حضرت حجت الاسلام ابو حامد محمد غزالی

حضرت حجت الاسلام ابو حامد محمد غزالی  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ کی کنیّت ابوحامد ہے۔ لقب زین الدّین ارتومس کے رہنے والے تھے مذہباً شافعی تھے تصوّف میں شیخ ابوعلی فارمدی﷫ سے نسبت روحانیت رکھتے تھے ابتدائی تعلیم طوس اور نیشاپور میں پوری کی تکمیل و تحصیل علوم متداولہ اور مروّجہ مختلف مدارس میں کی نظام الملک طوسی (علم دوست وزیر) سے ملاقات ہوئی تو اس کی نگاۂِ مردم شناس نے آپ کو منتخب کرلیا۔ اور آپ مدرسہ نظامیہ بغداد کے مہتمم قرار دئیے گئے ایک وقت آیا کہ اپنے اختیارات دوسرے علماء کے حوالے کرکے بیعت اللہ شریف چلے گئے حج کے بعد شام آئے اور وہاں سے بیت المقدس پہنچے وہاں سے بصرہ قیام کیا اور ایک عرصہ تک اسکندریہ میں قیام پذیر ہوئے پھر اپنے وطن واپس آئے اور بڑی مفید کتابین تصنیف کیں۔ ان تصانیف میں احیاءالعلوم۔ جواہرالقرآن۔ تفسیریاقوت (چالیس جلدیں) مشکوٰۃ الانوار اور کیمیائے سعادت نے تو علمی دنیا میں اپنا لوہا منوایا پھر ایک خانقاہ تعمیر کی اور عبادت الٰہی میں تجدیداً مشغول ہوگئے۔

نفحات الانس کے مولّف فرماتے ہیں کہ اکابرین دین میں سے ایک شخص نے بتایا میں حرم بیت اللہ میں بیٹھا تھا ایک بدعتی وہاں آیا۔ اور مصّٰلی بچھالیا اور اپنے دامن کے پتھر کی ایک تختی نکال کر سامنے لارکھی اس پر چند حروف لکھے ہوئے تھے اس نے انہیں چوما اور اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھنے لگا اور اپنی پیشانی کو اس پر ملتا رہا اور تضرع و زاری کرتا رہا اس کے بعد اس نے اپنا سر اٹھایا اسے چوما آنکھیں پر ملا اور پھر اپنے دامن میں چھپا کر جانے کے لیے اٹھا میں نے اس کی یہ ساری حرکات دیکھیں تو مجھے کراہت آئی کہ یہ کیا کررہا ہے میں نے دل میں کہا کاش آج رسول اکرم زندہ ہوتے اور اہلِ بدعت کو ان کے مکروہ کاموں کی برائی سے آگاہ فرماتے میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے غنودگی آگئی میں نے ایک وسیع اور کشادہ میدان دیکھا جس میں بے پناہ مخلوق خدا جمع ہے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک کتاب ہے تمام کے تمام ایک شخص کے سامنے پیش ہو رہے ہیں میں نے لوگوں سے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ رسول خدا ﷺ ایک تخت پر جلوہ فرما ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے عقائد کی کتابیں حضور کی بارگاہ میں پیش کرکے ان کی تصحیح کرالیں میں بھی اس حلقہ میں جاپہنچا میں نے دیکھا ایک شخص آگے بڑھا اور اپنے نظریات و عقائد کی کتاب پڑھنے لگا حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ ’’مرحبا! یا شافعی!‘‘ اے شافعی خوش رہو! ایک شخص آگے بڑھا اس نے بھی اپنی کتاب پیش کی یہ امام ابوحنیفہ تھے آپ نے فرمایا۔ ’’مرحبا یَااَبی حُنَیفَہْ رَفُتَ امام الاعظم‘‘ اے ابوحنیفہ تم امام اعظم ہو۔ اسی طرح امام مذاہب میں سے ایک بزرگ آگے بڑھتے اور اپنی کتابیں پیش کرکے منظوری لیتے جاتے اسی اثنا میں ایک شخص آگے بڑھا اس کے ہاتھ میں بے جلد کتابوں کی چند جلدیں تھیں اس کی خواہش تھی کہ وہ بھی بارگاہ نبوی میں پیش کرے ایک دوسرا شخص حلقہ میں سے اٹھا اور اسے ڈانٹ کر باہر نکال دیا اس کے ہاتھ سے وہ اوراق گرپڑے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ اے شیخ یہ وہی نظریات ہیں جسے آپ نے کعبۃ اللہ میں اس شخص کو نماز کے دوران دیکھا تھا اور تجھے اس کی حرکات اچھی نہ لگی تھیں جب لوگوں کا ازدہام کم ہوا تو میں بھی آگے بڑھا میرے پاس بھی ایک مجلد کتاب تھی میں نے گذارش کی یا رسول اللہ یہ کتاب معتقدمن منعقد ہے اہل اسلام کے لیے نہایت مفید ہے اگر اجازت ہو تو پڑھ کر سناؤں حضور نے ازرۂ ترحّم اجازت دی آپ نے فرمایا کہ یہ کون سی کتاب ہے گذارش کی ’’قوائدالعقائد‘‘ ہے جسے محمد بن محمد غزالی نے تصنیف کیا ہے آپ نے مجھے پڑھنے کی اجازت دی میں پڑھتا گیا جب میں اس مقام پر پہنچا جہاں لکھا تھا کہ ’’غزالی می فرماید لللہ تعالیٰ لبَعَثَ النَّبی الاُمییٰ القَرِیشی محمدﷺ لکافۂ العزت وَالعَجم وَالجّن والَانس‘‘ یہ کلمات سنتے ہی حضور کا چہرۂ انوار مسرت اور خوشی سے دمکنے لگا آپ مسکرائے اور فرمایا محمد غزالی کہاں ہیں۔ غزالی کو پیش کیا گیا سلام پیش کیا حضور نے نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا اور اپنا دستِ مبارک غزالی کے ہاتھ میں دے دیا۔ غزالی آپ کا ہاتھ چومتے جاتے اور آنکھوں سے بار بار لگاتے اور والہانہ طور پر اپنے چہرے کو حضور کے دست مبارک پر لگاتے حضور نبی کریمﷺ اسی نشست میں عقائد کو سنا اور بڑی تفصیل سے ان خیالات کو سنتے رہے میں ان خیالات کو سنتے سنتے خواب سے اٹھا میری آنکھوں میں ابھی تک رونے کے اثرات موجود تھے اور جس واقعہ کو میں نے دیکھا تھا اس کے اثرات زندگی بھر میرے دل و دماغ پر رہے۔

شیخ محمد صادق شیبانی﷫ اپنی کتاب مناقب غوثیہ میں لکھتے ہیں کہ شبِ معراج کو حضورﷺ سے حضرت موسیٰ﷤ کی ملاقات ہوئی حضرت موسیٰ نے دریافت کیا کہ آپ نے تو فرمایا ہے کہ ’’عُلَماء اُمَتی کَا نَبیَاء بَنْی اِسُرائَیل (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء جیسے ہوں گے) میں چاہتا ہوں کہ آپ کی امت کا ایک عالم میرے پیش کیا جائے تاکہ میں اس سے بات کرسکوں اسی وقت امام غزالی کے روح کو بیدار کیا گیا اور حاضر کیا گیا نبی کریمﷺ نے اشارہ فرمایا کہ حضرت موسیٰ﷤ کو سلام کریں اور خدمت میں حاضر ہوں حضرت موسیٰ﷤ نے امام غزالی سے پوچھا آپ کانام کیا ہے امام نے عرض کی میرا نام محمد بن محمد غزالی ہے حضرت موسیٰ﷤ نے فرمایا میں نے تو صرف تمہارا نام پوچھا ہے باپ کا نام تو نہیں پوچھا یہ کیا فضول حرکت ہے آپ نے عرض کی جس دن آپ کو جلوۂِ شجرِ طور سے نوازا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے سوال کیا تھا مِا تَلِکَ بَیمِینکَ یَا مُوسیٰ (اے موسیٰ تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟) اس وقت آپ نے جواب دیا تھا کہ یہ عصاء ہے اَتو لو عَلَیھْا و اُھشُ بِھَا عَلی غنَمِی وَلیٔ فِیَھا ۔ما رَبِ اُخری (یہ عصاء ہے میں اس سے تکیہ کرلیتا ہوں بکریوں کے لیے پتے چھاڑتا ہوں اور اس کے علاوہ کئی کام لیتا ہوں) اللہ تعالیٰ نے تو صرف آپ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز کے بارے میں سوال کیا تھا مگر آپ نے اتنے جوابات دئیے ان کا کیا مطلب تھا حضرت موسیٰ﷤ نے بتایا جس وقت مجھے مِا تَلِکَ بَیمِینکَ یَا مُوسیٰ  کہا گیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ ہماری دل جوئی کے لیے دریافت فرمارہے ہیں ورنہ اس کی ذات سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں تھی ہمیں موقعہ ملا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کے ایک سوال کے جواب میں تفصیلاً جواب دینے میں اپنی خدمت گذاری کا اظہار مقصود تھا حضرت امام غزالی نے عرض کی حضرت آپ نے میرا نام دریافت فرمایا تو میں نے بھی اظہار عقیدت کے طور پر اپنا اپنے والد اور ان کے والد کا نام بتاتے ہوئے سلسلہ کلام دراز کیا تاکہ آپ سے گفتگو کو طول دیا جاسکے حضرت موسیٰ﷤ خاموش رہے مگر حضور نبی کریمﷺ نے اپنی چھڑی کے اشارے سے امام غزالی کو روک کر فرمایا کہ انبیاء کے سامنے زیادہ گفتگو ادب کے خلاف ہوتی ہے امام غزالی نے گردن جھکادی مگر حضور کی چھڑی نے آپ کے کندھے کو چھویا کہتے ہیں امام غزالی پیدا ہوئے تو یہ نشان پیدائشی طور پر آپ کے جسم پر موجود تھا۔

حضرت امام غزالی﷫ اپنی کتاب منحول لکھی تو اپنےاستاد امام الحرمین کی خدمت میں پیش کی استاد مکرم نے کتاب پڑھی تو فرمایا ’’غزالی تم نے مجھے زندہ درگور کر دیا ہے۔‘‘ یعنی یہ کتاب میری تمام شہرت پر حاوی ہوگی اور میری شہرت دب کر رہ جائے گی (استاد کی طرف سے یہ انداز تحسین کتنا لطیف اور جامع ہے)

حضرت امام غزالی کی ولادت ۴۵۰ھ میں ہوئی مگر بعض تذکرہ نویسوں نے ۴۴۹ھ بھی لکھی ہے وفات ۱۴؍جمادی آلاخر ۵۰۵ھ یابقولے ۵۰۷ھ ہوئی۔

آں محمد بن محمد شیخ حق
شد عیاں بحرالعلوم احمدی
۴۵۰ھ

 

مطلع نور یقین روشن جبیں
سرورا تولید آں عین الیقین
۴۴۹ھ

 

 

 

روشن ماہتات

محبت

مکمل نور دین

گل گلشن

مہدی فقر

۴۴۹ھ

۴۴۹ھ

۴۵۰ھ

۴۵۰ھ

۴۴۹ھ

گفت سرور سالِ ترحیلش عیاں

 

عابد موسےٰ امام المسلمین

 

               

صاحب تاج (۵۰۵ھ) محبت مجتبیٰ (۵۰۵ھ) زینت ابدال (۵۰۵ھ) شمس زمیں (۵۰۵ھ) عالم طیّب امام المسلمین (۵۰۵ھ) رہبر محمود (۵۰۵ھ) راہبر اہل دین (۵۰۵ھ) محمد بن محمد پیر مہدی (۵۰۵ھ)

محمد بن محمد یار محبوب(۵۰۵ھ) سے بھی تواریخ ولادت اور وصال برآمد ہوتی ہیں۔

(خزینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء