پھر میں نے کہا مردوں میں سے کون پیارا ہے تو فرمایا ان کے شوہر علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ۔ (المستدرک ، ۳:۱۵۷)
دوسری روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
کان احب النسآء الیٰ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فاطمۃ ومن الرجال علی
(ترجمہ) کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عورتوں میں سے زیادہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کو محبوب رکھتے تھے۔ (رواہ الترمذی ، ۲:۷۰۶) (المستدرک ، ۳:۱۵۵)
ام المؤ منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ۔
کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا قدم من سفر قبل نحر فاطمۃ و قال منھا اشم رائحۃ الجنۃ اذا اشتقت لرائحۃ الجنۃ شممت رقبت فاطمۃ۔
(ترجمہ) کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب کسی سفر سے تشریف لاتے تھے تو فاطمہ کا گلا چومتے تھے اور فرماتے تھے میں اس سے جنت کی خوشبو سونگھتا ہوں۔ جب مجھے اشتیاق ہوتا ہے کہ میں جنت کی خوشبو سونگھوں تو فاطمہ کی گردن سے خوشبو آتی ہے۔
(المستدرک،۳:۱۵۲)
یہ ہے شان سیدہ النساء العالمین فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاجسے امام المحدثین شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے شرح مشکوٰۃ میں نقل کیا ہے۔ :
میں اور بیٹی فاطمہ تو اور تیرا شوہر علی اور حسنین کریمین جنت میں اس مقام اور اسی محل میں اکھٹے ہوں گے جہاں میرا مقام ہوگا۔(اشعۃ اللمعات، اردو، جلد۷:۴۹۲)
تعظیم سیدہ اور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
حضرت ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
اذا دخلت علی النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قام الیھا تقبلّہا و اجلسھا فی مجلسہٖ وکان النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم اذا ادخل علیہا قامت من مجلسہا فقبّلتہٗ و اجلستہٗ فی مجلسہا۔
(ترجمہ) جب بھی فاطمہ زہرا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور زہرا پر بوسہ دیتے تھے اور اپنے پاس بٹھا لیتے اور جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے گھر تشریف لاتے تو سیدہ زہرا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم کیلئے کھڑی ہو جاتی تھیں۔(المستدرک ، ۳:۱۶۰)
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ خود محبوب رب العالمین سرکار سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی شہزادی کی عزت افزائی کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کی عزت و تکریم کیلئے نبوت کھڑی ہو جائے گویا کائنات اس کی تعظیم کیلئے کھڑی ہوگئی پھر ایسی عظیم سیدہ کی عظمت و مقام و احترام و عزت کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے۔
سیدہ کی خوشی و ناراضگی اللہ تعالیٰ کی خوشی و ناراضگی:
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ بے شک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:
فاطمۃ بضعۃ منی فمن اغضبہا اغضبنی و فی روایۃٍ یرینی ما اراھا و یو ذینی ما اذا ھا۔
فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا اور اضطراب میں ڈالے گی مجھے وہ چیز جو اس کو اضطراب میں ڈالے اور دوسری روایت میں ہے کہ مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اس کو تکلیف دے۔(بخاری ، ۱:۵۳۲)
دوسری حدیث میں حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
انّ اللّٰہ یغضب بغضب فاطمۃ و یر ضیٰ برضاء ھا۔
(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ فاطمہ کے غضبناک ہونے پر غضبناک ہوجاتا ہے اور اس کے راضی ہونے پر راضی ہوجاتا ہے۔
(رواہ الطبرانی فی الاوسط بسند صحیح ۱:۱۰۸و فی الکبیر شرح زرقانی ، ۴:۳۳۱و المستدرک ، ۳؍۱۵۴)
الفتِ سیدہ منافع امّت:
حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اے سلمان یاد رکھو:
من احب فاطمۃ بنتی فہو فی الجنۃ معی و من ابغضہا فھو فی النار یا سلمان حبّ فاطمۃ ینفع فی مائۃٍ من المواطن ایسر ذالک الموت و القبر والمیزان و الصراط والمحاسبۃ فمن رضیت عنہ بنتی فاطمۃ رضیت عنہ من رضیت عنہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ومن غضبت بنتی فاطمۃ علیہ غضبت ومن غضبت علیہ غضب اللّٰہ علیہ یا سلمان ویل لّمن یظلمہا و یظلم بعلہا علیا و ویل لّمن یظلم ذرّیتہا۔
(ترجمہ) جو کوئی میری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھے وہ بہشت میں میرے ساتھ ہوگا اور جو کوئی اس کے ساتھ دشمنی کرے وہ جہنم میں جائے گا اے سلمان میری بیٹی فاطمہ کی الفت سو جگہ نفع پہنچاتی ہے کہ ان جگہوں میں زیادہ سہل مقامات موت اور قبر اور میزان اور صراط اور حساب قیامت ہیں ۔ جس شخص سے میری بیٹی فاطمہ خوش ہوگی میں اس سے خوش ہوں گا اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے خوش ہوگا اور جس کسی سے میری بیٹی فاطمہ ناراض ہے میں بھی اس سے ناراض ہوں جس سے میں ناراض ہوں اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض اور غضبناک ہے اے سلمان! اوراس شخص پر جو اس پر ظلم کرے اور اس کے شوہر علی المرتضیٰ پر ظلم کرے اور اس پر، جو ان کی اولاد پر ظلم کرے ان کے لیے ویل ہے ہلاکت ہی ہلاکت۔(شہادت نواسۂ سید الابرار ص ۱۷۱)
قیامت کے دن ندا ہوگی اہل محشر اپنی نگاہوں کو جھکا لو
فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ستر ہزار حوروں کے ساتھ گذر:
حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ روزِ قیامت ایک ندا ہوگی:
اذا کان یوم القیامۃ نادٰی منا دیا من وّراء الحجاب یا اھل الجمع غضوا ابصارکم و نکّسوا رؤسکم حتی تمّر فاطمۃ بنت محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فتمر و معہا سبعون الف جاریۃ من حورالعین کمر البرق۔
(ترجمہ) قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا پردہ میں سے اے محشر والو! اپنی نگاہوں کو جھکا لو اور اپنے سروں کو جھکا لو یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ بنت محمد ا گذر جائیں چنانچہ سیدہ ستر ہزار حوروں کے ساتھ برق کی طرح گزر جائیں گی۔
(المستدرک ، ۳:۱۶۱)(اسد الغابہ،۱۰:۲۰۹)
وصال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورصدمہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا:
حضرت سیدہ ام المؤ منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو سیدہ فاطمہرضی اللہ عنہا تشریف لائیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا توفرمایا مرحبا میری بیٹی ،پیارو محبت سے اپنے پاس بٹھا کر آہستہ آہستہ ان سے کچھ باتیں کیں جن کو سن کر سیدہ زار وقطار رونے لگیں جب آپ نے ان کے غم اور دکھ کو دیکھا تو پھر اور ان سے آہستہ آہستہ باتیں کیں تو پھر وہ ہنسنے لگیں سیدہ ام المؤ منین فرماتی ہیں میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تم سے کیا گفتگو فرمائی؟ جس سے پہلے آپ روئیں اور بعد میں آپ ہنسیں ۔ سیدہ نے فرمایا : میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم انتقال کر گئے تو میں نے سیدہ کو قسم دے کر کہا کہ تم مجھے ضرور بتاؤ کہ تم پر سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیا ظاہر کیا تھا ؟ سیدہ نے فرمایا مجھے پہلی بار ابا جان نے فرمایا تھا میرے وصال کا وقت قریب آگیا ہے اور میں تم سے جدا ہونے والا ہوں بیٹی صبر کرنا ار خدا سے ڈرتے رہنا تو میں رو پڑی جب زیادہ غمگین ہو گئی تو آپ نے فرمایا بیٹی کیا تم کو خوشخبری نہ دوں جس سے تمہارا غم دور ہو جائے ؟ میں نے کہا ابا جان ہاں آپ نے فرمایا:
الا ترضین ان تکونی سیدۃ النساء اھل الجنۃ اونساء العالمین فضحکت لذلک۔
(ترجمہ) کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ تو سارے جہاں اور جنت کی عورتوں کی سردار ہے اور فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے تم ہی آکر ملو گی۔ یہ سن کرمیں خوش ہو گئی اور ہنسنے لگی۔
(بخاری، اول:۵۱۲)(مسلم، کتاب الفضائل الصحابۃ)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال شریف پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو صدمہ پہنچا وہ بیان سے باہر ہے خود شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال شریف کے بعد سیدہ فاطمہ اکثر روتی اور فرمایا کرتی تھیں ہائے ابا جان :
جنان الخلد ربہ یکرمہ ربہ یسلمہ
یعنی رب کو پیارے ہوگئے خلد کے باغات میں آرام پذیر ہوگئے ان کا رب ان کی تکریم اور ان پر سلام بھیج رہا ہے۔
قبر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حال:
جاء ت فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا فاخذت قبضۃ من تُراب القبر فی فوضعتہ علی عیناھا وبکت وانشدّت
(ترجمہ) پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبر اقدس پر آئیں اور ایک مٹھی خاک لے کر قبر اقدس سے اپنی آنکھوں پر رکھی اور بہت روئیں اور یہ کہا۔
ماذا علی من شم تربت احمد |
(ترجمہ) جس کو احمد ا کے مزار اقدس کی خوشبو دار مٹی ملے اس کو زمانہ بھر کی خوشبوئیں پسند نہیں آئیں گی آپ کے وصال کے بعد جو سخت مصیبتیں مجھ پر آئیں ہیں اگر وہ دنوں پر آجاتیں تو وہ راتیں ہو جاتے۔(مدارج النبوت،۲:۷۵۲)
جب سیدہ فاطمہ دوسری مرتبہ قبر اطہر پر حاضر ہوئیں تو یہ شعر پڑھے :
اذا اشتد شوقی زرت قبرک باکیا |
(ترجمہ)جب شوق ملاقات شدت کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو روتے ہوئے آپ کی قبر اقدس کی زیارت کو آجاتی ہوں اور شکوہ کرتی ہوں اور جب دیکھتی ہوں آپ جواب نہیں دیتے۔
فیا ساکن الصحراء علمتنی البکا |
(ترجمہ) اے قبر انور میں آرام فرمانے والے میری گریہ زاری دیکھ
ان تمام مصائب میں تیری یاد ہی میرا سکون قلب ہے
فان کنت عنی فی التراب مغیبا |
(ترجمہ) اگر آپ بظاہر مجھ سے خاک قبر میں غائب ہیں
مگر میرے قلب حزیں سے غائب نہیں ہیں۔
(سبل الھدی و الرشاد:۱۲:۲۹۰)
نفسی علی زفراقھا محبوسۃ |
(ترجمہ)میری جان درد و غم اور رنج و الم میں گھر گئی ہے
اے کاش یہ جان درد و غم کے ساتھ نکل جائے
لا خیر بعدک فی الحیوۃ و انھا |
(ترجمہ)آپ کے بعد جینے میں کوئی بہتری نہیں ہے اور میں نہیں روتی
مگر اس خوف سے کہ کہیں میری حیات طویل نہ ہو جائے
(مدارج النبوت، ۲:۷۵۴)
سیدہ کے گریۂ غم میں جہان کی شرکت:
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کی جدائی کے صدمہ میں آپ اس قدر غمگین تھیں کہ آپ کے رنج اور گریہ زاری سے دوسرے لوگ بھی بہت متاثر ہوئے چنانچہ ہند بنت اثاثہ نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال اقدس پر جو اشعار سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کر کے کہے وہ یہ ہیں۔
اشاب ذوابتی و اذل رکنی |
اے فاطمہ ! اس وصال پانے والے کے صدمہ میں تیرے گریہ نے
میرے بال سفید کردیے اور مجھ کو ضعیف کردیا
افاطم فاصبری فلقد اصابت |
اے فاطمہ صبر کروبے شک تمہارے غم نے دور کے لوگوں کو غمزدہ کر رکھا ہے
وھل البر والابحار طرا |
ان کے القاب شریف بتول، طاہرہ، مبارکہ، زاکیہ، راضیہ، مرضیہ ہیں، اِن کی ولادت سال بعثت میں ہوئی، رمضان ۲ھ میں اِن کا نکاح حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام سے ہَوا، [۱] [۱۔ مدارج النبوۃ جلد دوم ۱۲] چار سو (۴۰۰) مثقال چاندی مہر قرار پایا، اِن کے مناقِب کتب حدیث میں بکثرت مرقوم ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمۃ بضعۃ منّی یعنی فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے، اسی واسطے علمائے سلف رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ افضل ترین مخلوقات بعد الانبیاء حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا ہیں، [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلدِ اول ۱۲] اِن کے بطن سے تین (۳) صاحبزادے حسن، حسین، محسن، اور تین (۳) صاحبزادیاں زینب، امّ کلثوم، رقیّہ متولد ہوئے، جن میں سے محسن و رقیّہ بچپن میں وفات پا گئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات شبِ سِہ شنبہ سوم (۳) ماہِ رمضان ۱۱ ھ کو ہوئی، حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور رات کے وقت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں، [۱] [۱۔ مدارج النبوۃ جلدِ دوم ۱۲ شرافت] الملقب بتول بنتِ اصغر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، اِن کی حیاتِ طیّبہ میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا، اِن کے بطن سے تین لڑکے حسن، حسین، محسن اور تین لڑکیاں ام کلثوم کبرٰے، زینب کبرٰے، رقیّہ کبرٰے پیدا ہوئے، [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلدِ اوّل ص ۱۸۲] حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات شبِ سہ شنبہ سوم ماہِ رمضان ۱۱ھ کو ہوئی، جنّت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ (شریف التواریخ)
فاطمہ دختر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مریم کے بعد دنیا کی مقدس ترین خاتون ہیں،ان کی والدہ خدیجہ دخترِ خویلد تھیں،جناب فاطمہ اور ام کلثوم آپ کی اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں، لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضورِ اکرم کی اولاد میں سب سے چھوٹا کون تھا،ایک روایت میں ہے کہ جناب رقیہ سب سے چھوٹی تھیں،لیکن یہ غلط ہے،کیونکہ حضورِاکرم نے جناب رقیہ کو ابولہب کے ایک لڑکےسے بیاہاتھااور جس نے باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے دی تھی،پھر حضورِاکرم نے انہیں حضرت عثمان سے بیاہ دیاتھا،اور دونوں میا ں بیوی ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے،بنا بریں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی بڑی لڑکیوں کو چھوڑکر پہلے سب سے چھوٹی کو بیاہ دیں، جناب فاطمہ حضورِ اکرم کو اپنی تمام اولاد میں عزیزترین تھیں،غزوۂ احد کے بعد ان کی شادی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی،ایک روایت میں ہے،کہ حضرت علی سے خاتونِ جنت کا نکاح حضرت عائشہ کی رخصتی کے ساڑھے چار مہینے بعد ہواتھا،اور ان کی رخصتی حضورِ اکرم سے نکاح کے ساڑھے سات ماہ بعد ہوئی تھی،اور جناب فاطمہ کی شادی پندرہ سال اور پانچ ماہ کی عمر میں ہوئی تھی،اور سوائے خاتونِ جنت کے حضور اکرم کی ساری اولاد سے آپ کی نسل منقطع ہوگئی،کیونکہ لڑکے تو سارے ہی بچپن میں فوت ہوگئے تھے،لڑکیوں میں جناب رقیہ کا ایک بیٹا عبداللہ بن عثمان پیدا ہوا،جو بچپن میں فوت ہوگیا،ام کلثول لاولد رہیں،جناب زینب کے بطن سے ایک بیٹا عبداللہ بن عثمان پیداہوا،جو بچپن میں وفات پاگیا،ایک بیٹی امامہ پیدا ہوئی تھی،جس سے حضرت علی نے نکاح کیا تھا،ان کے بعد مغیرہ بن نوفل نے نکاح کیا،بقولِ زبیر ان کی نسل بھی ختم ہوگئی۔
ابواحمد بن عبدالوہاب بن علی الصوری نے ابوالفضل بن ناصر سے،انہوں نے خطیب بن ابوالصقر انباری سے،انہوں نے ابوالبرکات احمد بن نظیف سے،انہوں نے محمد بن زشیق سے،انہوں نے ابوبشر الدولابی سے،انہوں نے احمد بن یحییٰ صوفی سے،انہوں نے اسماعیل بن ابان سے،انہوں نے ابوحریم سے،انہوں نے ابو اسحاق سے،انہوں نے حارث سے،انہوں نے علی سے روایت کی کہ ابوبکراور رضی اللہ عنہم نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خاتون جنت کا رشتہ مانگا،حضورِ اکرم نے انکار کردیا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی سے کہا،علی یہ لڑکی تمہارے لیے ہے،انہوں نے کہا میرے پاس تو سوائے زرہ کے اور کچھ نہیں،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا،اسے رہن رکھ دو۔حضور نے ان سے جناب فاطمہ کا نکاح کردیا،خاتونِ جنت کو عِلم ہو ا تووہ رونے لگ گئیں،آپ کو علم ہوا،تو تشریف لائے،پوچھا،کیوں رورہی ہو،میں نے جس سے تمہارا نکاح کیا ہے،وہ علم میں سب سے زیادہ،حلم میں سب سے بہتراور اسلام قبول کرنے میں سب سے آگے ہے۔
دولابی نے احمد بن جبار سے،انہوں نے یونس بن بکیر سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے عبداللہ بن الونجیح سے،انہوں نے مجاہد سے،انہوں نے حضرت علی سے روایت کی،کہ میں نے حضورِ اکرم سے خاتونِ جنت کا رشتہ مانگنا چاہا،میرے پاس ایک کنیز تھی،اس نے مجھے کہا،کیا آپ کو علم ہے،کہ حضورِ اکرم فاطمہ کا نکاح کرنا چاہتے ہیں،میں نے کہا،معلوم نہیں،اس نے کہا،آپ کیوں حضور سے اس رشتے کے لئے درخواست نہیں کرتے،میں نے کہاکہ میرے پاس کیاہے،کہ آپ مجھے رشتہ دے دیں گے،اس نے کہا،آپ جائیں،اور اپنی خواہش بیان کریں،وہ مجھے بتواترآمادہ کرتی رہی،تا آنکہ میں دربار رسالت میں حاضر ہوا،مگر حضور کی ہیبت اور جلال نے میری زبان بند کردی، اور کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ رہی،آپ نے فرمایا،کہو،کیوں آئے ہو،لیکن میں قطعاً کچھ نہ کہہ سکا، فرمایا،کیا فاطمہ کا رشتہ مانگتے ہو،میں نے کہا ،ہاں یارسول اللہ،دریافت فرمایا،کیا تمہار ے پاس کچھ رقم ہے،تاکہ اسے تمہارے ساتھ بھیجا جاسکے،میں نے عر ض کیا،یارسول اللہ میں تو قطعاً خالی ہاتھ ہوں، فرمایا،وہ زرہ کیا ہوئی،میں نے عرض کیا،یارسول اللہ وہ تو ہےلیکن وہ تومعمولی سے چیز ہے،اور اس کی قیمت بمشکل چارسو درم ہوگی،فرمایا وہ کافی ہے،اسے منگوا بھجواؤ میں تمہیں فاطمہ کا رشتہ دیتا ہوں، اور یہی رقم اس کا حق مہر ہوگا۔
دولابی نے ابوجعفر محمد بن عوف بن سفیان طائی سے،انہوں نے ابو غسان مالک بن اسماعیل الہدیٰ سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن حمیدالرواسی سے،انہوں نے عبدالکریم بن سلیط سے،انہوں نے ابن بریدہ سے،انہوں نے اپنے والد سے روایت کی،کہ رسولِ کریم نے شبِ زفاف کوخاتون جنت سے کہا،کہ جب تک میں نہ آؤں ،تم آپس میں باہم کوئی بات نہ کرنا،حضور تشریف لے گئے، آپ نے وضو کے لئے پانی منگایا اس کے بعد اس کے کچھ چھینٹے حضرت علی پر ڈالے اور دعا فرمائی،"اے اللہ،تو ان دونوں میں اپنی برکت ڈال ان برکت ڈال،اور ان کے لئے ان کی نسل کو برکت عطا فرما"۔
ابن اسحاق کا قول ہے،کہ مجھ سے اس شخص نے جسے میں کوئی الزام نہیں دے سکتا،بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی صاحبزادیوں کی بھلائی کا خاص خیال رہتا ہے چنانچہ وہ انہیں سوکن پر نہیں بیاہتے ہیں،کئی راویوں نے باسنادہم ابوعیسیٰ سے،انہوں نے عبداللہ بن یونس اور قتیبہ بن سعید سے،انہوں نےلیث سے،انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے،انہوں نے مسور بن محزمہ سے روایت کی کہ انہوں نے حضوراکرم کو منبر پر فرماتے سنا،کہ بنو ہشام بن مغیرہ مجھ سے اجازت مانگ رہے ہیں کہ وہ اپنی لڑکی کو علی بن ابی طالب سے بیاہ دیں،آپ نے تین دفعہ فرمایا،میں اس کی اجازت نہیں دوں گا،ہاں مگر اس صورت میں کہ علی میری بیٹی کو طلاق دے دے،کیونکہ فاطمہ میرے جگرکا ٹکڑا ہے،جس چیز سے اسے آرام ملتا ہے،اس سے مجھے آرام ملتاہے،اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے،اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔
ابوصالح احمد بن عبدالملک بن علی الموذن نے حاکم ابوالحسن علی بن محمد حافظ اور قاضی ابوبکر حیری نے ابوالعباس محمد بن یعقوب سے،انہوں نے حسن بن مکرم سے،انہوں نے عثمان بن عمر سے، انہوں نے ام سلمہ سے روایت کی کہ قرآن کی یہ آیت،" اِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ لِیُذہِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَھلَ البَیتِ"گھر میں نازل ہوئی،آپ نے فاطمہ ،علی ،حسن ،حسین کو بلابھیجااور فرمایا،یہ میرے اہلِ بیت ہیں،ام سلمہ نے کہا،یا رسول اللہ !کیا میں اہلِ بیت میں نہیں ہوں،فرمایا،ہاں انشاءاللہ تم بھی ہو۔
ابوصالح کا قول ہے کہ حاکم نے مستدرک میں اصم ہے روایت کی،کہ ابو مسلم کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے،لیکن دونوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
ابو صالح نے ابوالحسن علی بن اہوازی سے،انہوں نے احمد بن عبید بن اسماعیل الصفار سے،انہوں نے تمام بن محمد بن غالب سے،انہوں نے موسیٰ بن اسماعیل سے،انہوں نے حماد بن سلمہ سے، انہوں نے علی بن زید سے ،انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی،کہ رسولِ اکرم چھ مہینے تک جب صبح کی نماز کے لئے اٹھتے اور جناب فاطمہ کے گھر کے پاس سے گزرتے،تو فرماتے،اے اہلِ بیتِ محمد! نماز کے لئے اٹھو،اور پھر مذکورہ بالا آیت تلاوت فرماتے۔
ابوصالح نے ابوالقاسم عبدالملک بن محمد بن بشران سے،انہوں نے ابوعلی احمد بن فضل بن عباس بن خزیمہ سے،انہوں نے عیسیٰ بن عبداللہ طیالسی رعاث سے،انہوں نے ابونعیم سے،انہوں نے زکریا بن ابو زائدہ سے،انہوں نے فراس سے،انہوں نے شعبی سے،انہوں نے مسروق سے،انہوں نے حضرت عائشہ سےروایٔت کی،کہ خاتونِ جنّت ہمارے ہا ں آئیں اور ان کی چال ہوبہو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال تھی،آپ نے بیٹی کو خوش آمدیدکہا،اور اپنے دائیں یابائیں بٹھایا،پھر حضورِاکرم نے بیٹی سے کوئی بات کہی،اور وہ رونے لگ گئیں،پھر آپ نے ان کے کان میں کوئی اور بات کہی اور وہ ہنسنے لگ گئیں،یہ دیکھ کرجناب عائشہ نے کہا،کہ میں نے آج تک کوئی ایسی خوشی نہیں دیکھی جوغم کے اتنی قریب ہو،میں نے فاطمہ سے پوچھا،تو انہوں نے کہا،میں رسولِ کریم کا راز کیسے بتا سکتی ہوں، جب آپ کا انتقال ہو گیا،تومیں نے پھر دریافت کی،تو خاتونِ جنت نے کہا،کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جبریل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن شریف سنتے اور ایک بار سنایاکرتے تھے،امسال انہوں نے یہ عمل دوبار کیاہے،میں اس سے یہ سمجھاہوں کہ میری موت قریب آگئی ہے اور میرے اہل وعیال میں تُو سب سے پہلے مجھ سے آملے گی،اور میں تیرے لئے کیساعمدہ سلف ہوں، میں رونے لگ گئی،تو آپ نے فرمایا،کیا تونہیں چاہتی کہ توتمام عورتوں کی سردارہو،اس پر میں ہنس پڑی۔
ابوصالح کہتے ہیں کہ بخاری نے اسے اپنی کتاب میں ابونعیم سے بیان کیا ہے،اور یہ حدیث غریب الصحیح ہے،کیونکہ زکریا نے کئی احادیث صحیحین میں شعبی سے روایت کی ہیں،اور انہوں نے یہ روایت شعبی سے بواسطہ فراس بیان کی ہے۔
ابراہیم بن محمد وغیرہ نے باسناد ہم ترمذی سے،انہوں نے یزید کوفی سے،انہوں نے عبدالسّلام بن حرب سے انہوں نے ابوالحجاف سے،انہوں نے جمیع بن عمیر التیمی سے روایت کی،کہ میں اپنے چچا کے ساتھ حضرت عائشہ کے پاس گیا،پوچھاکہ،رسولِ اکرم اپنے اہل وعیال میں سب سے زیادہ کس سے پیار کرتےتھے،انہوں نے کہا کہ فاطمہ سے،میں نے پھر دریافت کیا،کہ مردوں میں سب سے زیادہ آپ کو کس سے پیار تھا،آپ نے جواب دیا،علی سے،کیونکہ میں نے کوئی ایساشب زندہ دار اورروزہ دار نہیں دیکھا،جیسا کہ علی ہیں۔
ابوصالح موذن نے ابوبکر محمد بن عبداللہ بن شاذان معرّی سے،انہوں نے محمد بن عبداللہ اتقاب سے انہوں نے احمد بن عمرو بن ابوعاصم سے،انہوں نے عمربن خطاب سے،انہوں نے ابو صالح سے ،انہوں نے سفیان بن عینیہ سے،انہوں نے ابن ابو نجیح سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ایک آدمی سے،جس نے حضرت علی سے سُنا،انہوں نے بیان کیا،کہ میں نے رسولِ اکرم سے دریافت کیا،آپ فاطمہ سے زیادہ محبت کرتےہیں،یا مجھ سے،فرمایا،محبت فاطمہ سے زیادہ ہے،اور عزت تیری زیادہ ہے۔
(نوٹ)میں نہیں مان سکتا کہ حضرت علی نے حضورِ اکرم سے ایسا بچگانہ سوال کیا ہوگا،راوی کا گھڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔(مترجم)
یحییٰ بن محمود نے باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے عبداللہ بن عمر بن سالم مفلوج سے (جو میرے نزدیک بہترین مسلمانوں میں سے تھے)انہوں نے حسین بن زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے،انہوں نے عمربن علی سے،انہوں نے جعفر بن محمد سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے علی بن حسین بن علی سے،انہوں نے حسین بن علی سے،انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی،کہ آپ نے جناب فاطمہ سے فرمایا،کہ جس سے تو ناراض ہو،خدا اس سے ناراض ہوجاتا ہے،اور جس سے تو راضی ہو، اس سے خدا راضی ہوتا ہے۔
(نوٹ)اگر اس حدیث کو صحیح مانا جائے تو خدا کو بڑی مشکل پیش آئے گی، اِنَّ اللہَ بری عمایصفون (مترجم) ۔
ابوالفضل بن ابوالحسن مخزومی نے باسنادہ احمد بن علی سے،انہوں نے حسن بن عثمان بن شفیق سے، انہوں نےاسود بن حفص المروزی سے،انہوں نے حسین بن واقد سے،انہوں نے یزید النحوی سے، انہوں نے عکرمہ سے،انہوں نے ابنِ عباس سے روایت کی،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر سے واپس آتے تو خاتونِ جنت کو بوسہ دیتے۔
احمد بن علی نے محمد بن اسماعیل بن ابوسمینہ بصری سے،انہوں نے محمد بن خالد حنفی سے،انہوں نے موسیٰ بن یعقوب زمعی سے،انہوں نے ہاشم بن ہاشم سے،انہوں نے عبداللہ بن وہب سے،انہوں نے ام سلمہ سے روایت کی کہ خاتونِ جنت حضوراکرم سے ملنے آئیں،آپ نے ان سے خاموشی کی کوئی بات کہی تو وہ رو پڑیں،پھرکوئی بات کہی توہنس دیں ،میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فاطمہ نے بتایا کہ آپ نے مجھے بتایا کہ آپ اس سال کے دَوران فوت ہوجائیں گے تو میں رودی،پھر فرمایا،کیاتو نہیں چاہتی کہ تجھے تمام عورتوں کا سردار بنا یا جائے تو میں ہنس پڑی۔
عبدالوہاب بن ابی حبہ نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے عفان سے، انہوں نے معاذبن معاذسے ،انہوں نے قیس بن ربیع سے،انہوں نے ابوالمقدام سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن ارزق سے،انہوں نے حضرت علی سے روایت کی،کہ حضرت تشریف لائے اور میں سویا ہوا تھا،حسن یا حسین میں سے کسی ایک نے پانی مانگا،حضور اُٹھ کر ہماری بکری کا دودھ دوہنے لگے،اتنے میں حسن آگئے لیکن آپ نے انہیں دودھ نہ دیا،حضرت فاطمہ نے کہا،ابّاجان!حسن تو آپ کو زیادہ پیاراہے،فرمایاحسین نے پہلے مانگاتھا،اس کے بعد فرمایا،میں،تم،یہ دوبچے اور یہ سونے والا قیامت کے دن اکٹھے ہونگے۔
ابراہیم وغیرہ نے باسنادہم ابوعیسیٰ سے،انہوں نے سلیمان بن عبدالجبار بغدادی سے،انہوں نے علی بن خادم سے،انہوں نے اسباط بن نصرہمدانی سے،انہوں نے سدی سے،انہوں نے صبیح سے،جو ام سلمہ کے مولی ہیں،انہوں نے زید بن ارقم سے روایت کی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی،خاتون جنت اور حسن وحسین سے فرمایا کہ جس نےتم سے جنگ کی،اس نے مجھ سے جنگ کی،اور جس نے تم سے صلح کی اس نے مجھ سے صلح کی۔
ابومحمد حسن بن علی بن حسین اسدی دمشقی نے،جو ابن لبن کے عر ف سے مشہور تھے،اپنے دادا ابوالقاسم الحسین بن حسن سے،انہوں نے قاضی علی بن محمد بن علی مصیصی سے،انہوں نے قاضی ابو نصر محمد بن احمد بن ہارون بن عبداللہ غسانی سے،انہوں نے ابوالحسن خیثمہ بن سلیمان بن حیدرۃ الااطرابلسی سے،انہوں نے ابراہیم بن عبداللہ قصارسے ،انہوں نے عباد بن ولید بن بکار الضبی سے بصرے میں،انہوں نے خالد بن عبداللہ سے ،انہوں نے بیان سے ،انہوں نے شعبی سے،انہوں نے ابوحجیفہ سے،انہوں نے حضرت علی سے روایت کی،کہ قیامت کے دن ایک پردے کے پیچھے سے ایک منادی کرنے والے کی آوازآئے گی،"اے لوگو!آنکھیں جھکالو،تاکہ فاطمہ دخترِرسولِ کریم گزر سکیں۔
(نوٹ)اگر راوی نے اس حدیث کو بیان کرنے سے پہلے قیامت کے لاانتہا ہجوم کے بارے میں سوچ لیا ہوتاتو کتنا اچھا ہوتا،افسوس ہے کہ یہ نہیں سوچا گیا،(مترجم)۔
ابویاسر بن ابی حبہ باسنادہ عبداللہ بن احمد سے ،انہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے،انہوں نے لیث سے،انہوں نے ابن الحسن بن علی بن ابوطالب سے،انہوں نے اپنی والدہ جناب فاطمہ دختر حسین بن علی سے،انہوں نےاپنی دادی خاتونِ جنت سے روایت کی،کہ حضور اکرم جب مسجد میں داخل ہوتےاورجب خارج ہوتےتو اپنے اوپردرودوسلام بھیجتے اور بایں الفاظ دعافرماتے،رَبِّ اغفِرلِی ذَنُوبِی وَافتَح لِی اَبوَابَ رَحمَتِک ،اس حدیث کا اسناد متصل نہیں ہے، کیونکہ فاطمہ دختر حسین اپنی دادی فاطمتہ الکبرٰی کودیکھ نہ سکی تھیں،واللہ اعلم۔
جناب فاطمہ حضورِاکرم کے بعد صرف چھ ماہ زندہ رہیں اور یہی روایت درست ہے،ایک روایت میں تین مہینے مذکور ہے،ایک اور روایت میں ستردن کا ذکر ہے۔
حضورِاکرم کی وفات کے بعد خاتون جنت کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا،اور انہیں آپ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا،انس سے مروی کہ جناب فاطمہ نے ان سے کہا،اے انس،تمہارے دل نے کیسے گوارا کیاہوگا،کہ تم رسول پر مٹی ڈال رہے ہو۔
جب خاتونِ جنت کی وفات کا وقت آیا،تو انہوں نے اسماء دختر عمیس سے کہا،اے اسماء مجھے یہ طریقہ بہت بُرا معلوم ہوتا ہے،کہ عورت کی لاش پر کپڑا ڈال دیتے ہیں جس سے اس کاپتہ چلتارہتا ہے، انہوں نے کہا،اے جگر گوشئہ رسول! میں آپ کو عجیب طریقہ بتاتی ہوں،انہوں نے کھجور کی تازہ ٹہنیاں منگواکر ٹیڑھی کیں اور اوپر کپڑا ڈال دیا،خاتونِ جنت نے دیکھ کر کہا،یہ طریقہ بہت عمدہ اور بہتر ہے،پھر کہا،جب میں مرجاؤں،توتم اور علی مجھے نہلانااور کسی اور کو اندر نہ آنے دینا۔
جب خاتونِ جنت فوت ہوگئیں،تو حضرت عائشہ آئیں،لیکن اسماء نے انہیں روکا،انہوں نے حضرت ابوبکر کو بتایا کہ خثعمیہ(اسماءدخترعمیس) مجھے اندر جانے نہیں دیتی،خلیفہ نے پوچھا،اے اسماء تم ازواجِ نبی کو کیوں اندرداخل نہیں ہونے دیتیں،تم نے اس گھرکوکجاوہ بنارکھا ہے،اسماء نے کہااے خلیفۂ رسول،خاتون جنت نے مجھے کہہ دیاتھا،کہ میں کسی کواندر نہ آنے دُوں،اور نیز یہ کہاتھا،کہ ان کی میت کو بایں انداز ڈھانپا جائے،خلیفہ نے کہا ٹھیک ہے ،تم ان کے حکم کی تعمیل کرو،چنانچہ انہیں علی اور اسماء نے غسل دیا،اور اسلام میں خاتونِ جنت کی پہلی میت تھی،جسے اس طرح ڈھانپا گیاتھا، (ان کے زینب دخترحجش کی وفات ہوئی)انکی نماز جنازہ حضرت علی یاعباس نے پڑھائی،ان کی وصیت کے مطابق رات ہی کو تدفین کی گئی،اور ان کی قبر میں حضرت علی،عباس اور فضل بن عباس اترے۔
ان کی وفات رمضان کی تین تاریخ کو سن گیارہ ہجری میں ہوئی،واللہ اعلم اس وقت خاتونِ جنت کی عمر انیس برس تھی،اور بقول عبداللہ بن حسن بن حسین بن علی،جناب فاطمہ کی عمربوقتِ وفات تیس برس تھی،بقول کلبی ان کی عمر ۳۵ برس تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ جب ان کی موت قریب آئی تو انہوں نے غسل کرکے کفن اوڑھ لیااور حضرت علی سےکہا کہ وفات کے بعد ان کے کفن نہ کھولا جائے اور انہیں کپڑوں میں رات کو دفن کردیا جائے،لیکن صحیح روایت یہ ہے کہ خاتونِ جنت کو حضرت علی اور اسماء نے غسل دیاتھا،تینوں نے ذکر کیا ہے۔