حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب:اسم گرامی:محمد۔کنیت :ابو حامد۔ لقب: حجۃ الاسلام۔امام غزالی کےنام سےمعروف ہیں۔سلسلۂ نسب اسطرح ہے:حضرت حجۃ الاسلام امام محمدبن محمد بن احمد طوسی غزالی شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ ہے۔حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پانچویں صدی کےمجددتھے۔علامہ تاج الدین سُبکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ حضرت سیدنا امام غزالی علیہ الرحمہ کے والدماجدبڑے نیک انسان تھے۔ فقہائے کرام سے انہیں بہت محبت تھی لہٰذا ان کی بڑی تعظیم و توقیر فرماتے اورحتی المقدور اُن پر خرچ کرتے، ان کی مجالس میں حاضر ہوتے اور وہاں خوفِ خداسے تضرع وزاری کرتے اوراکثرَاللہ جل شانہ سے دعا کرتے کہ باری تعالیٰ مجھے بیٹا عطافرما اور اسے فقیہ بنا۔اللہ تعالیٰ نےدونوں ان کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔بزرگوں کاقول ہےکہ جوشخص یہ چاہتاہے کہ اس کابیٹاعالمِ دین یاصالح بنے تواس کوچاہئے کہ علماء کرام کی خدمت کرے۔(طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۴)
تاریخِ ولادت : 450ھ، مطابق1058ء،خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد دھاگےکی تجارت کر تے تھے ۔اس مناسبت سے آپ کا خاندان غزالی کہلاتا ہے۔ان علاقوں میں نسبت کا یہی طریقہ مروج ہے،جیسے عطار کو عطاری اور قصار کو قصاری کہتے ہیں۔
تحصیل ِعلم:حضرت امام محمد غزالی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں حاصل کی اور فقہ کی کتابیں حضرت احمد بن محمد راذ کانی سے پڑھیں۔ پھر جرجان میں امام ابو نصر اسماعیلی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ 473ھ نیشاپور میں امام الحرمین الجوینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان سے اصولِ دین، اخلاقی مسائل، مناظرہ، منطق، حکمت اور فلسفہ، وغیرہ میں مہارتِ تامہ حاصل کی ۔484ھ میں وزیر نظامُ الملک نے مدرسہ نظامیہ بغداد کے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) کا عہد ہ آپ کو پیش کیا جسے آپ نے قبول فرمایا۔آپ سےکثیرتعدادمیں جیدعلماءکرام نےاکتساب فیض کیا۔
بیعت وخلافت:ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی علیہم الرحمہ سے حاصل تھی ۔شیخ موصوف بہت عالی مرتبت ، فقہ شافعی کے زبردست عالم اور مذاہب سلف سے باخبرتھے اورحضرت سیدنا امام ابوالقاسم قشیری علیہ الرحمہ کے جلیل القدر شاگردوں میں سے ہیں ۔
سیرت وخصائص:امام الجلیل،شیخ الکبیر،حجۃ الاسلام،حکیم الامۃ،کاشف الغمۃ،عارف باللہ،صاحبِ اسرارومعارف،امام الاولیاء،شیخ الاصفیاء،وارثِ علومِ مصطفیٰﷺ،صاحبِ علم وتقویٰ،حضرت ابوحامدمحمدبن محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے مجددِ اسلام ،حجۃ الاسلام، علومِ اسلامیہ کےبحرِبےکنار،عظیم مصلح،مصنفِ کتبِ کثیرہ اور فلسفی ِ اسلام تھے۔ امام الحرمین امام جوینی علیہ الرحمہ کی شاگردی اختیار کی، اور بہت ہی قلیل عرصے میں علومِ دینیہ اورفلسفہ ومنطق میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔یہاں تک کہ دنیائے اسلام کی نظروں کا مرکز بن گئے۔علم کیساتھ زہد وتقویٰ ،عبادت وریاضت اور اخلاقِ مصطفوی ﷺ کی دولت سے بھی قدرت نے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔
امام غزالی علیہ الرحمہ نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر وہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو آج بھی اسلامی فلسفہ وتصوف،علم و حکمت، تصوف و روحانیت ، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی اصلاح کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔علم وعمل کےبحارذخارہونےکےباوجودانتہائی سادہ زندگی بسرکرتےتھے۔آپ کےشاگردقاضی ابوبکربن عربی علیہ الرحمہ فرماتےہیں:میں نےحضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کولوگوں کےدرمیان اس حال میں پایا کہ آپ کے ہاتھ میں لاٹھی تھی،پیونددارلباس زیب تن تھااورکندھے سے پانی کا برتن لٹک رہا تھا اور میں دیکھا کرتا کہ بغداد میں آپ کے بحر علم سے مستفیض ہونے کے لیے بڑے بڑے جید علما و فضلاء آپ کی مجلس درس میں حاضر ہوتے جن کی تعداد چار سو تک پہنچ جاتی۔(مقدمہ مکاشفۃ القلوب)
بارگاہِ مصطفیٰﷺ میں مقام: حضرت سیدنا علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ تفسیرروح البیان،ج5،صفحہ 374،سورۂ طہٰ،آیت نمبر18 کے تحت نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:آپ کا فرمان ہے:"عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِبَنِیْ اِسْرَائِیْل یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاءکی طرح ہیں "۔لہٰذا مجھے ان میں سے کوئی دکھائیں ۔حضور نبی کریم ﷺنے حضرت سیدنا اما م محمد غزالی علیہ الرحمہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے ایک سوال کیا۔آپ نے اس کےدس جواب عرض کئے۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نےفرمایا:کہ سوال ایک کیا گیا اور تم نے دس جواب دئیے ،تو حضرت امام محمدغزالی علیہ الرحمہ نے عرض کی: جب اللہ تعالیٰ نے آپ سےپوچھاتھا:"وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی"(پ16، طٰہ17)اےموسیٰ!تمھارےداہنےہاتھ میں کیا ہے۔تو اتنا عرض کر دینا کافی تھا کہ یہ میرا عصا ہے، مگرآپ نے اس کی کئی خوبیاں بیان فرمائیں ۔
حضراتِ علمائے کرام فرماتے ہیں :کہ گویاا مام غزالی علیہ الرحمہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں کہ جب آپ کاہم کلام باری تعالیٰ تھاتوآپ نے وفورِمحبت اورغلبۂ شوق میں اپنے کلام کوطول دیاتاکہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کاشرف حاصل ہوسکے اوراس وقت مجھےکلیمِ خدا سے گفتگوکاشرف حاصل ہورہاہے اس لئے میں نے بھی شوق ومحبت میں کلام کوطویل کیا ہے۔
حضرت سیدنا امام ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :میں خواب میں زیارتِ رسول ﷺسےمشرف ہواتودیکھاکہ حضوررحمت ِ عالمﷺ،حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اورحضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر فخرکرتے ہوئے فرمارہے ہیں:" کیاتمہاری امتوں میں میرےغزالی جیساکوئی عالم ہے۔دونوں نے عرض کی:نہیں۔(النبراس،ص،247)
حضرت امام غزالی ملت اسلامیہ کافخرہیں۔آپ کی تعلیمات کےاثرات آج تک محسوس کیےجاتےہیں۔آپ کی کتب سالکین وعارفین،علماء وفاضلین کےلئےبنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔بعض حضرات آپ کودنیاسےالگ تھلگ اور ایک گوشہ نشین صوفی تصورکرتےہیں۔بس جس کاکام صرف اللہ ہوکی ضربیں لگاناہو۔ایساہرگزنہیں ہے۔یہ کیسےہوسکتاہےکہ وقت کامجددہو،فلسفیِ اسلام ہو،اوراپنےوقت کاعظیم امام ہو،وہ حالات سےکیسےصرفِ نظرکرسکتاہے۔آپ کی حالات پرپوری نظرتھی۔شاہانِ وقت آپ کی ہیبت سےکانپتےتھے،غیرشرعی اموراوررعایاپرظلم کےخلاف آپ کی آوازایک اثررکھتی تھی۔یہی وجہ ہےکہ شاہِ سلجوق جس کی سلطنت چین سے یورپ تک تھی آپ نے اس کو للکارا اور فرمایا:"افسوس!کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں، اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں سونے اور چاندی کےطوقوں سے جھکی ہوئی ہیں "۔
؎ آئینِ جوانمرداں حق گوئی وبیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
تاریخِ وصال:14/جمادی الثانی505ھ،مطابق18/دسمبر1111ء،بروزپیرکو عالمِ اسلام کا یہ سورج غروب ہوگیا۔آپ کامزارشریف "طوس"ایران میں ہے۔
ماخذومراجع: طبقات الشافعیہ۔خزینۃ الاصفیاء۔مقدمہ مکاشفۃ القلوب۔مقدمہ احیاءلعلوم۔