بیٹھےہیں ٹھنڈے سائے میں کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
غوث کے در کو چھوڑ کر غیر کے در پہ جائیں کیوں
ٹکڑوں پہ جن کے ہے پلا اُن کا دیانہ کھائے کیوں
غوث کے در کو چھوڑ کر غیر کے در پہ جائیں کیوں
ٹکڑوں پہ جن کے ہے پلا اُن کا دیانہ کھائے کیوں
رجب کی نو (۹) ہے اور خواجہ کا یہ دربارِ عالی ہے
یہاں کی ہر ادا وقتِ سحر ہی نرالی ہے
مظہرِ سرِ وحدت پہ لاکھوں سلام
منبع ہر فضیلت پہ لاکھوں سلام
صدرِ بدرِ نبوت پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
تاج دارِ شفاعت پہ روشن درود
اس سراپا ہدایت پہ روشن درود
بحرِ جود و سخاوت پہ روشن درود
مہرِ چرخِ نبوت پہ روشن درود
گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام
باعثِ خلق کا سرورِ محترم
مرکزِ علم و اخلاق و حلم و حکم
سیدِ انبیا سرورِ باغِ کرم
شہر یار اِرم تاج دارِ حرم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
دونوں عالم کے آقاﷺ پہ دائم درود
بے پناہوں کے ماویٰ پہ دائم درود
شافع روزِ عقبیٰ پہ دائم درود
شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نوشہ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام
جانِ صدیق ہے مار سے بے خطر
عصرِ حیدر ادا ہوگئی وقت پر
چاند کٹ کر ہوا اِک اِدھر اِک اُدھر
صاحبِ رجعت شمس و شق القمر
نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
جھک گئے جس کے قدموں پہ شاہوں کے سر
جس کی خاطر کھلے آسمانوں کے در
عرش پر جو ہوئے شان سے جلوہ گر
صاحبِ رجعت شمس و شق القمر
نائبِ دست قدرت پہ لاکھوں سلام
نور سے جس کے ہے خلق کی ابتدا
ذات پر جس کی عالم کی ہے انتہا
رحمتِ عالمین وصف جس کا ہوا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام
نور جس کا ہوا پہلے جلوہ نما
عرش پر جس کا اسمِ مبارک لکھا
عہد جس کے لیے انبیا سے لیا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام
سید اولیں، سید آخریں
صادق وعد محبوبِ حق و امیں
سرورِ انبیاء، خاتم المرسلیںﷺ
عرش تا فرش ہے جس کے زیر نگیں
اس کی قاہر ریاست پہ لاکھوں سلام
حشر میں ہے فقط آپ کو دسترس
بے بسی پر کسی کا نہیں آج بس
بے کسوں کے لیے ذاتِ والا ہے کس
خلق کے داد رس سب کے فریاد رس
کہف روزِ مصیبت پہ لاکھوں سلام
جس کا روئے مبارک ہوا والضحٰی
جس کے دنداں سے والشّمس کی جلا
جن کے گیسو پہ واللیل صادق ہوا
وصف جس کا ہے آئینہ حق نما
اس خدا ساز طلعت پہ لاکھوں سلام
جس کی ہیبت سے بت اوندھے منھ گر پڑے
جس کے فرمان پر پیڑ کلمہ پڑھیں
جانور جس کے قدموں پہ سجدہ کریں
جس کے آگے سرِ سروراں خم رہیں
اس سر تاج رفعت پہ لاکھوں سلام
جس کے سر نورِ حق کا عمامہ بندھا
انبیا کے جلوے میں جو دولھا بنا
روز محشر جو مختارِ مطلق ہوا
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام
روز محشر عجب کشمکش ہے بپا
اپنی بخشش کا جویا ہے ہر مبتلا
نفسی نفسی کہیں انبیاء اولیاء
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام
بےطلب ہم غلاموں کو اکثر دیا
جو بھی مانگا گیا اس سے بہتر دیا
چشم رحمت جدھر اُٹھ گئیں بھر دیا
ہاتھ جس سمت اُٹھا غنی کر دیا
موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام
صدر اجلاس اقصیٰ پہ روشن درود
ساکن عرش اعلیٰ پہ روشن درود
واقف راز اوحیٰ پہ روشن درود
شبِ اسریٰ کے دولہا پہ دائم درود
نوشۂ بزم جنت پہ لاکھوں سلام
ہم پہ لطف و کرم کی در افشانیاں
نور و رحمت کی عالم پہ ضو ریزیاں
بھینی بھینی ہدایت کی گل پاشیاں
پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
ہلکی ہلکی تبسم کی گل ریزیاں
میٹھی میٹھی وہ رحمت کی گل پاشیاں
بھینی بھینی وہ خوشبوئے جسم و دہاں
پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
نفسی نفسی کا جس دم ہو ہر سمت دور
بے بسی پر ہر اک اپنی کرتا ہو غور
دستِ رحمت میں لے کر شفاعت کا طور
کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور
بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام
تو بھی بُرہاؔن ہو شیخ کے ہم نوا
عید الاسلامؔ کے ساتھ اس جا کھڑا
جس کی نسبت مرے شیخ نے یہ کہا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضؔا
مصطفیٰﷺ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ