منظومات  

غم ہستی

جب کبھی ہم نے غمِ جاناں کو بھلایا ہوگا غمِ ہستی نے ہمیں خون رلایا ہوگا دامنِ دل جو سوئے یار کھنچا جاتا ہے ہو نہ ہو اس نے مجھے آج بلایا ہوگا آنکھ اٹھا کر تو ذرا دیکھ مرے دل کی طرف تیری یادوں کا چمن دل میں سجایا ہوگا گردشِ دور ہمیں چھیڑ نہ اتنا ورنہ اپنے نالوں سے ابھی حشر اٹھایا ہوگا ڈوب جائے نہ کہیں غم میں ہمارے عالم ہم جو رو دیں گے تو بہتا ہوا دریا ہوگا سوچئے کتنا حسیں ہوگا وہ لحظہ اخترؔؔ سرِ بالیں پہ دمِ مرگ وہ آیا ہوگا...

بزم یار کا عالم

نِت نئی ایک الجھن ہے اف غمِ روزگار کا عالم ہے کیف و مستی میں غرق یہ دنیا جانے کیا دل فگار کا عالم اے خدا تجھ پہ خوب ظاہر ہے ہے جو مجھ سوگوار کا عالم جانِ گلشن نے ہم سے منہ موڑا اب کہاں وہ بہار کا عالم اب کہاں وہ چھلکتے پیمانے اب کہاں وہ خمار کا عالم ہائے کیا ہوگیا گھڑی بھر میں وہ شکیب و قرار کا عالم دارِ فانی سے کیا غرض اس کو جس کا عالم قرار کا عالم اب وہ رنگینیاں نہیں یا رب کیا ہوا بزمِ یار کا عالم یاد آتا ہے وقتِ غم اخترؔ رخص...

فرشتے جس کے زائر ہیں

فرشتے جس کے زائر ہیں مدینے میں وہ تربت ہے یہ وہ تربت ہے جس کو عرشِ اعظم پر فضیلت ہے بھلا دشت مدینہ سے چمن کو کوئی نسبت ہے مدینے کی فضا رشک بہارِ باغِ جنت ہے مدینہ گر سلامت ہے تو پھر سب کچھ سلامت ہے خدا رکھے مدینے کو اسی کا دم غنیمت ہے مدینہ ایسا گلشن ہے جو ہر گلشن کی زینت ہے بہارِ باغِ جنت بھی مدینے کی بدولت ہے مدینہ چھوڑ کر سیر جناں کی کیا ضرورت ہے یہ جنت سے بھی بہتر ہے یہ جیتے جی کی جنت ہے ہمیں کیا حق تعالیٰ کو مدینے سے محبت ہے مدی...

اپنے یار کی باتیں

کچھ کریں اپنے یار کی باتیں کچھ دلِ داغدار کی باتیں ہم تو دل اپنا دے ہی بیٹھے ہیں اب یہ کیا اختیار کی باتیں میں بھی گزرا ہوں دورِ الفت سے مت سنا مجھ کو پیار کی باتیں اہل دل ہی یہاں نہیں کوئی کیا کریں حالِ زار کی باتیں پی کے جامِ محبتِ جاناں اللہ اللہ خمار کی باتیں مر نہ جانا متاعِ دنیا پر سن کے تو مالدار کی باتیں یوں نہ ہوتے اسیر ذلت تم سنتے گر ہوشیار کی باتیں ہر گھڑی وجد میں رہے اخترؔ کیجئے اس دیار کی باتیں ٭…٭…٭...

سب مدینے چلیں

تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں جانب طیبہ سب کے سفینے چلے میکشو! آئو آئو مدینے چلیں بادۂ خلد کے جام پینے چلیں جی گئے وہ مدینے میں جو مرگئے آئو ہم بھی وہاں مر کے جینے چلیں زندگی اب سرِ زندگی آگئی آخری وقت ہے اب مدینے چلیں شوقِ طیبہ نے جس دم سہارا دیا چل دئیے ہم کہا بے کسی نے چلیں طائرِ جاں مدینے کو جب اُڑ چلا زندگی سے کہا زندگی نے چلیں جانِ نو راہِ جاناں میں یوں مل گئی آنکھ میچی کہا بے خودی نے چلیں راہِ طیبہ میں جب ناتواں رہ گئے دل ...

شمیم زلف نبی

شمیم زلفِ نبی لا صبا مدینے سے مریضِ ہجر کو لا کر سونگھا مدینے سے یہ آرہی ہے مرے دل! صدا مدینے سے ہر ایک دکھ کی ملے گی دوا مدینہ سے مدینہ کہتا ہے ہمدم نہ جا مدینے سے تجھے ہے عیشِ ابد کی صلا مدینہ سے نسیمِ مست چلے دلربا مدینے سے بہار دل میں بسے دل کشا مدینے سے نسیمِ مست چلے دلربا مدینے سے بہار و باغ بنے دل مرا مدینے سے اٹھائو بادہ کشو! ساغرِ شرابِ کہن وہ دیکھو جھوم کے آئی گھٹا مدینے سے مدینہ جانِ جنان و جہاں ہے وہ سن لیں جنہیں جنونِ ...

مری چشم کان گہر ہورہی ہے

نظر پہ کسی کی نظر ہو رہی ہے مری چشم کانِ گہر ہو رہی ہے مرے خفیہ نالوں کو وہ سن رہے ہیں عنایت کسی کی ادھر ہو رہی ہے وہ طیبہ میں مجھ کو طلب کر رہے ہیں طلب میری اب معتبر ہو رہی ہے ہوا طالبِ طیبہ مطلوبِ طیبہ طلب تیری اے منتظر ہو رہی ہے مدینے میں ہوں اور پچھلا پہر ہے شبِ زندگی کی سحر ہو رہی ہے نئی زندگی کی وہ مے دے رہے ہیں مری زندگانی امر ہو رہی ہے مدینے سے میری بلا جائے اخترؔؔ مری زندگی وقفِ در ہو رہی ہے...

چشم التفات

جو ان کی طرف مری چشم التفات نہیں کوئی یہ ان سے کہے چین ساری رات نہیں بجز نگاہِ کرم کے تو کچھ نہیں مانگا بگڑتے کیوں ہو بگڑنے کی کوئی بات نہیں بہت ہیں جینے کے انداز پر مرے ہمدم مزہ نہ ہو جو خودی کا تو کچھ حیات نہیں بوقت نزع یاں للچا کے دیکھتا کیا ہے یہ دارِفانی ہے راہی اسے ثبات نہیں اٹھا جو اخترؔ خستہ جہاں سے کیا غم ہے مجھے بتائو عزیزو! کسے ممات نہیں...

امید وفا

میری میت پہ یہ احباب کا ماتم کیا ہے شور کیسا ہے یہ اور زاریٔ پیہم کیا ہے وائے حسرت دم آخر بھی نہ آکر پوچھا مدعا کچھ تو بتا دیدۂ پر نم کیا ہے کچھ بگڑتا تو نہیں موت سے اپنی یارو ہم صفیرانِ گلستاں نہ رہے ہم کیا ہے ان خیالات میں گم تھا کہ جھنجھوڑا مجھ کو ایک انجانی سی آواز نے اک دم کیا ہے کون ہوتا ہے مصیبت میں شریک و ہمدم ہوش میں آ یہ نشہ سا تجھے ہر دم کیا ہے کیف و مستی میں یہ مدہوش زمانے والے خاک جانیں غم و آلام کا عالم کیا ہے ان سے ا...

لب جاں بخش

لبِ جاں بخش کا اے جاں مجھے صدقہ دیدو مژدۂ عیشِ ابد جانِ مسیحا دے دو غمِ ہستی کا مداوا مرے مولیٰ دے دو بادۂ خاص کا اک جام چھلکتا دے دو غرق ہوتی ہوئی ناؤ کو سہارا دے دو موج تھم جائے خدارا یہ اشارہ دے دو ہم گنہگار سہی حضرتِ رضواں لیکن ان کے بندے ہیں جناں حق ہے ہمارا دیدو تپش مہرِ قیامت کو سہیں ہم کیسے اپنے دامانِ کرم کا ہمیں سایہ دے دو بھول جائے جسے پی کر غم دوراں اخترؔ ساقیٔ کوثر و تسنیم وہ صہبا دے دو...