عرشِ ناز  

نکل چکے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے

غزل  بہ عنوان ِ یادِ ماضی

نکل چکے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے
بساطِ بزم اُلٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سُبُو چُپ، اُداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے
بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے
ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
 قدم اٹھائے بہ اندازِ موج، دریا نے
تمام شہر میں اک درد آشنا نہ مِلا
بسائے اِس لئے اہلِ جُنوں نے ویرانے
نہ اب وہ جلوۂ  یُوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حُسن کے تیور، نہ اب وہ دیوانے
نہ حرف ِحق، نہ وہ منصور  کی زباں، نہ وہ دار
نہ کربلا، نہ وہ کٹتے سَروں کے نذارانے
نہ بایزید﷫، نہ شبلی﷫، نہ اَب جنید﷫ کوئی
نہ اَب وہ سوز ، نہ آئیں، نہ ہاؤ ہُو خانے
خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصّے نہ اب وہ افسانے
نہ قدر داں، نہ کوئی ہم زباں، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے
بدل گئے ہیں تقاضے مزاج وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب، نہ ساقی، نہ اَب وہ میخانے
تمام بند جُنوں توڑ بھی کیا، لیکن
اَنّا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے
یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
اُلجھ رہے ہیں غم زندگی سے دیوانے
ہرایک اپنے ہی سُودو زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو، جو مرے دل کا درد پہچانے
ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے
وہی ہجوم، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ، وہی مستی، وہی  طرب خانے
جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے
اُٹھیں گے پی کےتری می نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے
ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لَو پہ لپکتے رہیں گے پروانے
کوئی نشاط کا ساماں، کوئی طرب کی سبیل
لگی ہیں پھر سر میخانہ بدلیاں چھانے
تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبض میخانہ
تُو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پیمانے
یہ مستیاں نہیں جام و سسُبُو کے حصّے میں
تری نگاہ سے پیتے ہیں تیرے دیوانے
نصؔیر! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر، وہ کوئی کیا جانے
(عرش ِ ناز)

...

حسیں، جمیل و شرمگیں جبین ِ لالہ زار ہے

بہاریہ


حسیں، جمیل و شرمگیں جبین ِ لالہ زار ہے
فضا  فضا ادا ادا طلسمِ زر نگار ہے
طلسمِ زر نگار پر جمی ہوئی ہے ہر نظر
زہے جمالِ معتبر شباب ہے، نکھار ہے
جمال ہے فسوں ادا شباب، سحرِ بر ملا
نفس نفس ہے دل فدا نظر نظر نثار ہے
نظر نظر کی جستجو قدم قدم پہ سُر خرو
نشاطِ کیفِ رنگ و بُو، سکون ہے قرار ہے
سکونِ دل قرارِ جاں میں رنگ ہیں عجب عجب
کہ دیکھ دیکھ کر جنہیں سحر بھی شرمسار ہے
روش روش پہ صف بہ صف کِھلے ہیں پھول ہر طرف
شجر شجر ہے زر بکف کلی کلی بہار ہے
یہ چاندنی وہ نسترن یہ روشنی وہ بانکپن
ہر ایک نور پیرہن غریب دل شکار ہے
نہ ہوش ہے اکاس میں نہ سرو ہیں حواس میں
ہرے ہرے لباس میں جہانِ سبزہ زار ہے
نہال صورتِ عروس ہیں شریکِ سر خوشی
مزے اڑاؤں کیوں نہ می رواں ہر آبشار ہے
یہ قمریوں کے دلولے یہ چہچہے یہ قہقہے
یہ خوش سماں یہ زمزمے نظامِ کرد گار ہے
جگہ جگہ خود آپ ہی رواں ہے جُوئے شِیر بھی
نہ کوہ کَن یہاں کوئی، نہ کوئی کوہسار ہے
فنا فنا ملال و غم کدورتوں کے سر قلم
نہ گرد شاملِ قدم نہ راہ پر غبار ہے
زہے مذاقِ سوزِ دل زہے کمالِ آب و گل
زہے مزاجِ مشتعل شرر فشاں چنار ہے
چنار میں یہ سوزِ تن  یہ آتش آفریں لگن
شعاع مہر خندہ زن قطار در قطار ہے
بڑھی ہوئی ہیں فرحتیں مِٹی ہوئی ہیں کلفتیں
یہ رونقیں یہ نُزہستیں سحاب مشک بار ہے
خزاں پہ اوس پڑگیٔ، لُٹی مِٹی، اُجڑ گئی
بہار دستِ قدرتِ خدا کا شاہکار ہے
ہے بُوئے  گل طرب فزا ہے جوشِ مُل کی انتہا
بیا بیا کہ ساقیا ترا ہی انتظار ہے
ترنگ ہے اُمنگ میں اُمنگ ہے ترنگ میں
صدا رَباب و چنگ میں سکوں سے ہمکنار ہے
یہ مطربانِ خوش گُلو یہ دلنواز آبِ جو
بہ قدرِ شوق و آرزو نوا بلب ہزار ہے
تہِ فلک زمین پرسجی ہے بزم طرفہ تر
عیاں نہاں اِدھر اُدھر تمام نور و نار ہے
اِس انجمن کی روح تُو تجھی سے اِس کی آبرو
ترے ہی دم سے چار سُو بہار ہے وقار ہے
چراغ کی ضیاتُہی ضیا کی ہر ادا تُہی
دلوں کا مدّعا تُہی، تجھے ہر اختیار ہے
تجھے ہیں اختیار سب دلوں میں ہے ترے طلب
زمانے بھر میں روز و شب تُہی تو جلوہ کار ہے
شعور تُو شباب تُو سُرور تُو  شراب تُو
اگر ہو بے نقاب تُو برق ہے شرار ہے
یہ برق یہ شرار کیا عطا تری، کرم ترا
فرازِ طور ریزہ ریزہ ہو کے پُر وقار ہے
قدح میں آب کچھ نہیں سبو کا خواب کچھ نہیں
شرابِ ناب کچھ نہیں کسے یہ ساز گار ہے
سوالِ مے غلط غلط خیالِ مے غلط غلط
جمالِ مے غلط غلط جمالِ مے، خمار ہے
نہ کم زیادہ چاہیے نہ سادہ سادہ چاہیے
وہ روحِ بادہ چاہیے جو روحِ حُسنِ یار ہے
نہیں نہیں کا طول ضد، نہیں کی ہے فضول ضد
نہیں کی بے حصول ضد، نہیں کا لفظ خار ہے
نظر ملا، ملا نظر کہ روح کو سکوں ملے
مجھے پلا، مجھے پلا کہ دل کو اضطرار ہے
بسا بھی دے مکانِ دل عطا ہو لطف ِ مستقل
بہت زیادہ مضمحل مشامِ جانِ زار ہے
نظر ملے نظر سے جب تو میں کہوں بصد ادب
یہی ہیں میرے روزو و شب یہی مری پکار ہے
دل و نظر یہ چھائے جا، لنڈھائے ،جا لنڈھائے جا
پلائے جا، پلائے جا، بہار ہے، بہار ہے
ورق ورق ورق ورق یہی ہے اب مرا سبق
نہ یہ الم نہ وہ قلق نہ کوئی خلفشار ہے
مدام یوں پیوں گا میں  یہ چاکِ دل سیوں گامیں
پیوں گا میں جیوں گا میں یہی مرا شعار ہے
سَحر کاسِحر بھی مجھے اسیرِ دام کیوں کرے
غرض نہیں فرار سے کہاں رہِ فرار ہے
گرفتِ فطرتِ حسیں کوئی مذاق تو نہیں
عجب جنوں ہے دلنشیں عجیب دُھن سوار ہے
قدم اٹھاؤں کس طرح نکل کے جاؤں کس طرح
رہائی پاؤں کس طرح کہ عشق اک حصار ہے
یہ مہ وشی، یہ چاندنی، یہ سادگی، یہ دلبری
یہ ناز کی، یہ تازگی، نشاطِ روزگار ہے
یہ شبنم اور تابشیں یہ تابشوں سے رونقیں
برس رہی ہیں نکہتیں پھوار ہی پھوار ہے
سرورِ جاں ہے بُوئے گل نشاط ِ دل ہے رنگ ِ مُل
سرورِ کُل نشاطِ کُل نفس نفس کا تار ہے
نفس نفس کے تار کی ہے دم بہ دم صدا یہی
گواہ ہے کلی کلی بہار پائدار ہے
اِدھر اُدھر یہاں وہاں نئے ہیں ڈھب نیا سماں
کمال ِ فنِّ باٖغباں نظامِ شاخسار ہے
خزاں کی فتنہ جُو ہوا چلے توباغ میں ذرا
ہر ایک موجِ فصل گُل، ادائے ذُوالفقار ہے
یہ اہتمام ِ انجمن، یہ انصرام ِ انجمن
یہ صبح و شامِ انجمن، خوشی کا اشتہار ہے
نمائشوں کی دل کشی نہ کائنات گن سکی
گنے گا کیا بھلا کوئی عبث غمِ شمار ہے
زمانہ دیکھ دیکھ کر ہُوا ہے محوِ بام و در
ہر ایک سمت رونقیں  ہیں، رنگ ہے، نکھار ہے
ہے میرے ذوق و شوق کی تمام زندگی یہی
مرے لیے یہ زندگی حسین و خوشگوار ہے
یہ جتنے رخ ہیں جلوہ گر دوام اِنہیں ہے سر بہ سر
کسی کو ہو نہ ہو مگر، مجھے تو اعتبار  ہے
گُماں کے غم سہے کوئی شکوک میں رہے کوئی
نؔصیر کچھ کہے کوئی بہار پھر بہار ہے
(عرشِ ناز)

...

طلوعِ مہر سے دامانِ شب ہُوا زرتار

قصیدۂ رزمیہ در مدحِ عراق

 

ہوسکتا ہے بعض لوگوں کو صدر صدّام سے کسی قسم کا اختلاف ہو، مگر میں نے یہ اشعار صرف اس لئے کہے تھے کہ اُس وقت صدر صدّام نے امریکہ کے مقابلے میں ثبوت دیا۔ اُن کی اس جرأت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بغداد شریف، کر بلائے معلیٰ اور نجف اشرف میں مدفون ہستیوں کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی کیو نکہ سر زمینِ عراق ہماری عقیدتوں اور محبّتوں کا مرجع بھی ہے۔

 

طلوعِ مہر سے دامانِ شب ہُوا زرتار
مگر ہے بار نگاہوں پہ صبح کا اَخبار
ورق ورق پہ جمی سُرخیاں لہو کی ہیں
سیاہ پوش ہر اک سطر مثلِ ماتم دار
جھلک ہے کرے ہوئے آنسوؤں کی لفظوں میں
ہر ایک حرفِ کشیدہ بنا لہو کی پُھوار
اجل گرفتہ کی گردن میں جیسے طوقِ رَسن
یہ دائرے ہیں کہ حلقے بہ دیدۂ بیمار
کوئی بتاؤ سحر اِس قدر اداس ہے کیوں
کوئی تو بولے کہ کیا مجھ کو ہوگیا یکبار
صدا یہ آئی کہ شاید سُنی نہیں تُو نے
جو رزم گہہ سے چلی آرہی ہے چیخ، پکار
چمک رہی ہے غریبوں کے سر پہ برقِ ستم
خدا بنے  ہوئے بیٹھے ہیں آج دنیا دار
بنے امیر ضعیفوں کو لوٹ کر ظالم
کہ سَر اٹھاتا ہے تنکوں کے سر پہ شعلۂ نار
بہم گلے سے ملے ہیں یہود و آلِ سعود
خدا کی شان کہ یکجا ہیں آج لیل و نہار
وہ شہر جن کی ہوائیں تھی کل حیات افزا
بنے ہوئے ہیں وہی آج بیکسی کا مزار
حسین﷜ ہوں کہ وہ پیر﷜ہوں کہ علی ﷜
وہ کربلا ہو کہ بغداد یا نجف کا دیار
حیات میں بھی رہے  مورِدِ غم و آلام
بموں کی زد میں پسِ زیست بھی ہیں اِن کے مزار
عراق ! اے چمنستانِ اولیائے کِبار
تری زمین کے ذرّے ہیں رُوکشِ اقمار
سلام تجھ پہ ہو اے مادرِ زمینِ فرات
کہ تیری کوکھ نے پیدا کیے بڑے شہکار
ہیں تیری خاک میں مدفون کتنی تہذیبیں
تری نگاہ سے گزرے ہیں سینکڑوں ادوار
میں اِس لیے تری عظمت کو بھیجتا ہُوں سلام
کہ تُو ہے مولدِ اقطاب و مدفن ِ اخیار
وہ آفتاب تری گود میں ہیں خوابیدہ
ضیا نواز رہی جن کی ذات، سلسلہ وار
ہوئی حیات بسر جن کی علم و عرفاں میں
جو یاد حق میں رہے بِالعَشیِّ و الاِبکار
ائمّۂ و علماء و مشائخ و فُقہاء
عوارف و صُلحاء و عوابد و اَبرار
حسین﷜ و کاظم﷜ و عباس﷜ و حیدر﷜ و مسلم﷜
ابو حنیفہ﷫ و حلاج﷫ و یوسف﷫ و قصار﷫
جنید﷫ و سِقطی﷫، و معروف﷫ و ادھم﷫ و احمد﷫
شہاب﷫ و شبلی﷫ و پیرانِ پیر﷫ قطب مدار
لکھے ہیں کلکِ بقانے ترے نقوش جلی
مناسکے گا نہ دستِ ستم ترے آثار
خدا کرے کر نہ اُجڑیں تری بھری گلیاں
خدا کرے کبھی سُونے نہ ہوں ترے بازار
نہ چُھو سکے ترا آنچل کسی یزید کا ہاتھ
کھڑا رہے ترے سر پر حسین﷜ بَن کے حصار
کسی شگفتہ کلی کو بُری نظر نہ لگے
نصیب ہو تجھے بچّوں کا یہ بھرا گھر بار
خدا کرے کہ سلامت رہے ترا ہر شہر
بموں کی زد میں نہ آئیں ترے در و دیوار
سُکھی رہیں ترے اپنے دُکھی رہیں دشمن
جمی رہے تری محفل، سجا رہے دربار
خود اپنی آگ میں جل کر رہی راکھ ہوجائے
نہ کار گر ترے دشمن کا تجھ کا پہ ہو کوئی وار
وہ مردِ حق، وہ جری، نام جس کا ہے صدّام
وہ آسمان ِ شجاعت کا مہرِ پُر  انوار
جو آفتاب کی صورت طلوع ہوتے ہیں
ہمیشہ رہتی ہیں تنہائیاں اُنِہیں کا شعار
ہجوم غیر سے سورج کو اِس لیے نہیں ربط
کہ ہے وہ اپنے ہجومِ وجود سے دوچار
جو تُو زمیں پہ، تو سورج فلک پہ ہے تنہا
نہیں یہ امر کسی کی نظر میں باعث عار
تُو رہ گیا ہے اکیلا اگر، تو غم کیا ہے
قوی ہیں نصرتِ حق سے ترے یمین ویسار
یہ مصلحت ہے کہ امتحانِ فطرتِ گُل
کہ اِس کے پہلو میں رکّھا گیا ہے لشکرِ خار
عظیم لوگوں کے ہوتے ہیں امتحاں بھی عظیم
صلاحیت کے مطابق دیئے گئے کردار
ہزار کانٹوں پہ بھاری ہے ایک ریشۂ گُل
نہیں ہے فتح کا کثرت پہ صرف دارومدار
زباں درازئ اعداء سے مضمحل مت ہو
کہ چوٹ کھاتے ہیں پتّھر کی باثمر اشجار
حسد، دلیل ہے محسود کے مدارج کی
عیاں نمودِ خزاں سے ہُوا وجودِ بہار
نہ ہوں صفات تو ممکن نہیں حسد کا عمل
کُھلا حسد سے کہ ہیں خفیہ معترف، اغیار
دعائیں تیرے لیے کر رہا  ہوں مدّت سے
مَیں روز پڑھ کے وَمِن شَرِ حَاسِدٍ  ۱۰۰سوبار
ہوئے ہیں ذہن منوّر ترے تصوّر  سے
ترے خیال نے دل کر دیئے گُل و گُلزار
ترا وجود غنیمت ہے دوستوں کے لئے
ترا حُضُور ہے دشمن کے سر پر اک تلوار
ہوئے ہیں آج صف آرا جو مل کے حق کے خلاف
فرنگیوں پہ خدا کا  غضب، خدا کی مار
ترے جلال سے خائف ہُوا ترا دشمن
لرز اُٹھا تری تدبیر سے دل اشرار
خدا کے قہر کی تصویر ہے غضب تیرا
ہوئے ہیں ایک تری ضرب سے کئی، فی النّار
نہ ہو ملول مصائب کے گُھپ اندھیرے میں
سَحَر کرے گا  شبِ غم کی فالق الاَسحار
نہیں مصائب و غم مرد کے لئے توہین
کہ تھی رسول ﷺ کی مکّی حیات بھی دشوار
جگا رہی ہے مسلماں کی خُفتہ غیرت کو
تری نوا، تری لشکر کشی، تری   لشکر کَشی ، تری للکار
تمیز، امرِ ضروری ہے حقّ و باطل میں
یہی مقامِ تدبّر ہے یا اُولی الاَبصار
رہا نہ دین تو کیوں کر رہیں گے دنیا میں
یہ ولولہ، یہ مُصلّیٰ، یہ مسجدیں، یہ مزار
ہے اہلِ دیں سے تعاون، علامتِ ایماں
نہیں ہے کفر سے کچھ کم، حمایتِ کُفّار
دلیل سورۂ توبہ کی روشن آیت ہے
کہا خدا نے نبی ﷺ سے کہ جَاھِدِ الْکُفّار
کٹھن نہیں کسی دشمن سے دوستی کرنا
علاج کیا ہو، جو بن جائیں دوست ہی غدار
جو کام آئے اَڑے وقت میں، وہ ہے ساتھی
ثبوت ہے مرے دعویٰ  کا اِذْھُمَا فِی الغَار
وہ کم  نظر  ہیں جو طاقت کا ساتھ دیتے ہیں
وہ مرد ہیں کہ جو کہتے ہیں حرفِ حق سرِدار
خبر ہو خاک اُنہیں حرفِ حق کے اِعلاء کی
وہ خود فروش، جو ہیں ابنِ دِرہم، وہ دینار
بنامِ امن جو خَلقِ خدا کے قاتل ہیں
معاف کر نہیں سکتا اُنہیں صحیفہ نگار
یہ بات سچ ہے کہ تیری نبرد کاری نے
نکلال دی ہے دماغوں سے بادِ استکبار
بہ زَعمِ خویش سمجھتے تھے جو خُدا خود کو
اُتر رہا  ہے خدائی کا اُن کے سر سے خُمار
نہ ہو اَداس  فلسطیں کی اے فَسُردہ زمیں!
کہ آرہا ہے تری سَمت کاروان بہار
خدا ہی ہے کہ جو دے فتح حق کو، باطل پر
کہ اک طرف ہیں مسلماں تو اک طرف فُجّار
حسد کی آگ میں جلتے رہیں یُونہی حاسد
خدا کرے کہ بڑھے اور تیرا عزّ و وقار
نَفَس نَفَس میں رہے حُبِّ مصطفی ﷺٰ کی مہک
دُعا یہی ہے کہ ہو خاتمہ معَ الاَبرار
خدا کرے تری قسمت میں ہو نویدِ ظفر
طفیلِ سیّدِ کونین و اٰلِہٖ الاَالطہَار
ترے سخن سے بھی صدّامیت جھلکتی ہے
نصؔیر! تجھ کو مبارَک ! یہ جرأت ِ اظہار
(عرشِ ناز)

...

یاد ہے اب تک مجھے وہ زندگی کی سرد شام

آزاد نظم

 

یاد ہے اب تک مجھے وہ زندگی کی سرد شام
ادھ جلے پیڑوں کے پیچھے  چاند گہنایا ہُوا
سرد بر فیلی ہُوا
پیڑ، جیسے تھر تھراتے جسم
اور ہر جھونکے پہ اُکھڑی اُکھڑی سانسوں کا گماں
اک قیامت کا سماں!
اور جیسے میں بھی اک آوارہ جونکے کی طرح
اِس فضا پرچھا گیا!
اور پھر اک بار وہ سرما کا سورج
تیز کرنوں کو جِلو میں لے کے نکلا شرق سے
لمحہ لمحہ سرخ لاوے کی طرح
پھیلتا، بڑھتا ہوا!
کونپلیں پھوٹیں تو دُلہن کی طرح سجنے لگا ہر شا خسار
ہر روش پر اک بہار
کاروانِ شوق اک  منزل پر آکر رُک گیا!
چُپکے چُپکے پھر وہی بر فیلی راتوں کے قدم
وادیوں نے کو ہساروں نےسُنی اُن کی دھمک
یُورشِ دورِ خزاں کو بادوباراں کی کُمک
اور پھر آنکھوں نے دیکھا
پتّہ پتّہ ٹُوٹ کر بکھر ہُوا ہے خاک پر
پھول مرُجھانے لگے
ننگی شاخوں نے فضا کو اور ویراں کردیا
سرد راتیں  اور اُس کے بعد چمکیلی سحر
موسمِ گُل اور پھر فصلِ خزاں
زندگی کے راز ِ سر بستہ کی ہیں مُہلک خبر!

واضح ہو کہ یہ نظم بعض احباب کے اصرار پر کہی  گئی ورنہ مانیودیم بدیں مرتبہ راضی غاؔلب      (نصؔیر)

(عرشِ ناز)

...

اے خرد! صبحِ ادب فخرِ سخن، نازِ قلم

عظمت ِ عقلی انسانی

 

اے خرد! صبحِ ادب فخرِ سخن، نازِ قلم
غازۂ چہرۂ قرطاس و نگارِ عالم
فخرِ اسکندر و دارا و کے و خسرو وجم
ناقد و نکتہ ور و مدرک ِ اسرار ِ قِدَم
شوق کو رنگ دیا، ذوق نکھارا تُو نے
گیسوئے لیلیِ فطرت کو سنورا تُو نے
تیرے دم سے ہے گلستانِ تخیّل میں بہار
تیرے جلوے سے ہوئے دشت و بیاباں گلزار
تجھ سے ہے زمزمہ و نغمہ و گلبانگِ ہزار
تُو  نہ ہو جلوہ فروزاں تو ہے انساں بے کار
کون ایسا ہے کہ جس پر ترا احسان نہیں
تجھ سے پھر جائے جو انسان وہ انسان نہیں
علمِ دیں علم ِ یقیں، علمِ فلک علمِ کتاب
موجِ گُل، موجِ صبا، موجِ طرب، موجِ شراب
ذوقِ دل، ذوق ِ نظر، ذوقِ طلب، ذوقِ شباب
حسنِ ظن، حسنِ گماں حسن ِ بیاں حسنِ خطاب
اِن کے اسرار بتائے تو بتائے تُو نے
یہ حجابات اٹھائے تو اٹھائے تُو نے
تیرا ظاہر ترے باطن کی طرح ہے بے داغ
جستجو سے تری ملتا ہے حقیقت کا سراغ
تو جلاتی ہے جہالت کے اندھیروں میں چراغ
تیرا ممنونِ عنایت ہے انساں کا دماغ
رازِ سر بستہ بہ صد ناز وادا کھول دیئے
تُو نے انسان پہ دَربائے بقا کھول دیئے
بزمِ غم، بزمِ طرب، بزمِ فنا، بزمِ بقا
رنگِ گُل ، رنگِ چمن ، رنگِ وفا، رنگِ جفا
صدقِ دل، صدقِ طلب، صدقِ نظر، صدقِ دعا
تیرے ہی دم سے اِن الفاظ کو مفہوم ملا
حضرتِ حق میں بہ جز تیرے نیازیں بے سُود
تُو نہ یاور ہو تو واعظ کی نمازیں بے سُود
شاعر و فلسفی و شاہ حکیم و قاضی
حافظ و محتسب و میر و خطیب و قاری
مطرب و ساقی و سلطان و گدا صوفی
مفتی و حاکم واستاذ و ادیب و ہادی
سب ترے لطف و عنایات سے فرزانے ہیں
تُو اگر اِن سے بچھڑجائے، یہ دیوانے ہیں
یہ ترنّم، یہ تکلّم، یہ تبسّم، یہ سُرور
یہ تجسّس، یہ تفحّص، یہ تفکّر، یہ شعور
یہ فلک بوس عمارات، یہ ایواں، یہ قُصور
یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ قوانی، یہ بُحور
بابِ ادراک ہر انسان پہ وا کرتی ہے
قلب کو دولت ِ احساس عطا کرتی ہے
جھولیاں گوہرِ اسرار سے بھر دیتی ہے
ذہن کو راستہ، دیوار کو در دیتی ہے
طائرِ فکر کو الفاظ کے پر دیتی ہے
تو غنی بندۂ محتاج کو کر دیتی ہے
تُو تفکّر ہے، تدبّر ہے، ذہانت تُو ہے
ہم کو خالق سے ملی ہے جو امانت، تُو ہے
تُو زماں اور مکاں، گردشِ دوراں تُو ہے
دیدۂ  مہرِ ضیا بار میں رخشاں تُو ہے
زیورِ نازِ بہتاں، زینتِ خوباں تُو ہے
جامِ لبریز میں رقصندہ و رقصاں تُو ہے
چرخ درباں ہے ترے در پہ زمیں جھکتی ہے
تیری سرکار میں شاہوں کی جبیں جھکتی ہے
تجھ سے ہی اہلِ تدبّر کی فراست کا بھرم
تیرے ہی دم سے ہے دارائیِ اربابِ قلم
صفحۂ دہر پہ ہیں تیری عنایات رقم
عالمِ غیب کا جُنباں ہے ترے سر پہ علم
بات بنتی ہے ترے فیض سے انسانوں کی
سانس رکتی ہے تیرے نام سے طوفانوں کی
تجھ  سے ملتی ہے اساطیر سے انساں کو نجات
تُو عطا کرتی ہے گنجینۂ اسرار و نکات
پردۂ غیب تو  ہے اک ترے خیمے کی قناعت
تجھ سے کھلتا ہے درِ بار گہِ ذات و صفات
کوئی مشکل ہو تُو آسان بنا دیتی ہے
حد یہ ہے ، کفر کو ایمان بنا دیتی ہے
غاؔلب و موؔمن و فردوؔدسی و مؔیر و سعدؔی
حاؔفظ و روؔمی و عطؔار و جنید و شبلی
خسؔرو و جاؔمی  وخیؔاّم و انؔیس و عرؔفی
آدم و  یونس و یحییٰ و نبی اور ولی
اِن کی گفتار کی پرواز کی سرحد تُو ہے
غایت ِ جنبش ِ لب ہائے محمد تُو ہے
تُو یقیں اصل و ذکا محور و ادراک اساس
حافظِ مصحفِ حق، سنّت و اجماع وقیاس
نکتہ داں، نکتہ ور و نکتہ رس و نکتہ شناس
تجھ سے انسان کو ہے شادی و غم کا احساس
ملکِ انصاف و صداقت میں ہے شاہی تیری
ہر عدالت میں ہے مقبول گواہی تیری
سردی و گرمی و شیرینی وتلخیّ و عسل
گلشن و وادی و صحرا وتل و دشت وجبل
تُو ہے تہذیب و تمدّن میں ترقّی کا عمل
مشتری، زُہرہ و ناہید و ثریّا وزُحَل
اُٹھ گیا پردۂ تاریکِ شب آسا تجھ سے
ذہنِ انساں پہ ہوا نور کا تڑکا تجھ سے
ہیں ترے تابعِ فرماں حرکات و سکنات
تیرے ہی دم سے شعور ِ حسنات وبرکات
تجھ سے مضبوط اساسِ در و دیوار ِ حیات
منحصر تیری بلندی پہ عروج ِ درجات
تیر قوّت کی ادا اہلِ نظر جان گئے
تیرا لوہا مَلک و ارض و سما مان گئے
ہے عباراتِ پریشان کی تجھی سے تطبیق
تیری عفّت سے مزیّن ہے کلامِ صدیق
تجھ سے بے بہرہ اگر ہو تو ہے انساں زندیق
قصرِ اخلاق ہے تُو اور بِنائے تخلیق
تجھ سے ساغر مئے افکار کے ہم بھرتے ہیں
عرش والے ترے اجلال کا دم بھرتے ہیں
تیری تحریک کے محتاج ہیں عرفان و شعور
تیرے پردوں میں ہے سازِ طربِ جم مستُور
تیری شادابیِ افکار سے انساں مسرور
تیری ٹھوکر میں ہے جامِ جم و تاجِ فغفُور
کس کی آہٹ تھی، جو یہ دشت و جَبل کانپ گئے
کس کی تکبیر تھی، کیوں لات و ہُبَل کانپ گئے
دشنہ و ناوک وتیر و تبر تیغ و قلم
نیزہ خنجر  وگُرز و طبل و جاہ و حشم
منجیق و زِرہ و جوشن و شمشیر و علَم
ترکش و خود و خدنگ و سپر و ماتم و غم
اِن سے تُو نے صفِ پیکار میں جب کام لیا
ضرب وہ آئی کہ دشمن نے جگر تھام لیا
برق نے پائی ہے تھوڑی سی روانی تیری
قُمریوں میں روشِ زمزمہ خوانی تیری
معتبر تا بہ فلک سِحر بیانی تیری
ہم تو کیا، بات فرشتوں نے بھی مانی تیری
ساری دنیا میں جہالت کا بسیرا ہو جائے
تُو جو اُٹھ جائے تو عالم میں اندھیرا ہو جائے
نُور ِ مہتاب ہے، دریا کی روانی تُو ہے
شوق کا حُسن  ہے، جذبوں کی جوانی تُو ہے
عزّت و عظمتِ انساں کی نشانی تُو ہے
سچ ہے، تعمیر و ترقّی کی کہانی تُو ہے
عقل پلّے ہو، یہی ایک  ہے  بس کام کی بات
یہی ایماں کا خلاصہ ، یہی اسلام کی بات
(عرش ناز)

...

کیا حُسن کا شہکار وہ اللہُ غنی ہے

بہ سلسلۂ گلبدنی

 

قارئین! آپ میری اِس نظم کو بہ اعتبارِ موضوع اوراسلُوبِ بیان میرے عام رنگِ سخن سے قطعی مختلف پائیں گے اس امر کی وضاحت ہے، ہُوا یُوں کہ جنابِ جوؔش ملیح آبادی کی نظم ’’گلبدنی‘‘ کی بڑی دھوم تھی ایک دن دورانِ ملاقات یہ نظم سننے کا اتفاق ہوا، دوسرے احباب بھی موجود تھے، جنابِ جوؔش کا اندازِ بیاں لکھنوی زبان کا رکھ رکھاؤ اور پھر ان کے پڑھنے کا انداز بڑا ہی لطف آیا، یہ غالباً 1971 یا 72 ء کی بات ہے، احباب نے فرمائش کی کہ میں بھی اسی انداز میں کچھ کہوں ہرچند یہ میرامذاق نہ تھا مگر

اصرارِ احبّا ناطق تھا، ناچار اِس راہ پڑا جانا

چنانچہ اپنی اِس نظم کو جوؔش صاحب کی گلبدنی کا ہمزاج بنانے کے لئے مجبوراً مجھے خود کو اُسی بے باکانہ اور رندانہ لب و لہجے سے آشنا کرنا پڑا، جو جنابِ جوش کی نظم کی خصوصیّت ہے ۔ نظم لکھنے کا مقصد احباب کی تکمیلِ فرمائش تھی، نہ کہ جنابِ جوش کی  قدرت ِ کلام اور زبان دانی کا مقابلہ  ۔ اُمیّد ہے کہ پڑھنے والے اِس نظم گلبدنی کو انہی معروضات کی روشنی میں دیکھیں گے

نصؔیر کان اللہ لہٗ

(عرشِ ناز)

 

کیا حُسن کا شہکار وہ اللہُ غنی ہے
قامت میں دل آویزیٔ سروِ چَمَنی ہے
سر تابہ قدم موجۂ شیریں سُخَنی ہے
وہ شیزۂ کہسار و غزالِ خُتَنی ہے
دانتوں کی چمک رُو کشِ دُرِّ عَدَنی ہے
کیا گل بَدَنی ، گل بَدَنی ، گل بَدَنی ہے
 شانوں پہ ہیں گیسو کہ گھٹائیں نیں مُعنبر
لب کیفِ تکّلم سے کھنکتے ہوئے ساغر
پیشانیِ ضَو بار ہے یا ماہِ منوَّر
ابرو ہیں کماں رنگ، مِژہ ناوکِ خود سر
مُکھڑے  پہ ہے جو خال ، عقیقِ یَمَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
اَنفاس کی خوشبو ہے کہ مہکا ہوا گلشن
زلفوں کی گھٹی چھاؤں کہ اُمڈا ہُوا ساون
جھکتی سی نگاہیں تو اُبھرتا ہوا جوبن
بَجتے ہوئے پنڈے کے وہ ہر تار کی جَھن جَھن
چہرہ جو گلابی تو قبا ناروَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
قامت کا خَم و چَم ہے کہ دجلے کی روانی
نقشِ کفِ پا رُو کشِ صد تاجِ کیانی
زلفوں کے سِیَہ ابر کی وہ عطر فشانی
گُل رنگ پسینے میں ہے غرقاب جوانی
جو بُوند ہے ماتھے پہ وہ ہِیرے کی کَنِی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
انداز ہیں اعجاز، کرشمہ ہیں ادائیں
سُلجھائے جو گیسو تو اُلَجھی ہیں گھٹائیں
کلیوں کی چٹک ، لیتی ہے لہجے کی بَلائیں
مل جائے جو ہم کو تو کلیجے سے لگائیں
دل میں یہی بات جو مدّت سے ٹھنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
غمزے ہیں کہ آفت ہیں ، اشارے ہیں کہ طوفاں
باتیں ہیں کہ گھٹائیں ہیں، تبسّم کہ گلستاں
شوخی ہے کہ بجلی ہے، خموشی  ہے کہ پیکاں
چہرے پہ تجلّی ہے کہ ہے ماہِ زمستاں
سانسوں میں وہ لَپٹیں ہیں کہ جانوں پہ بَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَ نی ہے
تیور ہیں کہ تلوار، ادائیں ہیں کہ خنجر
عشوے ہیں کہ نیزے ہیں، نگاہیں ہیں کہ نشتر
پلکیں ہیں کہ شب خُوں  پہ کمر بستہ ہے لشکر
یہ چینِ جبیں ہے کہ عُقُوبت گہِ محشر
قامت ہے کہ نیزہ ہے، نظر ہے کہ اَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
ماتھے پہ پھبن، پھول سے ہونٹوں پہ تبسُّم
رخسار کے دریا  میں ہے جلووں کا تلاطُم
افکار میں نُدرت ہے تو لفظوں میں ترنُّم
لہجے میں تحمُّل ہے تو باتوں میں تحکمُّ
مہکائے ہوئے بزم کو عنبر دَہَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
یہ مانگ میں افشاں ہے کہ رخشندہ ستارے
اُٹھتا ہوا جوبن ہے کہ مُڑتے ہوئے دھارے
تابندہ خَد و خال کہ رقصندہ شرارے
جُنبیدہ لَٹیں ہیں کہ چَکاروں کے طرارے
ساون کی سہ رات ہے یا زلف گھنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
چلتی ہے تو مِل جاتی ہیں راہوں کو زبانیں
چِھٹکاتی ہے جب زلف، برس پڑتی ہیں تانیں
آتی ہے جماہی تو درکتی ہیں چٹانیں
انگڑائی جو لیتی ہے، کڑکتی ہیں کمانیں
ابرو میں لیے جذبۂ ناوک فِگَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَ نی ہے
وہ قہر سے دیکھے تو سمندر کو سُکھا دے
چاہے تو اداؤں سے پہاڑوں کو ہِلا دے
شوخی پہ جو اُترے تو دو عالم کو نچا دے
کیوں خانۂ عُشّاق کو پل بھر میں نہ ڈھا دے
کعبے میں جسے حوصلۂ نَقبِ زنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَ نی ہے
ہر بول میں ہے بادۂ گُل گُوں کی روانی
ہر مَوجۂ اَنفاس میں ہے زمزمہ خوانی
خوں ریز اشارے ہیں تو قاتل ہے جوانی
ہے جِھیل سی آنکھوں میں چمکتا ہُوا پانی
وہ شعلہ ہے جلوت میں تو خلوت میں بَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
شوخی میں بھرے دولتِ دیرینہ قُطبَین
چوٹی میں  لپیٹے شبِ رعنائیِ دارَین
اُلٹے ہوئے گُھونگٹ تو اُتارے ہوئے نَعلَین
وہ بِنتِ قمر آگہی، لے داورِ کونین!
یہ دینِ مقدّس ہے، یہ دنیائے دَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
غُنچے کا دِکھاتی ہے سماں تنگ دہانی
نُطق ایسا کہ بِپھرے ہوئے دریا کی روانی
اندازِ تخاطُب میں غُرورِ ہمہ دانی
الفاظ میں ہیں گوہرِ صد رنگ ِ معانی
اِن کا جو نہ قائل ہو وہ گردن زَدَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
اُٹھتا نہیں گُھونگٹ کی طرف دستِ حنائی
ہر انگ لَجاتا ہے دمِ چہرہ کُشائی
نظروں کی گَرانی سے مُڑَکتی ہے کلائی
حاصل ہے جسے اِس درِ دولت کی گدائی
وہ خسروِ آفاق کی مانند غنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَ نی ہے
سن ہے جو ترو تازہ ت ورخسار ہیں شاداب
جِلد اِتنی ملائم کہ خَجِل قاقُم و سنجاب
پلکوں کے جھپکنے میں ہے آمادگیِ خواب
نظروں میں جو لہریں ہیں تو آنکھوں  میں ہے گرداب
شبنم کی دُلائی سی شبستاں میں تَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
سرشار مناظر ہیں ، جنوں خیز ہوائیں
قاتل ہے تبسّم تو قیامت ہیں ادائیں
پہلو میں ہے وہ شوخ معطّر ہیں فضائیں
اِس وقت کہ گھِرتی چلی آتی ہیں گھٹائیں
ساغر کو پَٹک دوں تو یہ ایماں شکنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
دیکھو اُسے ہنگامِ برافگندہ نقابی
اک مُصحفِ تابندہ ہے یا رُوئے کتابی
نغمہ ہےنظر، آنکھ کے ڈورے ہیں رَبابی
کلیوں کی مہک جسم میں ، مُکھڑا ہے گُلابی
یہ شکل و شباہت نہ بنے گی ، نہ بَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَ نی ہے
آہنگِ جوانی پہ سماوات ہیں رقصاں
آواز ہے اک نغمہ ،  تو لہجہ گُلِ خنداں
بنیادِ دو عالم ہے اشارات سے لرزاں
 مَسقَط دلِ عُشّاق کا ہے چاہِ زنخداں
وہ مَوجۂ تابندگیِ سیم تَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
تھم جائے وہیں، دیکھے اگر گردشِ دوراں
ہو واعظِ بے چارہ بھی انگشت بدنداں
الحاد کے زانُو ہے سویا ہُوا ایماں
اعلانِ خدائی ہے لبِ کفر پہ غلطاں
اب اے جسے دلولۂ بُت شِکَنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
کچھ غم نہیں اُلفت میں جو دن رات کراہیں
چبھتی رہیں سینے وہ بے باک نگاہیں
دُھن ہے کہ گلے میں رہیں وہ پھول سی بانہیں
کیونکر نہ نصؔیر اُس بتِ نو خیز کو چاہیں
رگ رگ میں رچی عاشقی و برہمنی ہے
کیا گل بَدَنی، گل بَدَنی، گل بَدَنی ہے
(عرشِ ناز)

...

مینوں تیرے فراق نے مار سٹیا آجا آجا او جانِ بہار آجا

مینوں تیرے فراق نے مار سٹیا آجا آجا او جانِ بہار آجا
اینہان ساہواں دا نہیں اتبار کوئی تینوں دیکھ تے لاں اک وار آجا
مالا تیرے پریم دی گل پاکے تیرے رہ وچ سیس نوا بیٹھی
تیرے اون دی خوشی وچ اجے توڑی بیٹھی کرنی آں بار سنگار آجا
تینوں لِکھ لِکھ چٹھیاں پاونی آں دل چیر کے پئ وکھاونی آں
چنّا! دوریاں نوں ہن تے دور کر کے ساری عمر دے لئ اکّو وار آجا
تیری دیدنوں اکھیاں ترس گیاں لکّھاں بدلیان غم دیاں برس گیاں
 تینوں قسم ہے اپنیاں غفلتاں دی میرے کول مِرے غم خوار آجا
آتش ہجردی بدن پئ ساڑدی اے میریاں وسدیاں جھوکاں اجاڑدی اے
دو تِن ہچکیاں رہ گیاں موت وچوں ہن تے جین دے نہیں آثار آجا
آ کے کدی تے پچھ دل اوسدے توں جیہدی آس دی دنیا توں لٹ لیَ اے
کنِّی لمبی اے رات جدائیاں دی مِرے مہربان دلدار آجا
سداحُسن دے بدل گجدے نہیں سدا ظلم دے واجے وجدے نہیں
میریا جگ توں سوہنیا محبوبا ہے نصؔیر ڈاہڈا بے قرار آجا
(عرشِ ناز)

...

ہم کا دکھائی دیت ہے ایسی رُوپ کی آگیا ساجن ماں

بہ زبانِ پُوربی

 

ہم کا دکھائی دیت ہے ایسی رُوپ کی آگیا ساجن ماں
جھونس رہا ہے تن من ہمرا نِیر بھر آئے آنکھیں ماں
دُور بھئے ہیں جب سے ساجن آ گ لگی ہے تن من ماں
پُورب پچّھم اُتّر دَکّھن ڈھونڈ پِھری میَں بن بن ماں
یاد ستاوے پردیسی کی دل لَوٹت انگاروں پر
ساتھ پیا ہمرا جب ناہیں آگیا بارد گلشن ماں
درشن کی پیاسی ہے نجریا تر سین انکھیاں دیکھن کا
ہم سے روٹھے مُنھ کو چھپائے بیٹھے ہو کیوں چلمن ماں
ایک تہاری آس پہ ساجن سگرے بندھن توڑے ہیں
اپنا کر کے راکھیو موہے آن پڑی ہوں چرنن ماں
چَھٹ جائیں یہ غم کے اندھیرے گھٹ جائیں یہ درد گھنے
چاند سامکھڑا لے کر تم جو آنکلو مورے آنگن ماں
جیون آگ بگولا ہِردے آس نہ اپنے پاس کوئی
تیرے پریت کی مایہ ہے کچھ ، اور نہیں مجھ نِرد ھن ماں
ڈال گلے میں پیت کی مالا خود ہے نصؔیر اب متوالا
چتوں میں جادو کا جتن ہے رس کے بھرے تورے نینن ماں
(عرشِ ناز)

...

آ پُنلا ! باغ بہاراں وے

آپُنلاباغ بہاراں وے

 

آ پُنلا ! باغ بہاراں وے
مَیں گھول گھتی لکھ واراں وے
رِم جھم ، رِم بُونداں برسن
دید تری نوں اکھیاں ترسن
مَیں روداں تے آہیں  ماراں وے
آ پُنلا و باغ بہاراں وے
میَں گھول گَھتی لکھ واراں وے
اوہ پُر کیف ترانے بُھل گئے
مے خانے، پیمانے بُھل گئے
سب وِسریم مینگھ ملہاراں وے
آ پُنلا و باغ بہاراں وے
مَیں گھول گَھتی لکھ داراں وے
تیرے باہجھ بہار نہ کوئی
غم بہتے غم خوار نہ کوئی
ہتھ جوڑ مَیں عرض گزاراں وے
آ پُنلا و باغ بہاراں وے
مَیں گھول گَھتی لکھ داراں وے
گلشن، باغ، ویرانے مَینوں
اپنے وی بیگانے مَینوں
بِن تیرے مَیں کِس کاراں وے
آ پُنلا باغ بہاراں وے
مَیں گھول گَھتی لکھ داراں وے
دِلڑی غرق غماں وچ ہوئی
راہ نصؔیر نوں دَس جا کوئی
ہک جندڑی تے درد ہزاراں وے
آ پُنلا و باغ بہاراں وے
مَیں گھول گَھتی لکھ داراں وے
(عرشِ ناز)

...

سورج عمر تے آس دا ڈُب چلیا کردا اجے وی نہیں سوہنا یار گلّاں

پنجابی دے غزلیہ چو برگے

 

سورج عمر تے آس دا ڈُب چلیا کردا اجے وی نہیں سوہنا یار گلّاں
لوک بولیاں مار دے ہر ویلے، کٹّن چھاتی نون وانگ تلوار گلّاں
لیکھاں والیاں نال کیہ رِیس ساڈی، کرے اوہناں دے نال دلدار گلّاں
آجا ساہواں دا نہیں وساہ کوئی بوہے مار بہیے، کرئیے چار گلّاں
واہ واہ ہجر فراق دی آگ ڈاڈھی دُھکّھن دِلاں دے نال سرِ یر وکھرے
ڈاروں و چھڑے پنچھی جیوں ہون  زخمی، بھکّھے تسّے تے اُتّوں اسِیر وکھرے
شام پیندیاں ای ڈُب ڈُب آس جاوے لّگن روح تے سوچ نوں تیر وکھرے
ہوندا رہوے جہان وچ ہور سب کُج شالا ہون نہ ویراں تو وِیر و کھرے
پہلے وانگ پتنگ دے ڈور دے کے فیر کٹ کے پتنگ دی کار لُٹیا
دے کے مفت دلاسڑے یاریاں دے اکّو وار تے کیہ لَکّھاں وار لُٹیا
ایسا کرن دی نہیں سی اُمید جس تے اُسے آپ بن کے پہرہ دارلُٹیا
کرئیے شکوہ نصؔیر خزاں دا کیہ ساڈے باغ نوں آپ بہار لُٹیا
تیرے داغِ فراق نوں دل چُمسی لَکّھاں داغ قلب ِ داغدار تے سہی
جاواں تیریاں اداواں دے میں صدقے وگڑی زلف نوں ذرا سنوار تے  سہی
تینوں رب نے جے بادِ بہار کیتا ایہو کرم اِس مشتِ غبار تے سہی
تیری تاہنگ اُڈیک نے مار سٹیا کدے آویں ہا بھاویں مزار تے سہی
دونواں اکّھاں نے رو رو کے رہ پائے اوہدی خبر ہوا دی نہیں آئی
ایسا دل دا شہر خموش ہویا کوئی کُوک صدا وی نہیں آئی
رب نے ساہواں دی ڈور دی نہیں کِھچّی مینوں لین قضا وی نہیں آئی
خ خوشیاں تے ہاسیاں نال وسیّں کریں ہار سنگھار، اللہ خوش رکّھی
کِھڑیا رہویں ہمیش گُلاب وانگوں، سدا دیکھیں بہار، اللہ خوش رکّھی
تکّیں سُکھ تے کدی  نہ دکھ ہووی، رہوی بخت بیدار، اللہ خوش رکّھی
ساڈے نال جو کیتی آ اوہ جانے ساڈا کیہ اے یار! اللہ خوش رکّھی
شین شرم ناہیں جیہڑی دھرت اُتےّ بن بے شرم اوتھے فیروسنا کیہ
جینوں چار ٹکیاں اُتّے مان اِنّاں واجاں مار اوہدے پِچّھے نسنا کیہ
گل کرے جیہڑا  متّھے وٹ پا کے اونوں یار بنا بہتا ہسنا کیہ
جیہڑا نہیں تکدا اوہنوں کیہ تکنا، جیہڑا نہیں پُچھدا اوہنوں دسنا کیہ
الف اج میرے دل دے شہر و چّوں نواں راہی عجیب اَک آلنگھیا
نہیں سی جان پچھان پر کیہ دسّاں کیہ کیہ دس کے ناز و ادا لنگھیا
اوہدے طرزِ خرام دی شان نہ پُچھ پَیر دب کے وانگ صبا لنگھیا
پتہ لگ نہیں سکیا نصؔیر اج تک بندہ لنگھیا کہ آپ خدا لنگھیا
(عرش ناز)

...