منظومات  

اشکوں کا دریا

در منقبت حضور مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ -------------- چل دیئے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر رنج فرقت کا ہر اک سینہ میں شعلہ چھوڑ کر   لذت مے لے گیا وہ جام و مینا چھوڑ کر میرا ساقی چل دیا خود مے کو تشنہ چھوڑ کر   ہر جگر میں درد اپنا میٹھا میٹھا چھوڑ کر چل دیئے وہ دل میں اپنا نقش والا چھوڑ کر   جامۂ مشکیں لئے عرشِ معلی چھوڑ کر فرش پر آئے فرشتے بزمِ بالا چھوڑ کر   عالمِ بالا میں ہر سو مرحبا کی گونج تھی چل دیئے...

زینت سجادہ و بزم قضا

در منقبت حضور مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ ------------------ زینتِ سجادہ و بزم قضا ملتا نہیں لعلِ یکتائے شہ احمد رضا ملتا نہیں   وہ جو اپنے دور کا صدیق تھا ملتا نہیں محرمِ راز محمد مصطفی ملتا نہیں   اب چراغِ دل جلا کر ہوسکے تو ڈھونڈیئے پَر توِ غوث و رضا و مصطفیٰ ملتا نہیں   عالمِ سوزِدروں کس سے کہوں کس سے کہوں چارہ سازِ دردِ دل درد آشنا ملتا نہیں   عالموں کا معتبر وہ پیشوا ملتا نہیں جو مجسم علم تھا وہ کیا ہوا ملتا ...

جان بہاراں

شہنشاہِ دو عالم کا کرم ہے مرے دل کو میسر اُن کا غم ہے   یہیں رہتے ہیں وہ جانِ بہاراں یہ دنیا دل کی رشک صد ارم ہے   بھلا دعوے ہیں ان سے ہمسری کے سر عرشِ بریں جن کا قدم ہے   یہ دربارِ نبی ہے جس کے آگے نہ جانے عرشِ اعظم کب سے خم ہے   ترس کھائو میری تشنہ لبی پر مری پیاس اور اک جام؟ کم ہے   دلِ بیتاب کو بہلائوں کیسے بڑھے گی اور بے تابی ستم ہے   یہاں قابو میں رکھیے دل کو اخترؔ یہ دربار شہنشاہِ امم ہے...

مصطفیٰ حیدر حسن

در شان حضرت احسن العلماء مارہروی علیہ الرحمہ ------------------------ حق پسند و حق نوا و حق نما ملتا نہیں مصطفیٰ حیدر حسن کا آئینہ ملتا نہیں   خوبصورت ، خوب سیرت ، وہ امینِ مجتبیٰ اشرف و افضل ، نجیبِ زہرہ ملتا نہیں   خوش بیاں و خوشنوا و خوش ادا ملتا نہیں جو مجسم حسن تھا وہ کیا ہوا ملتا نہیں   خوش بیاں و خوشنوا و خوش ادا ملتا نہیں دل نوازی کرنے والا دلربا ملتا نہیں   پیکرِ صدق و صفا وہ شمعِ راہِ مصطفیٰ جو مجسم ...

نقیب اعلیٰ حضرت

اے نقیبِ اعلیٰ حضرت مظہر حیدر حسن اے بہارِ باغِ زہرا میرے برکاتی چمن   اے تماشاگاہِ عالم چہرۂ تابانِ تو تو کجا بہر تماشا می روی قربانِ تو   استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا حسن اشرف و افضل نجیب و عترتِ زہرا حسن   طورِ عرفان و علو و حمد و حسنیٰ و بہا زندہ باد اے پر تو موسیٰ و عکسِ مصطفیٰ   عالمِ سوزِدروں کس سے کہوں کس سے کہوں دل شدہ زارِ چناں و جاں شدہ زیرِ چنوں   تھا جو اپنے درد کی حکمی دوا ملتا نہیں چارہ...

تاروں کی انجمن

تاروں کی انجمن میں یہ بات ہو رہی ہے مرکز تجلیوں کا خاک درِ نبی ہے   ذرے یہ کہہ رہے ہیں، اس نور کے قدم سے یہ آب و تاب لے کر ہم نے جہاں کو دی ہے   یکتا ہیں جس طرح وہ ہے ان کا غم بھی یکتا خوش ہوں کہ مجھ کو دولت انمول مل گئی ہے   پھر کیوں کہوں پریشاں ہو کر بقول شخصے یکتا کے غم میں اب بھی بے کیف زندگی ہے...

ہائے تڑپاتا ہے دل

منقبت شریف بموقع وصال حضرت والد ماجد مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ ---------------------------------- کس کے غم میں ہائے تڑپاتا ہے دل اور کچھ زیادہ امنڈ آتا ہے دل   دل ترا ہرگز بہلنے کا نہیں تو عبث بیمار بہلاتا ہے دل   ہائے دل کا آسرا ہی چل بسا ٹکڑے ٹکڑے اب ہوا جاتا ہے دل   کون جانے رازِ محبوب و محب کیوں لیا جاتا دیا جاتا ہے دل   جاں بحق تسلیم ہو جانا ترا یاد کر کے میرا بھر آتا ہے دل   اے تعالیٰ اللہ شانِ او...

اے نسیم کوئے جاناں

ترے دامن کرم میں جسے نیند آگئی ہے جو فنا نہ ہوگی ایسی اسے زندگی ملی   مجھے کیا پڑی کسی سے کروں عرض مدعا میں مری لو تو بس انہیں کے درِ جود سے لگی ہے   وہ جہان بھر کے داتا مجھے پھیردیں گے خالی؟ مری توبہ اے خدایہ مرے نفس کی بدی ہے   جو پئے سوال آئے مجھے دیکھ کر یہ بولے! اسے چین سے سلائو کے یہ بندۂ نبی ہے   میں مروں تو میرے مولیٰ یہ ملائکہ سے کہہ دیں کوئی اس کو مت جگانا ابھی آنکھ لگ گئی ہے   میں گناہ گارہوں ...

شاہ جیلانی میاں

منقبت بسلسلۂ وصال حضرت والد ماجد قدس سرہ العزیز --------------------------- حامیٔ دین ہدیٰ تھے شاہ جیلانی میاں بالیقیں مردِ خدا تھے شاہ جیلانی میاں   مثلِ گل ہنگامِ رخصت مسکراتے ہی رہے پیکرِ صبر و رضا تھے شاہ جیلانی میاں   چل بسے ہم کو دکھا کر راہ سیدھی خلد کی دینِ حق کے رہنما تھے شاہ جیلانی میاں   ہجر کی نہ لائے تاب آخرش جاہی ملے عاشق خیرالوریٰ تھے شاہ جیلانی میاں   ان کے ہر ارشاد سے ہر دل کی ہوتی تھی جلا مظ...

فرقت طیبہ

فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے میں مدینے کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے   دل میں حسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے راہِ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے   میرے دن پھر جائیں یا رب شب وہ آئے خیر سے دل میں جب ماہِ مدینہ گھر بنائے خیر سے   رات میری دن بنے ان کی لقائے خیر سے قبر میں جب ان کی طلعت جگمگائے خیر سے   ہیں غنی کے در پہ ہم بستر جمائے خیر سے خیر کے طالب کہاں جائیں گے جائے خیر سے   وہ خرامِ ناز فرمائ...