منظومات  

مناجات کی رات

آج کی رات ضیائوں کی ہے بارات کی رات فضلِ نوشاہِ دو عالم کے بیانات کی رات   شب معراج وہ اَوْحیٰ کے اشارات کی رات کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات   چھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زلفیں کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات   رِند پیتے ہیں تری زلف کے سائے میں سدا کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات   رخِ تابانِ نبی زلفِ معنبر پہ فدا روز تابندہ یہ مستی بھری برسات کی رات   دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر...

ستار ہائے فلک

جھکے نہ بارِ صد احساں سے کیوں بنائے فلک تمہارے ذرے کے پر تو ستارہائے فلک   یہ خاکِ کوچۂ جاناں ہے جس کے بوسہ کو نہ جانے کب سے ترستے ہیں دیدہائے فلک   عفو و عظمت خاکِ مدینہ کیا کہئے اسی تراب کے صدقے ہے اعتدائے فلک   یہ ان کے جلوے کی تھیں گرمیاں شب اسری نہ لائے تابِ نظر بہکے دیدہائے فلک   قدم سے ان کے سرِ عرش بجلیاں چمکیں کبھی تھے بند کبھی وا تھے دیدہائے فلک   میں غم نصیب بھی تری گلی کا کتا ہوں نگاہِ لطف ا...

مہر درخشانِ جمال

اس طرف بھی اک نظر مہر درخشانِ جمال ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمانِ جمال   تم نے اچھوں پہ کیا ہے خوب فیضانِ جمال ہم بدوں پر بھی نگاہِ لطف سلطانِ جمال   اک اشارے سے کیا شق ماہِ تاباں آپ نے مرحبا صد مرحبا صَلِّ علیٰ شانِ جمال   تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں سنگریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جانِ جمال   کب سے بیٹھے ہیں لگائے لو در جاناں پہ ہم ہائے کب تک دید کو ترسیں فدایانِ جمال   فرش آنکھوں کا بچھائو رہ گ...

کبھی رہتے وہ اس گھر میں

تلاطم ہے یہ کیسا آنسوئوں کا دیدۂ تر میں یہ کیسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں   ہجوم شوق کیسا انتظارِ کوئے دلبر میں دلِ شیدا سماتا کیوں نہیں اب پہلو و بر میں   تجسس کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلبِ مضطر میں مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں   یہ بحثیں ہورہی ہیں میرے دل میں پہلو و بر میں کہ دیکھیں کون پہنچے آگے آگے شہر دلبر میں   مدینے تک پہنچ جاتا کہاں طاقت تھی یہ پر میں یہ سرور کا کرم ہے ، ہے جو بلبل باغ...

ان کے در کی بھیک اچھی

بوالہوس سُن سیم و زر کی بندگی اچھی نہیں ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں   سروری کیا چیز ہے ان کی گدائی کے حضور ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں   انکی چوکھٹ چوم کر خود کہہ رہی ہے سروری ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں   سروری خود ہے بھکارن بندگانِ شاہ کی ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں   سروری پاکر بھی کہتے ہیں گدایانِ حضور ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں   تاج خود را کاسہ کردہ...

ذوق طلب

گر ہمیں ذوقِ طلب سا رہنما ملتا نہیں راستہ ملتا نہیں اور مدعا ملتا نہیں   جھک کے مہر و ماہ گویا دے رہے ہیں یہ صدا دوسرا میں کوئی تم سا دُوسرا ملتا نہیں   اِبْتَغُوْا فرما کے گویا رب نے یہ فرمادیا بے وسیلہ نجدیو! ہر گز خدا ملتا نہیں   ان سے امید وفا اے دل محض بیکار ہے اہل دنیا سے محبت کا صلہ ملتا نہیں   کس نے تجھ سے کہہ دیا دل بے غرض آتے ہیں وہ بے غرض نادان کوئی بے وفا ملتا نہیں   دیکھتے ہی دیکھتے سب اپنے ب...

بندہ پرور ایڑیاں

عرش پر ہیں اُن کی ہر سو جلوہ گستر ایڑیاں گہہ بہ شکل بدر ہیں گہہ مہر انور ایڑیاں   میں فدا کیا خوب ہیں تسکین مضطر ایڑیاں روتی صورت کو ہنسا دیتی ہیں اکثر ایڑیاں   دافع ہر کرب و آفت ہیں وہ یاور ایڑیاں بندۂ عاصی پہ رحمت بندہ پرور ایڑیاں   غنچۂ امید ان کی دید کا ہوگا کبھی پھول کہ ہیں اب نظر میں ان کی خوشتر ایڑیاں   نور کے ٹکڑوں پہ ان کے بدر و اختر بھی فدا مرحبا کتنی ہیں پیاری ان کی دلبر ایڑیاں   یا خدا تا وق...

شمس و قمر کا جواب

تمہارے در پہ جو میں باریاب ہوجاؤں قسم خدا کی شہا کامیاب ہو جاؤں   جو پاؤں بوسۂ پائے حضور کیا کہنا میں ذرّہ شمس و قمر کا جواب ہو جاؤں   مری حقیقتِ فانی بھی کچھ حقیقت ہے مروں تو آج خیال اور خواب ہوجاؤں   جہاں کے قوس و قزح سے فریب کھائے کیوں میں اپنے قلب و نظر کا حجاب ہو جاؤں   جہاں کی بگڑی اسی آستاں پہ بنتی ہے میں کیوں نہ وقفِ درِ آنجناب ہو جاؤں   تمہارا نام لیا ہے تلاطمِ غم میں میں اب تو پار رسالت مآب ہو...

اپنے درپہ جو بلائو

اپنے در پہ جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو میری بگڑی جو بناؤ تو بہت اچھا ہو   قید شیطاں سے چھڑاؤ تو بہت اچھا ہو مجھ کو اپنا جو بناؤ تو بہت اچھا ہو   گردشِ دور نے پامال کیا مجھ کو حضور اپنے قدموں میں سلاؤ تو بہت اچھا ہو   یوں تو کہلاتا ہوں بندہ میں تمہارا لیکن اپنا کہہ کے جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو   غمِ پیہم سے یہ بستی مری ویران ہوئی دل میں اب خود کو بساؤ تو بہت اچھا ہو   کیف اس بادۂ گلنار سے ملتا ہی نہیں اپنی آنکھو...

عجب انجمن آرائی ہو

درِ جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو   تیری صورت جو تصوّر میں اُتر آئی ہو پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو   نیک ساعت سے اجل عیشِ ابد لائی ہو درِ جاناں پہ کوئی محوِ جبیں سائی ہو   سنگِ در پر ترے یوں ناصیہ فرسائی ہو خود کو بھولا ہوا جاناں ترا شیدائی ہو   خود بخود خلد وہاں کھنچ کے چلی آئی ہو دشتِ طیبہ میں جہاں بادیہ پیمائی ہو   موسمِ مے ہو وہ گیسو کی گھٹا چھائی ہو چشم ساقی سے پئ...