حضرت حجتہ الاسلام محمد بن محمد الغزالی الطوسی
حضرت حجتہ الاسلام محمد بن محمد الغزالی الطوسی علیہ الرحمۃ
آپکی کنیت ابو حلد ہے اور زین الدین لقب ہے۔تصوف میں ان کی نسبت شیخ ابو علی فارمدی سے ہے وہ فرماتے ہیں۔لقد سمعت الشیخ ابا علی الفار مدی علیہ الرحمۃعن شیخہ ابی القاسم الکوکانی قد من اللہ تعالی روحہ انہ قال ان الا سماء التسعتہ والتسعین تصعیراًوصافا فا للعبدالسالک وھو گی السلوک غیر واصل
یعنی بے شک میں نے شیخ ابو علی علیہ الرحمۃسے سنا تھااور انہوں نے اپنے شیخ ابوالقاسم گرگانی علیہ الرحمۃسے سنا تھا۔وہ فرماتے ہیں کہ سالک شخص کے لیے ۹۹ اسماءالہٰی وصف بن جایئں پھر بھی وہ سلوک میں ابھی پورا واصل نہیں۔آپ شروع میں طوس اور نیشاپور میں تحصیل علوم اور اسکی تکمیل میں مشغول رہے۔بعد ازاں نظام الملک کے پاس موجود تھےکئی مجلسوں میں مناظرہ کیے اور ان پر غالب آئے۔مدرسہ نظامیہ بغداد کی اول مدرسی آپ کے سپرد ہوئی۔۴۸۴ھ میں بغداد میں گئے تمام اہل عراق آپ کے شیفتہ و فریقتہ ہوگئے۔بڑی عزت اور مرتبہ حاصل کیےاس کے بعد اس شوکت کو ترک کرکے زہدوااتقطاع خلق کا طریقہ اختیار کیا۔حج کا قصد کیا۔۴۸۸ھ میں حج ادا کیا اور شام میں گئے۔وہاں سے مصر اور ایک مدت تک اسکندریہ میں رہے۔بعد ازاں شام میں واپس آئے۔
جس قدر چاہا وہاں رہے بعد ازاں وطن کو لوٹے اور اپنے حال میں مشغول ہوئے۔لوگوں سے خلوت اختیار کی کتب مفیدہ تصنیف کیں ۔ جیسے کتاب احیاءالعلوم،جواہر القرآن ،تفسیریاقوت التاویل چالیس جلد میں مشکوۃ الانواز وغیرہ کتب مشہور بعد بعد ازاں نیشاپور میں آئےاور مدرسہ نظامیہ نیشاپورمیں درس دینا شروع کیا۔پھر کچھ مدت بعد چھوڑدیااور وطن میں آگئے۔صوفیہ کے لیے ایک خانقاہ بنائی اور طلبہ کے لیےایک مدرسہ بنایا۔اپنے اوقات کو نیک وظائف پرتقسیم کیا مثلاً ختم قرآن،اہل دل کی صحبت تدریس علوم یہاں تک کہ ۱۴جمادی الاخر ۵۰۵ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ایک بڑے عالم فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ظہر اور عصر کے درمیان حرم شریف میں آیا۔فقرا کے وجد و حال نے مجھےکچھ پکڑ رکھا تھا۔مجھ سے نہ ہوسکاکہ ٹھہرو ںاور بیٹھوں۔ایسی جگہ کی میں نے تلاش کی جہاں ایک گھڑی آرام پاؤں۔حرم میں ایک سرائے کے جماعت خانہ میں آیااور دائیں طرف گھر کے برابر بیٹھ گیااور اپنا ہاتھ ستون کے نیچے رکھا کہ کہیں نیند نہ آجائےاور وضو نہ ٹوٹ جائے۔اتفاقاً ایک بدعتی شخص جو کہ بدعت میں مشہور تھاآیا اور اس جماعت خانہ کے دروازہ پر اپنا مصلیٰ ڈالا۔اپنی جیب میں سے ایک تختی نکالی مجھے گمان یہ ہے کہ وہ تختی پتھر کی تھی ۔اس پر بہت کچھ لکھا ہوا تھااس کو چوما اور اپنے سامنے رکھ کر لمبی نماز پڑھنے لگا۔اپنے چہرہ کو اس پر دونوں طرف ملنے لگا اور بہت عاجزی کی۔اس کے بعد اپنے سر کو اونچا کیا اور اس کو چوما اپنی آنکھوں پر ملا پھر چوم کہ جیب میں ڈال لیا۔
جب میں نے یہ حال دیکھا تو مجھ کو اس سے بہت کرامت ہوئی۔میں نے دل میں کہا کہ اچھا ہوتا کہ رسولﷺ زندہ ہوتے اور ان بدعتیون کو اس برائی کی خبر دیتےجو کہ یہ کر رہے ہیں۔اس گرک میں نیند کو دور کرتا تھاکہ کہیں میرا وضو نہ ٹوٹ جائے ۔اتفاقاً مجھے اونگھ آگئی نیند اور بیداری کے درمیان کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان بڑا کشادہ ہےاور بہت سے لوگ کھڑے ہیں ۔ہر ایک ہاتھ میں ایک مجلد کتاب ہےاور سب کے سب ایک شخص کے سامنے کھڑے ہیں۔میں نے ان کی بابت پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ حضرت رسالت پناہﷺ تشریف رکھتے ہیں اور یہ سب اصحاب مذہب چاہتے ہیں کہ اپنی کتابوں سے نکال کر رسولﷺ کے حڈور میں پڑھیں اور اپنے عقائد و مذہب تصحیح کریں۔اتنے میں ایک شخص آئےلوگوں نے کہا امام شافعیؓ ہیں،ان کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے۔حکقہ میں آئے اور رسول ﷺ کو سلام کیا۔رسول ﷺ نے جواب دیااور مرحبا کہا ۔امام شافعی آگے ہوکر بیٹھ گئے اور وہ کتاب جو ان کے پاس تھی اس میں سے اپنا مذہب و اعتقاد پڑھا۔
اس کے بعد ایک اور شخص آئے اور لوگوں نے کہا امام ابو حنیفہ ؓ ہیں۔ان کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے وہ بھی امام شافعیؓ کے پاس بیٹھ گئےاور کتاب میں سے اپنا مذہب و اعتقاد پڑھا۔ایسا ہی اصحاب مذہب آتے تھے۔یہاں تک کہ تھوڑے ہی باقی رہ گئے جو شخص اپنا مذہب پیش کرتا اس کو ایک دوسرے کے پاس بٹھا دیتے۔جب سب فارغ ہوگئے۔اتفاقاًایک شخص رافضیوں میں سے آیااور اس کے ہاتھ چند جڑوبے جلد تھے۔ان میں ان کے عقائد باطلہ کا ذکر تھا اس نے قصد کیا کہ اس حلقہ میں آئےاور وہ رسول ﷺ کی جانب میں پڑھے۔ایک شخص ان بزرگوں میں سے جو کہ آپ کی خدمت میں موجود تھےباہر نکلے اور اس کو جھڑک کر منع کر دیا۔وی اجزا اس کے ہاتھ سے لے کر گرا دیےاور اس کو ذلیل کر کے نکال دیا۔میں نے جب دیکھا کہ لوگ فارغ ہوچکے ہیں اور کوئی نہیں رہا کے پڑھے آگےبڑھا۔میرے ہاتھ میں ایک مجلد کتاب تھی میں نے آواز دی کہ یا رسول اللہ ﷺ کتاب میرا اعتقاد ہے اور اہل اسلام کے عقائداس میں ہیں اگر اجازت ہو تو پڑھوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کونسی کتاب ہے میں نے عرض کیاکتاب قواعد العقائد ہے جس کو غزالی نے تصنیف کیا ہے۔تب مجھ کو آنحضرت ﷺ نے اس کے پڑھنے کی اجازت دی میں بیٹھ گیااور اول سے پڑھنا شروع کیا۔یہاں تک کہ اس موقع پر پہنچا جہاں امام غزالی کہتے ہیں۔وللہ تعالی بعث النبی الا می القریشی محمد صلی اللہ علیہ وسلم الی کافتہ العرب والعجم والجن والانسیعنی اور اللہ نے بھیجا نبی امی قریشی حضرت محمد ﷺ کو تمام مخلوق عرب عجم جن ،انسان کی طرف سوجب میں یہاں تک پہنچا تو میں نے دیکھاخوشی اور تبسم کے آثار چہرہ مبارک ﷺ پر ظاہرہوئے ہیں۔۔جب آپکی تعریف و صفت تک پہنچا تو میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔این الغزالی کہ غزالی کہا ہے۔غزالی وہاں پر کھڑے تھے ۔عرض کیا غزالی میں ہوںجو حاضر ہوںیا رسول اللہ آگے بڑھےاور سلام کیا۔رسولﷺنے جواب دیا اپنا ہاتھ مبارک ان کو دیا۔امام غزالی نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ مبارک پر بوسہ دیا اور اپنا چہرہ پر ملا بعد اس کے بیٹھ گئے۔رسولﷺ نے کسی کی قراءت پر اس قدر اظہار خوشی نہ فرمایاجس قدر کہ میری قواعد و العقائد کے پرھنے پر جب میں خواب سے بیدار ہوا میری آنکھوں پر رونے کا اثر تھا۔
بوجہ اس کرامت و حال کے جس کو میں نے مشاہدہ کیا تھا۔شیخ ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمۃکے زمانہ کے قطب تھے اپنے اس واقع کو جو دیکھا تھا یہ خبر دیتے ہیں کہ حضرت رسالت پناہ ﷺ نے بعض سنکرین غزالی کو تعزیز دینے کا حکم دیا اور کوڑے کا اثر اس کی موت تک اس کے بد ن پر ظاہر تھا۔امام غزالی کے کلام میں جوبعض دوستوں کو لکھا ہے یہ ہے کہ روح ہےلیکن نیست نما۔کہ ہر ایک وہاں تک راہ نہیں۔وہ سلطان قاہر متصرف کو قیوم ہے قالب اس کا قیدی اور بے چارہ ہے جو کچھ دیکھتا ہے قالب سے دیکھتا ہے ۔قالب اس سے بے خبر ہے ۔تمام عالم کہ قیوم عالم کے ساتھ یہی مثال ہے کہ قیوم عالم ہے تو سہی لیکن نیست نظر آتا ہے ۔کیونکہ ذرات جہان میں سے کوئی ایساذرہ خود بخود نہیں بلکہ اپنے قیوم سے اس کا قیام ہے اور ہر چیز کا قیوم ضرورت اس کے ساتھ ہےاور حقیقتہً اسی کا وجود ہے اور مقدم کا وجود اس کی طرف عاریتاً ہے ۔یہی معنی ہیں وھو معکم اینما کنتم یعنی وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو لیکن جو شخص کہ جسمی معیت ہی کو جسم کے ساتھ جانتا ہے۔یا عرض کی معیت عرض کے ساتھ یا عرض کی محبت جسم کے ساتھ سو یہ تینوں معیتین قیوم عالم کے حق میں محال ہیں۔یہ معیت سمجھ میں نہیں آتی معیت قیومت چوتھا قسم ہے ۔بلکہ حقیقتہً معیت یہی ہے اور یہ بھی ہے لیکن نیست نما ہے کو لوگ کہ اس معیت کو نہیں پہنچانتے وہ قیوم کو ڈھونڈتے ہیں پھر نہیں پاتے اور یہ بھی ان سے منقول ہے کہ صاف ہوا میں زمین سے ایک بگولا اٹھتا ہے جس کی شکل مستطیل منارہ کی ہوتی ہے وہ باہم ملکر چکر کھاتا ہے۔دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ مٹی اپنے آپ کو پیش دیتی اور ہلاتی ہے حالانکہ یوں نہیں ہے بلکہ وہ ہوا ہے جو اس مٹی کو ہلاتی ہے ۔لیکن ہوا کو دیکھ نہیں سکتے خاک کو دیکھ سکتے ہیں ۔ پس مٹی حرکت نہیں کرتی اور کرتی معلوم ہوتی ہےہوا حرکت کرتی ہے لیکن بظاہر معلوم نہیں ہوتی۔حرکت میں خاک کو بجز قید اور عاجز ہونے کے چارہ نہیں وہ ہوا کے ہاتھ میں ہے ۔تمام حکومت ہوا کی ہے لیکن اس کی سبقت معلوم نہیں ہوتی۔
(نفحاتُ الاُنس)